عذاب قبر کے متعلق حدیث عائشہ پر منکریں حدیث کے اعتراضات کے جوابات
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام صحیح بخاری و مسلم کے ان روایات کے بارے میں :کہ
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً ومصلیاً
قرآن کریم کے بعد احادیث نبوی ﷺشریعت کا دوسرا بڑا مآخذ ہے،بلکہ حقیقت تو یہ ہےکہ خود قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس پر عمل کرنا احادیث نبوی ﷺ کے بغیر ممکن نہیں،لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انکار حدیث کا فتنہ سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اٹھا،جس کے بانی خوارج اور معتزلہ تھے،اس فتنہ کی تردید میں امام شافعی ؒ اور دیگر محققین نے وسیع تحقیقی کام کیا،جس کی وجہ سے یہ فتنہ ترقی نہ کرسکا اور کچھ مدت بعد ختم ہوگیا،پھر صدیوں تک اسلامی دنیا میں کہیں بھی انکار حدیث کی کوئی تحریک نہ اٹھی،تیرھویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی ) میں انکار حدیث کا فتنہ دوبارہ اٹھا،اس بار اس فتنے کا مرکز برصغیر پاک وہندتھا،تقسیم ہند کے بعد یہ فتنہ ختم نہیں ہوا،بلکہ پاکستان میں بھی اس فتنہ کو فروغ دینے کاسلسلہ جاری رہا،انکار حدیث کا یہ فتنہ اپنے نتائج کے اعتبارسے انتہائی خطرناک ہے،لہذا ان لوگوں کا سب سے اول نشانہ صحاح کے احادیث ہیں مثلا بخاری ومسلم وغیرہ ،ان کو معلوم ہے کہ سب مسلمانوں کے دلوں میں ان صحاح احادیث کی بڑی قدر ہے،تو یہی منکرین احادیث نے ان کو نشانہ بنایا ، تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں ان کی قدر ومنزلت کم ہوجائیں،لہذا ان کا یہ کہنا کہ عذاب قبر کے بارے میں وہ روایات جس میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور نبی کریم ﷺ کو یہودیوں کی خبر دینے کا ذکر ہے،وہ درست نہیں ہے،حالانکہ ایسا ہے نہیں، بلکہ آپ ﷺ کو عذاب قبر کے بارے میں پہلے سےعلم تھا ،اور وہ روایات بھی درست وصحیح ہیں، جس پر یہ لوگ اعتراضات کرتے ہیں ۔
لہذا منکرین احادیث کےان روایات پر اعتراضات کے جوابات ذیل میں تفصیلی دی گئی ہیں:
اعتراض نمبر 1: کیا نبی کریم ﷺ کو عذآب قبر کےبارے میں یہودی عورتوں کے بتانے سے پہلےعلم نہیں تھا؟
جواب: کیوں نہیں ،جناب نبی کریم ﷺ کو ان یہودی عورتوں کے آنے سے پہلے عذاب قبر کا علم تھا،جیساکہ قران کریم میں واضح طور پر اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
"النار يعرضون عليها غدوا وعشيا ويوم تقوم الساعة، أدخلوا آل فرعون أشد العذاب". [غافر: 46]
ترجمہ:" وہ آگ ہے کہ دکھلا دیتے ہیں ان کو صبح اور شام ،اورجس دن قائم ہوگی قیامت ،حکم ہوگا داخل کرو فرعون والوں کو سخت سے سخت عذاب میں"
اورسورہ غافر مکی سورت ہے،تو معلوم ہوا ،کہ یہ سورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہےجس میں ان یہودی عورتوں کا قصہ موجود ہےکیونکہ وہ قصہ مدینہ منورہ میں ہواہے،نہ کہ مکہ میں۔
اور اسی طرح ان آیت کریمہ میں غور وفکر کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں ،کہ آل فرعون کو برزخ میں عذاب دیا جاتا ہےاور صبح وشام ان پر آگ پیش کیا جاتا ہے،اور جب قیامت کے دن آئیں گےتو اللہ تعالی ان کفار کے اجساد کو اٹھائیں گے،اور ان کو دوبارہ زندہ کریں گے،تاکہ وہ(کفار) آگ(جہنم) میں داخل ہو۔
اور یہ آیت کریمہ واضح دلیل ہےعذاب قبر اور برزخ پر،جیسا کہ امام ابن کثیر ؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
"وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور".
