عصری تعلیمی اداروں کے حوالے سے چند سوالات
سوال :-
استفتاء مندرجہ ذیل تین مسئلوں کے بارے میں شریعت کی روشنی میں راہنمائی درکار ہے: 1۔ ہمارے ہاں اپنے گاؤں میں لڑکیوں کا کوئی مڈل یا ہائی سکول نہیں ہے جس کی وجہ سے پرائمری کے بعد لڑکوں کے ہائی سکول میں لڑکیوں کوداخل کیا جاتا ہے۔یہ لڑکیاں مکمل پردے کے ساتھ ٹوپی والے برقعہ میں سکول جاتی ہیں اور وہاں لڑکوں سے پیچھے والے سیٹوں پر بیٹھتی ہیں۔اب ایک مسئلہ یہ پیش آیا ہے کہ سکول میں بزم ادب کا پروگرام شروع ہوا ہے جس میں یہ لڑکیاں بھی حصہ لیتی ہیں اور تمام اساتذہ کرام اور لڑکوں کے سامنے تقاریر بھی کرتی ہیں ،ترنم کے ساتھ ملی نغمیں بھی گاتی ہیں اور نعت بھی پڑھتی ہیں ۔لڑکوں میں بھی اکثریت بالغ لڑکوں کی ہے اور ان لڑکیوں میں بھی اکثر لڑکیاں بالغ ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کی روشنی میں ایک لڑکی کے لیے اس طرح لڑکوں کےسکول میں پڑھنا اور پھر بزم ادب کے دوران لڑکوں کے سامنے تقاریر کرنا یا نعت وغیرہ پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ 2۔ہمارے سکول میں پرانے زمانے سے ایک دستور یہ چلا آرہا ہے کہ لڑکے اساتذہ کے لیے گھروں سے لکڑیاں لاتے ہیں اور ان لکڑیوں کو جلا کر اساتذہ کے لیے چائے اور کھانا وغیرہ تیا رکیا جاتا ہے۔کیا سرکاری سکول کے اساتذہ کے لیے ایسا کرنا درست ہے کہ وہ اپنے لیے طلبہ سے لکڑیاں منگوا کر اُسے استعمال کریں؟ 2۔ہمارے سکول میں غیرحاضری وغیرہ کی وجہ سے مہینے کے آخر میں طلبہ سے جرمانہ لیا جاتا ہے ۔کیا شریعت کی رُو سے مالی جرمانہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ المستفتی شیرافضل خان گورنمنٹ ہائی سکول دیول گڑھی (گدون)
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے تینوں سوالوں کے جواب حسب ترتیب مندرجہ ذیل ہیں:
1۔بچوں کی تعلیم وتربیت والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔تعلیم اور تربیت میں لڑکے اور لڑکی کاکوئی فرق نہیں ،بلکہ اسلام نے تو لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ دی ہے۔بنیادی دینی تعلیم کا حصول تو ہرمسلمان کے ذمہ لازم ہے۔دنیوی تعلیم کا حصول بھی شریعت کی رُو سے جائز ہے مگر مخلوط تعلیم جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ پڑھایا جاتا ہو،بہت سارے مفاسد کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔لڑکوں کو لڑکوں کے مدرسہ،سکول،کالج اور یونیورسٹی میں داخل کیا جائے اور لڑکیوں کو لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں داخل کیا جائے۔شدید مجبوری کے بغیر مخلوط تعلیم کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہے۔البتہ اگر شدیدمجبوری کی صورت پیش آجائے توپھرضرورت کے وقت بقدرضرورت چند شرائط کے ساتھ صرف گنجائش ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ امید کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس عمل پرکوئی مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔
جیسا کہ سوال میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے گاؤں میں لڑکیوں کا کوئی مڈل یاہائی سکول نہیں ہے اور پرائمری کے بعد لڑکیوں کو لڑکوں کے سکول میں داخل کیا جاتا ہےتوضرورت کے وقت مندرجہ ذیل امورکالحاظ رکھتے ہوئےلڑکیوں کے لیے لڑکوں کے سکول میں پڑھنے کی گنجائش ہوگی ،مگریہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ صرف بامرمجبوری ایک گنجائش ہی ہوگی ،اسے علیٰ الاطلاق جواز نہ سمجھا جائے۔
1۔سکول میں آنے والی لڑکیاں شرعی پردے کی مکمل پابندی کرے۔زیادہ مناسب یہ ہے کہ تمام لڑکیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ٹوپی والا برقعہ،ہاتھوں میں دستانے اور پاؤوں میں جرابیں ضرور پہنا کریں۔
2۔سکول آتے وقت لڑکیاں کسی بھی قسم کی کوئی خوشبو استعمال نہ کریں اورنہ ہی ایسے جاذب نظر لباس کااستعمال کریں جو لوگوں کی کشش کا سبب بنتا ہو،علاوہ ازیں پاؤوں میں پازیب بالکل نہ پہنیں اور نہ ہی ایسے جوتوں کااستعمال کریں جن سے چلنے کے دوران آواز پیدا ہوتی ہو۔
3۔دور دراز سے آنے والی لڑکیاں یا توجماعت کی شکل میں آیا کریں یا ہرایک بچی کے ساتھ اُس کاکوئی محرم رشتہ دار سکول تک آیا کرے ۔ اسی طرح سکول سے واپسی میں بھی یاتوجماعت کی شکل میں جایا کریں یا اپنے محرم رشتہ داروں کے ساتھ جایا کریں۔ نوجوان لڑکی کااکیلے سکول آنا یا سکول سے اکیلے واپس جانا خلاف احتیاط ہے۔