لہذا یہ بات واضح ہوئی کہ نبی کریم ﷺ کو عذاب قبر کے بارےمیں پہلے سےعلم تھا،اور مدینہ منورہ جانے سے پہلے آپ ﷺ کو معلوم تھا کہ امم سابقہ (گذشتہ امتوں) کو قبر میں عذاب دی جاتی ہے۔
اعتراض نمبر2: ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ نبی کریم ﷺ نے عذآب قبر کا یہ عقیدہ یہودی عورتوں سے لیا ہے،پہلے آپ ﷺ کو علم نہیں تھابلکہ ان عورتوں سے آپ ﷺنے عذاب قبر کا عقیدہ سیکھااور پھر اس کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتا رہا اور بیان کرتا رہا؟
جواب: نہیں ،عذاب قبر کاعقیدہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے نہیں لیا ہے،بلکہ رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے،ا ن احادیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ نبی کریم ﷺ نےعذاب قبر کا یہ عقیدہ یہودیوں سے لیا،بلکہ ان احادیث میں ایسے قرائن ودلالات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ عقیدہ ان سے نہیں لیا بلکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ پر وحی نازل فرماکر خبر دی ہے، اور ان پر دلیل ہم ان احادیث کی روشنی میں دیتے ہیں،جن پر یہ منکرین حدیث ، ملحدین وزنادقہ اسلام دشمن اعتراضات کرکے باطل استدلالات کرتے ہیں،لہذا ہم ان احادیث کو پیش کرتے ہوئے جن پر منکرین حدیث نےشبہات کیے ہیں ،ان کے جوابات دیتے ہیں۔پہلی حدیث:
"قال حدثنا هارون بن سعيد، وحرملة بن يحيى - قال هارون: حدثنا وقال حرملة: - أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، قال: حدثني عروة بن الزبير، أن عائشة قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي امرأة من اليهود، وهي تقول: هل شعرت أنكم تفتنون في القبور؟ قالت: فارتاع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: «إنما تفتن يهود» قالت عائشة: فلبثنا ليالي، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل شعرت أنه أوحي إلي أنكم تفتنون في القبور؟» قالت عائشة: فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، بعد يستعيذ من عذاب القبر".
ترجمہ:"حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہےکہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی،وہ کہنے لگی ،کہ کیا تمہیں معلوم ہےکہ تم قبروں میں آزمائے جاؤگے،یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کانپ گئے ،اور فرمایا کہ یہود آزمائے جائیں گے، ام المؤمنین عائشہؓ بیان کرتی ہیں،کہ پھر چند راتیں گزر گئیں ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا تجھے معلوم ہےکہ مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبرں میں آزمائش ہوگی ؟ام المؤمنیں عائشہ ؓ فرماتی ہیں، کہ میں نے اس دن سےنبی کریم ﷺ کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا"۔
اس حدیث مبارک سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1-کیا تم مسلمان لوگوں کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے؟
اس بات سے صاف معلوم ہوا، کہ یہ یہودی عورت حضرت عائشہ ؓ اور نبی کریم ﷺ کو عذاب قبر کے متعلق معلومات نہیں دے رہی ،بلکہ صرف حضرت عائشہ ؓ سے سوال کرتی ہے،اور نہ نبی کریمﷺ کے جواب پر رد کرتی ہے،اور نہ آپ ﷺکے جواب سے ان کی اثبات اور نفی کی صحت معلوم ہوتی ہے،اور نہ کوئی عاقل شخص اس بات کو ماننے کےلیے تیار ہے کہ وہ یہ گمان کرے،کہ آپ ﷺ نے اس یہودی عورت سے عذاب قبر کا عقیدہ سیکھا۔
2-نبی کریمﷺ پہلے سے جانتے تھے کہ اللہ تعالی سابقہ امتوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیتے ہیں ،جیسے آل فرعون اور یہود وغیرہ،
اوراس پر دلیل یہ ہے کہ جب آپﷺ نے اس یہودی عورت سے سوال سنا ،تو آپ ﷺ نے فورا رد کرکے فرمایا۔"کہ یہود کو فتنے میں مبتلا کیا جائے گا"یعنی ان کو قبروں میں عذاب دی جائے گی،اور یہ بات اس پر دلیل ہے کہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ امم سابقہ کو قبر میں عذاب ہوتا ہے جیساکہ اس پر" انما تفتن اليهود" واضح دلیل ہے۔
3-تیسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ بعد میں نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوا ،اور وحی کے ذریعے خبر دی گئی ،کہ نافرمان مسلمانوں کو بھی قبروں میں عذاب عارضی (بطور تزکیہ ) دی جائے گی،جیسا کہ اس پر "هل شعرت أنه اوحي الي ۔۔الخ" کے الفاظ واضح دلیل ہے۔
دوسری حدیث:
"قال حدثنا زهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، كلاهما عن جرير، قال زهير: حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن مسروق، عن عائشة، قالت: دخلت علي عجوزان من عجز يهود المدينة، فقالتا: إن أهل القبور يعذبون في قبورهم، قالت: فكذبتهما ولم أنعم أن أصدقهما، فخرجتا ودخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: يا رسول الله إن عجوزين من عجز يهود المدينة دخلتا علي، فزعمتا أن أهل القبور يعذبون في قبورهم، فقال: «صدقتا، إنهم يعذبون عذابا تسمعه البهائم» قالت: «فما رأيته، بعد في صلاة إلا يتعوذ من عذاب القبر".
ترجمہ:"حضرت عائشہؓ فرماتی ہےکہ مدینہ منورہ کے یہودی بوڑھیوں میں سے دو بوڑھی مجھ پر داخل ہوئی،انہوں نے کہا ،کہ اہل قبور کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتے ہیں،میں نے دونوں کو جٹھلایا اور میں نہیں چاہتی تھی کہ ان کی تصدیق کروں ،پس وہ دونوں چلے گئیں ،اور رسول اللہ ﷺ مجھ پر داخل ہوا ،پس میں آپ ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ کہ مدینہ منورہ کے بوڑھیوں میں سے دو یہودی بوڑھیاں مجھ پر داخل ہوئی،ان کی یہ گمان تھیں کہ اہل قبور کو ان کی قبرون میں عذاب دی جاتی ہیں،پس آپ ﷺ نے فرمایا:کہ انہوں نے سچ کہا ،بےشک ان کو ایسا عذاب دیا جاتا ہے کہ جانور ان کو سنتے ہیں،عائشہؓ فرماتی ہے:کہ میں نے اس کے کبھی آپ ﷺ کو ایسا نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا کہ جس میں عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو"۔
اس حدیث مبارک سے تو صاف معلوم ہوا، کہ نبی کریم ﷺ کو اس بات کا علم پہلے سےتھا،کہ نافرمانوں کو ان کی قبروں میں عذاب دی جاتی ہیں،جیساکہ اس پر آپﷺ کا کلام واضح دلیل ہے،جب حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ سے ان یہودی عورتوں کی عذاب قبر کے متعلق گفتگو کا تذکرہ کیا ، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ بے شک وہاں قبروں میں (نافرمانوں کو) اس قدر عذاب ہوگا،کہ چوپائے ان کا عذاب سنیں گے۔