4۔سکول میں لڑکیوں کی نشت لڑکوں سے بالکل الگ ہو یعنی اگر لڑکیوں کی کلاس لڑکوں سے بالکل الگ ہو تو زیادہ بہتر ہے ورنہ پھر مخلوط کلاس کی صورت میں لڑکیوں کو پیچھے بٹھایا جائےاور لڑکوں کو آگے کی نشستوں میں بٹھایا جائے۔
5۔کوشش کی جائے کہ کلاس رومز میں اگر دو دروازے ہوں تو ایک دروازہ لڑکیوں کے آنے جانے کے لیے اور دوسرا دروازہ لڑکوں کے آنے جانے کے لیے مختص کیا جائے،اور اگر کلاس روم سنگل ڈور والا ہو تو پھر کمرے کےایک طرف کولڑکیوں کے راستے کے لیے مختص کیا جائے تاکہ کسی بچی کا لڑکوں کے درمیان سے آناجانا نہ ہو۔
6۔کلاس کی مکمل نگرانی کی جائے تاکہ لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین کسی بھی قسم کی کوئی گفت وشنید شروع نہ ہوجائے۔
7۔یہ کوشش کی جائے کہ جن جن کلاسز میں لڑکیاں ہیں وہاں معمر اورشادی شدہ اساتذہ تدریس کیا کریں،نیز کوئی بھی استاذ لڑکیوں کے ساتھ غیر ضروری گفتگو نہ کیا کرے۔
8۔سکول میں لڑکیوں کے لیے الگ واش روم کا انتظام لازمی ہے نیز سکول آتے جاتے وقت اس بات کااہتمام کیا جائے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کااختلاط نہ ہوجایا کرے جس کی ایک ممکن صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سکول آتے وقت یا سکول سے جاتے وقت لڑکیوں کا ٹائم لڑکوں سے مختلف مقرر کیا جائے۔
9۔اساتذہ کرام پڑھانے کے دوران براہ راست مخاطب لڑکوں کو بنائے ،لڑکیوں کو مخاطب نہ کیا کریں۔
10۔بوقت ضرورت اساتذہ کرام لڑکیوں سے مکمل سنجیدگی سے بات کیا کریں ،بے تکلفانہ گفتگو کرنے سے پرہیز انتہائی ضروری ہے۔مکمل سنجیدہ انداز میں نظروں کی حفاظت کے ساتھ بقدرضرورت گفتگو کی جائے۔
11۔جہاں تک بزم ادب کا سوال ہے توبزم ادب ہم نصابی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہے اور طلبہ کی تعلیم وتربیت کا ایک لازمی جزو ہے،مگر لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ مخلوط بزم ادب کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔نوجوان لڑکی کا سینکڑوں کی تعدادمیں موجود بالغ لڑکوں کے سامنے تقاریر کرنے یانعت پڑھنے کی نہ شریعت اجازت دیتی ہے اور نہ ہی ہماری تہذیب و ثقافت میں اس کی گنجائش ہے۔اس کا آسان حل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی الگ ہال یا کلاس روم میں لڑکیوں کا الگ سے بزم ادب مقرر کیا جائے۔
12۔ہمارے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اس وجہ سے آپ تمام لوگوں کو چاہیئے کہ گرلز ہائی سکول کے قیام کی خاطر سرکار سے رابطہ کریں اور یہ کوشش کریں کہ بچیوں کا الگ سے ہائی سکول قائم ہوجائے۔
13۔کوئی بھی لڑکی کسی لڑکے یا کسی استاذ کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہ رکے،اور نہ ہی اکیلے میں ملاقات کرے ۔اسی طرح لڑکیوں کا لڑکوں یااساتذہ کے ساتھ ہنسی مزاح کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
14۔ضرورت کے وقت اگر لڑکیوں کو اساتذہ سے بات کرنی پڑ جائے تو اپنے لہجے میں سختی اور درشتی پیدا کرے،نرم لہجے میں بات کرنے سے گریز کرنی چاہیئے۔
15۔دوران کلاس اساتذہ اپنے نظروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ سورۃ النور،آیت:30،31۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الحَمْوَ، قَالَ:الحَمْوُ المَوْتُ وَفِي البَاب عَنْ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَعَمْرِو بْنِ العَاصِ.: حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا مَعْنَى كَرَاهِيَةِ الدُّخُولِ عَلَى النِّسَاءِ عَلَى نَحْوِ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ،"وَمَعْنَى قَوْلِهِ: الحَمْوُ، يُقَالُ: هُوَ أَخُو الزَّوْجِ، كَأَنَّهُ كَرِهَ لَهُ أَنْ يَخْلُوَ بِهَا۔
سنن الترمذی،مطبع مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:1171۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَلَا لَا يَبِيتَنَّ رَجُلٌ عِنْدَ امْرَأَةٍ ثَيِّبٍ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَاكِحًا أَوْ ذَا مَحْرَمٍ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:2171۔