اگر نبی کریم ﷺ کو عذاب قبر کے متعلق علم نہ ہوتا،تو حضرت عائشہ ؓ کی سوال پر آپﷺ خاموشی یا تردد اختیا رفرماتے،حالانکہ آپ ﷺنےبڑی تاکید کے ساتھ جواب دیا ،کہ عذاب قبر موجود ہوتا ہے۔
اور اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ا س حدیث میں ایک اضافی وصف بھی بیان کیا،جو ان دو یہودی بوڑی عورتوں کے سوال میں نہیں تھا، کہ جن لوگوں کو قبروں میں عذاب ہوتی ہیں،تو ان کی آوازیں جانور سنتے ہیں،لہذا آپ ﷺ عذاب قبر کے متعلق اتنا زیادہ جانتے تھے،کہ اوصاف تک معلوم تھے،اور یہودیوں کو معلوم نہیں تھے۔
لہذا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا ،کہ آپ کو عذاب قبر کے بارے میں پہلے سے علم تھا۔
تیسری حدیث:
"قال حدثنا هاشم، قال: حدثنا إسحاق بن سعيد، قال: حدثنا سعيد، عن عائشة، أن يهودية كانت تخدمها، فلا تصنع عائشة إليها شيئا من المعروف، إلا قالت لها اليهودية: وقاك الله عذاب القبر، قالت: فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم علي، فقلت: يا رسول الله، هل للقبر عذاب قبل يوم القيامة؟ قال: " لا، وعم ذاك؟ " قالت: هذه اليهودية لا نصنع إليها من المعروف شيئا،إلا قالت: وقاك الله عذاب القبر، قال: " كذبت يهود، وهم على الله عز وجل أكذب، لا عذاب دون يوم القيامة "، قالت: ثم مكث بعد ذاك ما شاء الله أن يمكث، فخرج ذات يوم نصف النهار مشتملا بثوبه، محمرة عيناه، وهو ينادي بأعلى صوته: " أيها الناس، أظلتكم الفتن كقطع الليل المظلم، أيها الناس، لو تعلمون ما أعلم بكيتم كثيرا وضحكتم قليلا، أيها الناس، استعيذوا بالله من عذاب القبر، فإن عذاب القبر حق "
ترجمہ:"حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :کہ ایک یہودی عورت میری خدمت کیا کرتی تھی ،میں جب بھی اسے کوئی چیز دیتی تو وہ کہتی،اللہ تعالی تم کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے،جب رسول اللہ میرے ہاں تشریف لے آئے،تو میں نے کہا ،اے اللہ کے رسول کیا قیامت سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:جی نہیں ،بھلا تم یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہو،میں نے کہاں ،فلاں یہودی عورت، جب بھی ہم اسے کوئی چیز دیتے ہیں تو وہ کہتی ہے کہ اللہ تعالی تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے،آپ ﷺ نے فرمایا:یہودی جھوٹ بولتے ہیں،اور اللہ پر بہت زیادہ جھوٹ باندھتے ہیں،قیامت کے روز سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہوگا،اس کے بعد کچھ دن آپﷺ ٹہرے رہے،جتنا اللہ تعالی کو منظور تھا،ایک دن آپ ﷺ وین دوپہر کے وقت نکلےجبکہ آپ ﷺ نےاپنے اوپر ایک کپڑا اوڑھا ہوا تھااور آپ ﷺ کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں،اور آپ ﷺ بلند آواز سے فرماتے جارہے تھے :"لوگوں اندھیری رات کی ٹکڑوں کی طرح تم پر فتنے چھا رہے ہیں،لوگوں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم اسے جان لیتےتو تم بہت زیادہ روتےاور کم ہنستے،لوگوں عذاب قبر سے پناہ مانگا کرو،بے شک قبر کا عذاب حق ہے"۔
اس حدیث مبارک سے بھی معلوم ہوتی ہیں کہ آپ ﷺ نے عقیدہ عذاب قبر ان یہود سے نہیں لیا ہے،یہ صرف دشمنان اسلام کا الزام تراشیاں ہیں ،جو ہر دور میں کرتے ہیں۔
اگر نبی کریم ﷺ یہ عقیدہ بقول آپ لوگوں کے ان یہود سے لیتا یا سیکھتا،تو پھر اس سے پہلے والی حدیث میں ان کو جھٹلاتےکیوں ؟اور آپ ﷺ یہ کیوں فرماتے ، کہ یہود اللہ تعالی پر جھوٹ بولتے ہیں ؟ بلکہ خاموشی اختیار فرماتےاور ان سے ان کی کلام سنتے اور مزید تفصیلات پوچھ لیتے؟
2-اگر نبی کریم ﷺ کو اس عقیدہ کا علم ان سے لیا تو پھرفورا آپ ﷺ کیوں نہیں نکلے کہ مسلمانوں کو عذاب قبر سے ڈراتے؟لیکن حدیث ہمیں صاف بتاتے ہیں کہ کچھ مدت بعد آپ ﷺ پر وحی اترا ۔
3-حدیث سے معلوم ہوا، کہ آپ ﷺ پر جب وحی نازل ہوا توآپ ﷺ اس حال میں نکلے کہ آنکھ مبارک سرخ تھےاور یہ ہیئت و شکل سچا ہونے کی دلیل ہے،اگر ہم بالفرض کہے کہ یہ عقیدہ یہودیوں سے لیا گیا ہے تو پھر آپ ﷺ کا ہیئت اور آنکھیں مبارک اتنا سرخ کیوں؟
اعتراض نمبر 3: یہ حدیث صحیح نہیں ہےاس لیے کہ حضرت عائشہؓ خود اس میں متردد ہےکبھی فرماتی ہے کہ ایک یہودی عورت آئی اور کبھی کہتی ہے دو بوڑھی عورتیں اور کبھی خادمہ کا کا قصہ بیان کرتی ہے۔
جواب:یہ حدیث صحیح ہے،بلکہ حضرت عائشہؓ کہ یہ تینوں روایات جس میں یہودی عورتوں کا ذکر ہےیہ صحیح ہیں،لیکن یہ واقعات مختلف ہیں اور مختلف موقعوں پر ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے فرمائی ہے،جسکی تفصیل یہ ہیں:
پہلی روایت میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ ایک یہودی عورت نے مجھے کہا کہ کیا تم لوگ قبروں میں آزمائیں جاؤگے ، یہ سن کر آپ ﷺکانپ گئے ، پس نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہود آزمائیں جائیں گے،پس کچھ راتیں ہم ٹہرے ،پھر آپ ﷺ نے فرمایا:کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میری طرف وحی نازل ہوئی کہ تم کو بھی قبروں میں آزمائیں جاؤگے،اور دوسری روایت میں ہےکہ یہود کی دو بوڑھیاں میرے ہاں آئے اور عذآب قبر کاذکر کیا ،پس میں آپ ﷺ کو بتا یا تو آپ ان کی تصدیق کی ،
یہ دونوں اصل میں دو واقعہ ہے،پہلا قصہ تو گزر گیا پھر نبی کریم ﷺ کو اس کے بارے میں خبر دیا گیا ، لیکن ام المؤمنینؓ کو معلوم نہیں تھا،پھر کچھ عرصہ بعد دو بوڑھیاں آئیں،تو ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ انہیں جھٹلایاچونکہ آپ ؓ کو عذاب قبر کے اثبات کے بارے میں نزول وحی کا علم نہیں تھا،پس جب نبی کریم ﷺ تشریف لے آئیں، اور ام المؤمنینؓ نے ان دو بوڑھیوں کی گفتگو کا ذکر کیا،تو آپ ﷺ نے فرمایا:کہ انہوں نے سچ کہا،اور حضرت عائشہ ؓ کو عذاب قبر کے بارے میں وحی سے خبر دار کیا۔
خلاصہ یہ اگر کوئی درجہ بالا احادیث کی تفصیل صدق دل کے ساتھ پڑھے ،تو عذاب قبر کے متعلق منکرین حدیث کے تمام تر شبہات سے محفوط رہےگا،جو ہر دور میں اپنے خواہش پرستی اور عقل پرستی کی بنیاد پر کرتےہیں۔
اشتیاق علی ذھبی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
25/جنوری /2023 الموافق 02/رجب / 1444ھ
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
25/جنوری /2023 الموافق 02/رجب / 1444ھ
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً ومصلیاً