(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمةوقال عليه الصلاة والسلام:من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة،وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلا يحل له النظر والمس كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى (إلا من أجنبية) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ولذا تثبت به حرمة المصاهرة وهذا في الشابة،أما العجوز التي لا تشتهى فلا بأس بمصافحتها ومس يدها إذا أمن، ومتى جاز المس جاز سفره بها ويخلو إذا أمن عليه وعليها وإلا لا وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة هربت ودخلت خربة أو كانت عجوزا شوهاء أو بحائل، والخلوة بالمحرم مباحة إلا الأخت رضاعا، والصهرة الشابة وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى، وبه بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة فتنبه(وله مس ذلك) أي ما حل نظره (إذا أراد الشراء وإن خاف شهوته) للضرورة وقيل لا في زماننا وبه جزم في الاختيار (وأمة بلغت حد الشهوة لا تعرض) على البيع (في إزار واحد) يستر ما بين السرة والركبة لأن ظهرها وبطنها عورة(و) ينظر (من الأجنبية) ولو كافرة مجتبى (إلى وجهها وكفيها فقط) للضرورة قيل والقدم والذراع إذا أجرت نفسها للخبز تتارخانية.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:366،367۔
(قوله وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس۔وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفس۔ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة (قوله في نقل القهستاني) أي عن بيع المبسوط (قوله زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية۔وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم۔فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة على الراجح ومر الكلام فيه فراجعه۔
حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:366،367۔
فحل النظر منوط بعدم خشية الشهوة مع انتفاء العورة ولذا حرم النظر إلى وجهها ووجه الأمرد إذا شك في الشهوة ولا عورة.وفي كون المسترسل من شعرها عورة روايتان. وفي المحيط الأصح أنه عورة وإلا جاز النظر إلى صدغ الأجنبية وطرف ناصيتها وهو يؤدي إلى الفتنة وأنت علمت أنه لا تلازم بينهما كما أريتك في المثال.صرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من الأعمى، قال: لأن نغمتها عورة، ولهذا قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال والتصفيق للنساء،فلا يحسن أن يسمعها الرجل انتهى كلامه.
فتح القدیر،دارالفکر،بیروت،ج:1،ص:260۔
2۔جہاں تک آپ کے سوال کے دوسرے جزء کا تعلق ہے تو سرکاری سکول کے اساتذہ کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پرطلبہ سے اپنے لیے لکڑیاں وغیرہ منگوانا جائز نہیں ہے:
1۔کسی بھی مسلمان کا مال اس کے طیب نفس کے بغیر کھانا جائز نہیں ہے۔استاذ جب اپنے شاگرد سے اپنے لیے کسی چیز کامطالبہ کرے گا تو وہاں طیب نفس کا پایا جانا یقینی نہیں ہوگا،بلکہ عین ممکن ہے کہ شاگرد استاذ کے ڈر سے وہ کام کرے۔کسی کے مروت میں آکر یا کسی کے ڈر اور خوف کی وجہ سے جو کام کیا جاتا ہے اس میں طیب نفس نہیں ہوتا۔
2۔استاذ جب اپنے شاگرد سے اپنے لیے کسی چیز کامطالبہ کرتا ہےتووہ اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنے استاذ ہونے کی حیثیت سے وہ مطالبہ کرتا ہے،گویا وہ اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتا ہےاورکسی بھی صاحب منصب کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کے علاوہ اپنی ذات کے لیے کسی سے کسی چیز کا مطالبہ کرے۔
3۔ اگرمحکمہ کی طرف سے اجازت نہ ہو تو سرکاری سکول کاٹیچر اپنی ڈیوٹی کے دوران نہ کسی کو اپنے لیے لکڑی لانے کے لیے بھیج سکتا ہے اور نہ ہی اپنے لیے چائے،روٹی یاکھانا وغیرہ تیار کرسکتا ہے۔سرکاری سکول کے ٹیچر کی حیثیت اجیر خاص کی ہوتی ہے اور فقہائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ بغیراجازت کے اجیرخاص اپنے کام کے دورانیہ میں اپناذاتی کوئی بھی کام نہیں کرسکتا۔
4۔سرکاری سکول کے ٹیچر حضرات کاطلبہ سے اپنے لیے لکڑیاں وغیرہ منگواناسرکاری قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن خیبرپختونخواہ کے ایکٹ 2017 کے حصہ دوم ،شق نمبر1میں لکھا ہوا ہے کہ :
No Child shall be liable to pay any kind of fee or charges or expenses which may prevent him or her from pursuing and completing the school education.