قرآن کریم کے بعد احادیث نبوی ﷺشریعت کا دوسرا بڑا مآخذ ہے،بلکہ حقیقت تو یہ ہےکہ خود قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس پر عمل کرنا احادیث نبوی ﷺ کے بغیر ممکن نہیں،لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انکار حدیث کا فتنہ سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اٹھا،جس کے بانی خوارج اور معتزلہ تھے،اس فتنہ کی تردید میں امام شافعی ؒ اور دیگر محققین نے وسیع تحقیقی کام کیا،جس کی وجہ سے یہ فتنہ ترقی نہ کرسکا اور کچھ مدت بعد ختم ہوگیا،پھر صدیوں تک اسلامی دنیا میں کہیں بھی انکار حدیث کی کوئی تحریک نہ اٹھی،تیرھویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی ) میں انکار حدیث کا فتنہ دوبارہ اٹھا،اس بار اس فتنے کا مرکز برصغیر پاک وہندتھا،تقسیم ہند کے بعد یہ فتنہ ختم نہیں ہوا،بلکہ پاکستان میں بھی اس فتنہ کو فروغ دینے کاسلسلہ جاری رہا،انکار حدیث کا یہ فتنہ اپنے نتائج کے اعتبارسے انتہائی خطرناک ہے،لہذا ان لوگوں کا سب سے اول نشانہ صحاح کے احادیث ہیں مثلا بخاری ومسلم وغیرہ ،ان کو معلوم ہے کہ سب مسلمانوں کے دلوں میں ان صحاح احادیث کی بڑی قدر ہے،تو یہی منکرین احادیث نے ان کو نشانہ بنایا ، تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں ان کی قدر ومنزلت کم ہوجائیں،لہذا ان کا یہ کہنا کہ عذاب قبر کے بارے میں وہ روایات جس میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور نبی کریم ﷺ کو یہودیوں کی خبر دینے کا ذکر ہے،وہ درست نہیں ہے،حالانکہ ایسا ہے نہیں، بلکہ آپ ﷺ کو عذاب قبر کے بارے میں پہلے سےعلم تھا ،اور وہ روایات بھی درست وصحیح ہیں، جس پر یہ لوگ اعتراضات کرتے ہیں ۔
لہذا منکرین احادیث کےان روایات پر اعتراضات کے جوابات ذیل میں تفصیلی دی گئی ہیں:
اعتراض نمبر 1: کیا نبی کریم ﷺ کو عذآب قبر کےبارے میں یہودی عورتوں کے بتانے سے پہلےعلم نہیں تھا؟
جواب: کیوں نہیں ،جناب نبی کریم ﷺ کو ان یہودی عورتوں کے آنے سے پہلے عذاب قبر کا علم تھا،جیساکہ قران کریم میں واضح طور پر اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
"النار يعرضون عليها غدوا وعشيا ويوم تقوم الساعة، أدخلوا آل فرعون أشد العذاب". [غافر: 46]
ترجمہ:" وہ آگ ہے کہ دکھلا دیتے ہیں ان کو صبح اور شام ،اورجس دن قائم ہوگی قیامت ،حکم ہوگا داخل کرو فرعون والوں کو سخت سے سخت عذاب میں"
اورسورہ غافر مکی سورت ہے،تو معلوم ہوا ،کہ یہ سورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہےجس میں ان یہودی عورتوں کا قصہ موجود ہےکیونکہ وہ قصہ مدینہ منورہ میں ہواہے،نہ کہ مکہ میں۔
اور اسی طرح ان آیت کریمہ میں غور وفکر کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں ،کہ آل فرعون کو برزخ میں عذاب دیا جاتا ہےاور صبح وشام ان پر آگ پیش کیا جاتا ہے،اور جب قیامت کے دن آئیں گےتو اللہ تعالی ان کفار کے اجساد کو اٹھائیں گے،اور ان کو دوبارہ زندہ کریں گے،تاکہ وہ(کفار) آگ(جہنم) میں داخل ہو۔
اور یہ آیت کریمہ واضح دلیل ہےعذاب قبر اور برزخ پر،جیسا کہ امام ابن کثیر ؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
"وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور".
لہذا یہ بات واضح ہوئی کہ نبی کریم ﷺ کو عذاب قبر کے بارےمیں پہلے سےعلم تھا،اور مدینہ منورہ جانے سے پہلے آپ ﷺ کو معلوم تھا کہ امم سابقہ (گذشتہ امتوں) کو قبر میں عذاب دی جاتی ہے۔
اعتراض نمبر2: ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ نبی کریم ﷺ نے عذآب قبر کا یہ عقیدہ یہودی عورتوں سے لیا ہے،پہلے آپ ﷺ کو علم نہیں تھابلکہ ان عورتوں سے آپ ﷺنے عذاب قبر کا عقیدہ سیکھااور پھر اس کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتا رہا اور بیان کرتا رہا؟
جواب: نہیں ،عذاب قبر کاعقیدہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے نہیں لیا ہے،بلکہ رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے،ا ن احادیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ نبی کریم ﷺ نےعذاب قبر کا یہ عقیدہ یہودیوں سے لیا،بلکہ ان احادیث میں ایسے قرائن ودلالات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ عقیدہ ان سے نہیں لیا بلکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ پر وحی نازل فرماکر خبر دی ہے، اور ان پر دلیل ہم ان احادیث کی روشنی میں دیتے ہیں،جن پر یہ منکرین حدیث ، ملحدین وزنادقہ اسلام دشمن اعتراضات کرکے باطل استدلالات کرتے ہیں،لہذا ہم ان احادیث کو پیش کرتے ہوئے جن پر منکرین حدیث نےشبہات کیے ہیں ،ان کے جوابات دیتے ہیں۔پہلی حدیث:
"قال حدثنا هارون بن سعيد، وحرملة بن يحيى - قال هارون: حدثنا وقال حرملة: - أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، قال: حدثني عروة بن الزبير، أن عائشة قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي امرأة من اليهود، وهي تقول: هل شعرت أنكم تفتنون في القبور؟ قالت: فارتاع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: «إنما تفتن يهود» قالت عائشة: فلبثنا ليالي، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل شعرت أنه أوحي إلي أنكم تفتنون في القبور؟» قالت عائشة: فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، بعد يستعيذ من عذاب القبر".
ترجمہ:"حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہےکہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی،وہ کہنے لگی ،کہ کیا تمہیں معلوم ہےکہ تم قبروں میں آزمائے جاؤگے،یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کانپ گئے ،اور فرمایا کہ یہود آزمائے جائیں گے، ام المؤمنین عائشہؓ بیان کرتی ہیں،کہ پھر چند راتیں گزر گئیں ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا تجھے معلوم ہےکہ مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبرں میں آزمائش ہوگی ؟ام المؤمنیں عائشہ ؓ فرماتی ہیں، کہ میں نے اس دن سےنبی کریم ﷺ کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا"۔
اس حدیث مبارک سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1-کیا تم مسلمان لوگوں کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے؟
اس بات سے صاف معلوم ہوا، کہ یہ یہودی عورت حضرت عائشہ ؓ اور نبی کریم ﷺ کو عذاب قبر کے متعلق معلومات نہیں دے رہی ،بلکہ صرف حضرت عائشہ ؓ سے سوال کرتی ہے،اور نہ نبی کریمﷺ کے جواب پر رد کرتی ہے،اور نہ آپ ﷺکے جواب سے ان کی اثبات اور نفی کی صحت معلوم ہوتی ہے،اور نہ کوئی عاقل شخص اس بات کو ماننے کےلیے تیار ہے کہ وہ یہ گمان کرے،کہ آپ ﷺ نے اس یہودی عورت سے عذاب قبر کا عقیدہ سیکھا۔
2-نبی کریمﷺ پہلے سے جانتے تھے کہ اللہ تعالی سابقہ امتوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیتے ہیں ،جیسے آل فرعون اور یہود وغیرہ،
اوراس پر دلیل یہ ہے کہ جب آپﷺ نے اس یہودی عورت سے سوال سنا ،تو آپ ﷺ نے فورا رد کرکے فرمایا۔"کہ یہود کو فتنے میں مبتلا کیا جائے گا"یعنی ان کو قبروں میں عذاب دی جائے گی،اور یہ بات اس پر دلیل ہے کہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ امم سابقہ کو قبر میں عذاب ہوتا ہے جیساکہ اس پر" انما تفتن اليهود" واضح دلیل ہے۔
3-تیسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ بعد میں نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوا ،اور وحی کے ذریعے خبر دی گئی ،کہ نافرمان مسلمانوں کو بھی قبروں میں عذاب عارضی (بطور تزکیہ ) دی جائے گی،جیسا کہ اس پر "هل شعرت أنه اوحي الي ۔۔الخ" کے الفاظ واضح دلیل ہے۔
دوسری حدیث:
"قال حدثنا زهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، كلاهما عن جرير، قال زهير: حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن مسروق، عن عائشة، قالت: دخلت علي عجوزان من عجز يهود المدينة، فقالتا: إن أهل القبور يعذبون في قبورهم، قالت: فكذبتهما ولم أنعم أن أصدقهما، فخرجتا ودخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: يا رسول الله إن عجوزين من عجز يهود المدينة دخلتا علي، فزعمتا أن أهل القبور يعذبون في قبورهم، فقال: «صدقتا، إنهم يعذبون عذابا تسمعه البهائم» قالت: «فما رأيته، بعد في صلاة إلا يتعوذ من عذاب القبر".