اساتذہ کا طلبہ سے لکڑیوں وغیرہ کے مطالبہ کی وجہ سے یہ عین ممکن ہے کہ کوئی بچہ اس سے تنگ آجائے جو کہ محکمے کے مندرجہ بالا قانون کی صریح خلاف ورزی ہوگی،اس وجہ سے بھی اساتذہ کاطلبہ سے لکڑیوں کامطالبہ جائز نہیں ہوگا۔
5۔سکول کے طلبہ میں اکثریت نابالغ طلبہ کی ہوتی ہے اور شریعت مطہرہ کی رُو سے نابالغ بچہ کسی کو کوئی ہدیہ یاتحفہ وغیرہ نہیں دے سکتا۔
6۔اگر کسی استاذ کے بارے میں ڈیپارٹمنٹ میں یہ شکایت چلی جائے کہ وہ طلبہ سے اپنے لیے لکڑیاں وغیرہ منگواتا ہے تو یہ اس استاذ کے لیے ذلت اور رسوائی کا باعث بن جائے گا اور کسی جرم قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو ذلیل کرنے کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔
عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:2،ص:717،رقم الحدیث:1035۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ , إِنْ لَقِيتُ غَنَمَ ابْنِ عَمِّي ,آخُذُ مِنْهَا شَيْئًا؟ فَقَالَ:إِنْ لَقِيتَهَا تَحْمِلُ شَفْرَةً وَأَزْنَادًا بِخَبْتِ الْجَمِيشِ فَلَا تَهِجْهَا۔
شرح معانی الآثار،عالم الکتاب،الطبعۃ الاولیٰ،1414ھ،ج:4،ص:241،رقم الحدیث:6633۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ:يَتَعَرَّضُ مِنَ البَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ۔
سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:2254۔
عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: ابْنُ الْأُتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ فَجَاءَ، فَقَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ:مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَجِيءُ فَيَقُولُ هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَلَا جَلَسَ فِي بَيْتِ أُمِّهِ أَوْ أَبِيهِ فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا؟ لَا يَأْتِي أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا فَلَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً فَلَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ۔ سنن ابی داؤد،المکتبۃ العصریۃ،بیروت،ج:3،ص:134،رقم الحدیث:2946۔
قلت في هذا بيان أن هدايا العمال سحت وأنه ليس سبيلها سبيل سائر الهدايا المباحة وإنما يهدى إليه المحاباة وليخفف عن المهدي ويسوغ له بعض الواجب عليه وهو خيانة منه وبخس للحق الواجب عليه استيفاؤه لأهله.
معالم السنن،المطبعۃ العلمیۃ،حلب،الطبعۃ الاولیٰ،1352ھ،ج:3،ص:8۔
فالأخذ بالمحرم أولى عند التعارض احتياطا للحرمة؛ لأنه يلحقه المأثم بارتكاب المحرم، ولا مأثم في ترك المباح۔
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:2،ص:264۔
(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى.
حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:70۔
يُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ عَاقِلًا بَالِغًا بِنَاءً عَلَيْهِ لَا تَصِحُّ هِبَةُ الصَّغِيرِ وَالْمَجْنُونِ وَالْمَعْتُوهِ وَأَمَّا الْهِبَةُ لِهَؤُلَاءِ فَصَحِيحَةٌ.۔۔۔۔۔۔۔ يَلْزَمُ فِي الْهِبَةِ رِضَاءُ الْوَاهِبِ فَلَا تَصِحُّ الْهِبَةُ الَّتِي وَقَعَتْ بِالْجَبْرِ وَالْإِكْرَاهِ.
مجلۃ الاحکام العدلیۃ،نورمحمدکتب خانہ،آرام باغ،کراچی،ص:165۔
امور مباحہ میں حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی سخت گناہ ہے۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع چہارم،1425ھ،ج:8،ص:217۔
3۔جہاں تک آپ کے استفتاء کے تیسرےجزء کا تعلق ہے توغیرحاضری کی وجہ سے بچوں سے مالی جرمانہ لیناجائز نہیں ہے،اس وجہ سے جرمانہ لینے کے اس معمول کوفوراًختم کیا جائے۔جن بچوں سے جرمانے کی رقم جمع کی گئی ہے وہ رقم ان بچوں کو واپس کیا جائے۔غیرحاضری کی وجہ سے مالی جرمانہ لینے کی بجائے کوئی اورمتبادل صورت اختیار کی جائے۔
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه۔ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.
حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:4،ص:61۔
طالب علم کا مدرسہ وغیرہ سے انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کثرت سے غیرحاضر رہنا یادیگر کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب کرنا اگرچہ موجب سزا ہے مگریہ سزا جسمانی حد تک محدود ہونی چاہیئے،مالی جرمانہ شرعاً صحیح نہیں ۔۔۔۔الخ
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،طبع ہفتم،1431ھ،ج:5،ص:172۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے تینوں سوالوں کے جواب حسب ترتیب مندرجہ ذیل ہیں:
1۔بچوں کی تعلیم وتربیت والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔تعلیم اور تربیت میں لڑکے اور لڑکی کاکوئی فرق نہیں ،بلکہ اسلام نے تو لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ دی ہے۔بنیادی دینی تعلیم کا حصول تو ہرمسلمان کے ذمہ لازم ہے۔دنیوی تعلیم کا حصول بھی شریعت کی رُو سے جائز ہے مگر مخلوط تعلیم جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ پڑھایا جاتا ہو،بہت سارے مفاسد کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔لڑکوں کو لڑکوں کے مدرسہ،سکول،کالج اور یونیورسٹی میں داخل کیا جائے اور لڑکیوں کو لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں داخل کیا جائے۔شدید مجبوری کے بغیر مخلوط تعلیم کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہے۔البتہ اگر شدیدمجبوری کی صورت پیش آجائے توپھرضرورت کے وقت بقدرضرورت چند شرائط کے ساتھ صرف گنجائش ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ امید کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس عمل پرکوئی مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔
جیسا کہ سوال میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے گاؤں میں لڑکیوں کا کوئی مڈل یاہائی سکول نہیں ہے اور پرائمری کے بعد لڑکیوں کو لڑکوں کے سکول میں داخل کیا جاتا ہےتوضرورت کے وقت مندرجہ ذیل امورکالحاظ رکھتے ہوئےلڑکیوں کے لیے لڑکوں کے سکول میں پڑھنے کی گنجائش ہوگی ،مگریہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ صرف بامرمجبوری ایک گنجائش ہی ہوگی ،اسے علیٰ الاطلاق جواز نہ سمجھا جائے۔
1۔سکول میں آنے والی لڑکیاں شرعی پردے کی مکمل پابندی کرے۔زیادہ مناسب یہ ہے کہ تمام لڑکیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ٹوپی والا برقعہ،ہاتھوں میں دستانے اور پاؤوں میں جرابیں ضرور پہنا کریں۔
2۔سکول آتے وقت لڑکیاں کسی بھی قسم کی کوئی خوشبو استعمال نہ کریں اورنہ ہی ایسے جاذب نظر لباس کااستعمال کریں جو لوگوں کی کشش کا سبب بنتا ہو،علاوہ ازیں پاؤوں میں پازیب بالکل نہ پہنیں اور نہ ہی ایسے جوتوں کااستعمال کریں جن سے چلنے کے دوران آواز پیدا ہوتی ہو۔
3۔دور دراز سے آنے والی لڑکیاں یا توجماعت کی شکل میں آیا کریں یا ہرایک بچی کے ساتھ اُس کاکوئی محرم رشتہ دار سکول تک آیا کرے ۔ اسی طرح سکول سے واپسی میں بھی یاتوجماعت کی شکل میں جایا کریں یا اپنے محرم رشتہ داروں کے ساتھ جایا کریں۔ نوجوان لڑکی کااکیلے سکول آنا یا سکول سے اکیلے واپس جانا خلاف احتیاط ہے۔
4۔سکول میں لڑکیوں کی نشت لڑکوں سے بالکل الگ ہو یعنی اگر لڑکیوں کی کلاس لڑکوں سے بالکل الگ ہو تو زیادہ بہتر ہے ورنہ پھر مخلوط کلاس کی صورت میں لڑکیوں کو پیچھے بٹھایا جائےاور لڑکوں کو آگے کی نشستوں میں بٹھایا جائے۔