ترجمہ:"حضرت عائشہؓ فرماتی ہےکہ مدینہ منورہ کے یہودی بوڑھیوں میں سے دو بوڑھی مجھ پر داخل ہوئی،انہوں نے کہا ،کہ اہل قبور کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتے ہیں،میں نے دونوں کو جٹھلایا اور میں نہیں چاہتی تھی کہ ان کی تصدیق کروں ،پس وہ دونوں چلے گئیں ،اور رسول اللہ ﷺ مجھ پر داخل ہوا ،پس میں آپ ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ کہ مدینہ منورہ کے بوڑھیوں میں سے دو یہودی بوڑھیاں مجھ پر داخل ہوئی،ان کی یہ گمان تھیں کہ اہل قبور کو ان کی قبرون میں عذاب دی جاتی ہیں،پس آپ ﷺ نے فرمایا:کہ انہوں نے سچ کہا ،بےشک ان کو ایسا عذاب دیا جاتا ہے کہ جانور ان کو سنتے ہیں،عائشہؓ فرماتی ہے:کہ میں نے اس کے کبھی آپ ﷺ کو ایسا نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا کہ جس میں عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو"۔
اس حدیث مبارک سے تو صاف معلوم ہوا، کہ نبی کریم ﷺ کو اس بات کا علم پہلے سےتھا،کہ نافرمانوں کو ان کی قبروں میں عذاب دی جاتی ہیں،جیساکہ اس پر آپﷺ کا کلام واضح دلیل ہے،جب حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ سے ان یہودی عورتوں کی عذاب قبر کے متعلق گفتگو کا تذکرہ کیا ، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ بے شک وہاں قبروں میں (نافرمانوں کو) اس قدر عذاب ہوگا،کہ چوپائے ان کا عذاب سنیں گے۔
اگر نبی کریم ﷺ کو عذاب قبر کے متعلق علم نہ ہوتا،تو حضرت عائشہ ؓ کی سوال پر آپﷺ خاموشی یا تردد اختیا رفرماتے،حالانکہ آپ ﷺنےبڑی تاکید کے ساتھ جواب دیا ،کہ عذاب قبر موجود ہوتا ہے۔
اور اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ا س حدیث میں ایک اضافی وصف بھی بیان کیا،جو ان دو یہودی بوڑی عورتوں کے سوال میں نہیں تھا، کہ جن لوگوں کو قبروں میں عذاب ہوتی ہیں،تو ان کی آوازیں جانور سنتے ہیں،لہذا آپ ﷺ عذاب قبر کے متعلق اتنا زیادہ جانتے تھے،کہ اوصاف تک معلوم تھے،اور یہودیوں کو معلوم نہیں تھے۔
لہذا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا ،کہ آپ کو عذاب قبر کے بارے میں پہلے سے علم تھا۔
تیسری حدیث:
"قال حدثنا هاشم، قال: حدثنا إسحاق بن سعيد، قال: حدثنا سعيد، عن عائشة، أن يهودية كانت تخدمها، فلا تصنع عائشة إليها شيئا من المعروف، إلا قالت لها اليهودية: وقاك الله عذاب القبر، قالت: فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم علي، فقلت: يا رسول الله، هل للقبر عذاب قبل يوم القيامة؟ قال: " لا، وعم ذاك؟ " قالت: هذه اليهودية لا نصنع إليها من المعروف شيئا،إلا قالت: وقاك الله عذاب القبر، قال: " كذبت يهود، وهم على الله عز وجل أكذب، لا عذاب دون يوم القيامة "، قالت: ثم مكث بعد ذاك ما شاء الله أن يمكث، فخرج ذات يوم نصف النهار مشتملا بثوبه، محمرة عيناه، وهو ينادي بأعلى صوته: " أيها الناس، أظلتكم الفتن كقطع الليل المظلم، أيها الناس، لو تعلمون ما أعلم