5۔کوشش کی جائے کہ کلاس رومز میں اگر دو دروازے ہوں تو ایک دروازہ لڑکیوں کے آنے جانے کے لیے اور دوسرا دروازہ لڑکوں کے آنے جانے کے لیے مختص کیا جائے،اور اگر کلاس روم سنگل ڈور والا ہو تو پھر کمرے کےایک طرف کولڑکیوں کے راستے کے لیے مختص کیا جائے تاکہ کسی بچی کا لڑکوں کے درمیان سے آناجانا نہ ہو۔
6۔کلاس کی مکمل نگرانی کی جائے تاکہ لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین کسی بھی قسم کی کوئی گفت وشنید شروع نہ ہوجائے۔
7۔یہ کوشش کی جائے کہ جن جن کلاسز میں لڑکیاں ہیں وہاں معمر اورشادی شدہ اساتذہ تدریس کیا کریں،نیز کوئی بھی استاذ لڑکیوں کے ساتھ غیر ضروری گفتگو نہ کیا کرے۔
8۔سکول میں لڑکیوں کے لیے الگ واش روم کا انتظام لازمی ہے نیز سکول آتے جاتے وقت اس بات کااہتمام کیا جائے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کااختلاط نہ ہوجایا کرے جس کی ایک ممکن صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سکول آتے وقت یا سکول سے جاتے وقت لڑکیوں کا ٹائم لڑکوں سے مختلف مقرر کیا جائے۔
9۔اساتذہ کرام پڑھانے کے دوران براہ راست مخاطب لڑکوں کو بنائے ،لڑکیوں کو مخاطب نہ کیا کریں۔
10۔بوقت ضرورت اساتذہ کرام لڑکیوں سے مکمل سنجیدگی سے بات کیا کریں ،بے تکلفانہ گفتگو کرنے سے پرہیز انتہائی ضروری ہے۔مکمل سنجیدہ انداز میں نظروں کی حفاظت کے ساتھ بقدرضرورت گفتگو کی جائے۔
11۔جہاں تک بزم ادب کا سوال ہے توبزم ادب ہم نصابی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہے اور طلبہ کی تعلیم وتربیت کا ایک لازمی جزو ہے،مگر لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ مخلوط بزم ادب کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔نوجوان لڑکی کا سینکڑوں کی تعدادمیں موجود بالغ لڑکوں کے سامنے تقاریر کرنے یانعت پڑھنے کی نہ شریعت اجازت دیتی ہے اور نہ ہی ہماری تہذیب و ثقافت میں اس کی گنجائش ہے۔اس کا آسان حل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی الگ ہال یا کلاس روم میں لڑکیوں کا الگ سے بزم ادب مقرر کیا جائے۔
12۔ہمارے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اس وجہ سے آپ تمام لوگوں کو چاہیئے کہ گرلز ہائی سکول کے قیام کی خاطر سرکار سے رابطہ کریں اور یہ کوشش کریں کہ بچیوں کا الگ سے ہائی سکول قائم ہوجائے۔
13۔کوئی بھی لڑکی کسی لڑکے یا کسی استاذ کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہ رکے،اور نہ ہی اکیلے میں ملاقات کرے ۔اسی طرح لڑکیوں کا لڑکوں یااساتذہ کے ساتھ ہنسی مزاح کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
14۔ضرورت کے وقت اگر لڑکیوں کو اساتذہ سے بات کرنی پڑ جائے تو اپنے لہجے میں سختی اور درشتی پیدا کرے،نرم لہجے میں بات کرنے سے گریز کرنی چاہیئے۔
15۔دوران کلاس اساتذہ اپنے نظروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ سورۃ النور،آیت:30،31۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الحَمْوَ، قَالَ:الحَمْوُ المَوْتُ وَفِي البَاب عَنْ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَعَمْرِو بْنِ العَاصِ.: حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا مَعْنَى كَرَاهِيَةِ الدُّخُولِ عَلَى النِّسَاءِ عَلَى نَحْوِ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ،"وَمَعْنَى قَوْلِهِ: الحَمْوُ، يُقَالُ: هُوَ أَخُو الزَّوْجِ، كَأَنَّهُ كَرِهَ لَهُ أَنْ يَخْلُوَ بِهَا۔
سنن الترمذی،مطبع مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:1171۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَلَا لَا يَبِيتَنَّ رَجُلٌ عِنْدَ امْرَأَةٍ ثَيِّبٍ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَاكِحًا أَوْ ذَا مَحْرَمٍ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:2171۔
(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمةوقال عليه الصلاة والسلام:من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة،وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلا يحل له النظر والمس كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى (إلا من أجنبية) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ولذا تثبت به حرمة المصاهرة وهذا في الشابة،أما العجوز التي لا تشتهى فلا بأس بمصافحتها ومس يدها إذا أمن، ومتى جاز المس جاز سفره بها ويخلو إذا أمن عليه وعليها وإلا لا وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة هربت ودخلت خربة أو كانت عجوزا شوهاء أو بحائل، والخلوة بالمحرم مباحة إلا الأخت رضاعا، والصهرة الشابة وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى، وبه بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة فتنبه(وله مس ذلك) أي ما حل نظره (إذا أراد الشراء وإن خاف شهوته) للضرورة وقيل لا في زماننا وبه جزم في الاختيار (وأمة بلغت حد الشهوة لا تعرض) على البيع (في إزار واحد) يستر ما بين السرة والركبة لأن ظهرها وبطنها عورة(و) ينظر (من الأجنبية) ولو كافرة مجتبى (إلى وجهها وكفيها فقط) للضرورة قيل والقدم والذراع إذا أجرت نفسها للخبز تتارخانية.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:366،367۔
(قوله وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس۔وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفس۔ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة (قوله في نقل القهستاني) أي عن بيع المبسوط (قوله زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية۔وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم۔فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة على الراجح ومر الكلام فيه فراجعه۔
حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:366،367۔
فحل النظر منوط بعدم خشية الشهوة مع انتفاء العورة ولذا حرم النظر إلى وجهها ووجه الأمرد إذا شك في الشهوة ولا عورة.وفي كون المسترسل من شعرها عورة روايتان. وفي المحيط الأصح أنه عورة وإلا جاز النظر إلى صدغ الأجنبية وطرف ناصيتها وهو يؤدي إلى الفتنة وأنت علمت أنه لا تلازم بينهما كما أريتك في المثال.صرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من الأعمى، قال: لأن نغمتها عورة، ولهذا قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال والتصفيق للنساء،فلا يحسن أن يسمعها الرجل انتهى كلامه.
فتح القدیر،دارالفکر،بیروت،ج:1،ص:260۔
2۔جہاں تک آپ کے سوال کے دوسرے جزء کا تعلق ہے تو سرکاری سکول کے اساتذہ کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پرطلبہ سے اپنے لیے لکڑیاں وغیرہ منگوانا جائز نہیں ہے:
1۔کسی بھی مسلمان کا مال اس کے طیب نفس کے بغیر کھانا جائز نہیں ہے۔استاذ جب اپنے شاگرد سے اپنے لیے کسی چیز کامطالبہ کرے گا تو وہاں طیب نفس کا پایا جانا یقینی نہیں ہوگا،بلکہ عین ممکن ہے کہ شاگرد استاذ کے ڈر سے وہ کام کرے۔کسی کے مروت میں آکر یا کسی کے ڈر اور خوف کی وجہ سے جو کام کیا جاتا ہے اس میں طیب نفس نہیں ہوتا۔
2۔استاذ جب اپنے شاگرد سے اپنے لیے کسی چیز کامطالبہ کرتا ہےتووہ اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنے استاذ ہونے کی حیثیت سے وہ مطالبہ کرتا ہے،گویا وہ اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتا ہےاورکسی بھی صاحب منصب کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کے علاوہ اپنی ذات کے لیے کسی سے کسی چیز کا مطالبہ کرے۔
3۔ اگرمحکمہ کی طرف سے اجازت نہ ہو تو سرکاری سکول کاٹیچر اپنی ڈیوٹی کے دوران نہ کسی کو اپنے لیے لکڑی لانے کے لیے بھیج سکتا ہے اور نہ ہی اپنے لیے چائے،روٹی یاکھانا وغیرہ تیار کرسکتا ہے۔سرکاری سکول کے ٹیچر کی حیثیت اجیر خاص کی ہوتی ہے اور فقہائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ بغیراجازت کے اجیرخاص اپنے کام کے دورانیہ میں اپناذاتی کوئی بھی کام نہیں کرسکتا۔
4۔سرکاری سکول کے ٹیچر حضرات کاطلبہ سے اپنے لیے لکڑیاں وغیرہ منگواناسرکاری قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن خیبرپختونخواہ کے ایکٹ 2017 کے حصہ دوم ،شق نمبر1میں لکھا ہوا ہے کہ :
No Child shall be liable to pay any kind of fee or charges or expenses which may prevent him or her from pursuing and completing the school education.
اساتذہ کا طلبہ سے لکڑیوں وغیرہ کے مطالبہ کی وجہ سے یہ عین ممکن ہے کہ کوئی بچہ اس سے تنگ آجائے جو کہ محکمے کے مندرجہ بالا قانون کی صریح خلاف ورزی ہوگی،اس وجہ سے بھی اساتذہ کاطلبہ سے لکڑیوں کامطالبہ جائز نہیں ہوگا۔
5۔سکول کے طلبہ میں اکثریت نابالغ طلبہ کی ہوتی ہے اور شریعت مطہرہ کی رُو سے نابالغ بچہ کسی کو کوئی ہدیہ یاتحفہ وغیرہ نہیں دے سکتا۔
6۔اگر کسی استاذ کے بارے میں ڈیپارٹمنٹ میں یہ شکایت چلی جائے کہ وہ طلبہ سے اپنے لیے لکڑیاں وغیرہ منگواتا ہے تو یہ اس استاذ کے لیے ذلت اور رسوائی کا باعث بن جائے گا اور کسی جرم قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو ذلیل کرنے کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔
عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:2،ص:717،رقم الحدیث:1035۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ , إِنْ لَقِيتُ غَنَمَ ابْنِ عَمِّي ,آخُذُ مِنْهَا شَيْئًا؟ فَقَالَ:إِنْ لَقِيتَهَا تَحْمِلُ شَفْرَةً وَأَزْنَادًا بِخَبْتِ الْجَمِيشِ فَلَا تَهِجْهَا۔
شرح معانی الآثار،عالم الکتاب،الطبعۃ الاولیٰ،1414ھ،ج:4،ص:241،رقم الحدیث:6633۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ:يَتَعَرَّضُ مِنَ البَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ۔
سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:2254۔
عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: ابْنُ الْأُتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ فَجَاءَ، فَقَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ:مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَجِيءُ فَيَقُولُ هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَلَا جَلَسَ فِي بَيْتِ أُمِّهِ أَوْ أَبِيهِ فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا؟ لَا يَأْتِي أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا فَلَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً فَلَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ۔ سنن ابی داؤد،المکتبۃ العصریۃ،بیروت،ج:3،ص:134،رقم الحدیث:2946۔
قلت في هذا بيان أن هدايا العمال سحت وأنه ليس سبيلها سبيل سائر الهدايا المباحة وإنما يهدى إليه المحاباة وليخفف عن المهدي ويسوغ له بعض الواجب عليه وهو خيانة منه وبخس للحق الواجب عليه استيفاؤه لأهله.
معالم السنن،المطبعۃ العلمیۃ،حلب،الطبعۃ الاولیٰ،1352ھ،ج:3،ص:8۔
فالأخذ بالمحرم أولى عند التعارض احتياطا للحرمة؛ لأنه يلحقه المأثم بارتكاب المحرم، ولا مأثم في ترك المباح۔
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:2،ص:264۔
(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى.
حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:70۔
يُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ عَاقِلًا بَالِغًا بِنَاءً عَلَيْهِ لَا تَصِحُّ هِبَةُ الصَّغِيرِ وَالْمَجْنُونِ وَالْمَعْتُوهِ وَأَمَّا الْهِبَةُ لِهَؤُلَاءِ فَصَحِيحَةٌ.۔۔۔۔۔۔۔ يَلْزَمُ فِي الْهِبَةِ رِضَاءُ الْوَاهِبِ فَلَا تَصِحُّ الْهِبَةُ الَّتِي وَقَعَتْ بِالْجَبْرِ وَالْإِكْرَاهِ.
مجلۃ الاحکام العدلیۃ،نورمحمدکتب خانہ،آرام باغ،کراچی،ص:165۔
امور مباحہ میں حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی سخت گناہ ہے۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع چہارم،1425ھ،ج:8،ص:217۔
3۔جہاں تک آپ کے استفتاء کے تیسرےجزء کا تعلق ہے توغیرحاضری کی وجہ سے بچوں سے مالی جرمانہ لیناجائز نہیں ہے،اس وجہ سے جرمانہ لینے کے اس معمول کوفوراًختم کیا جائے۔جن بچوں سے جرمانے کی رقم جمع کی گئی ہے وہ رقم ان بچوں کو واپس کیا جائے۔غیرحاضری کی وجہ سے مالی جرمانہ لینے کی بجائے کوئی اورمتبادل صورت اختیار کی جائے۔
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه۔ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.
حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:4،ص:61۔
طالب علم کا مدرسہ وغیرہ سے انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کثرت سے غیرحاضر رہنا یادیگر کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب کرنا اگرچہ موجب سزا ہے مگریہ سزا جسمانی حد تک محدود ہونی چاہیئے،مالی جرمانہ شرعاً صحیح نہیں ۔۔۔۔الخ
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،طبع ہفتم،1431ھ،ج:5،ص:172۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی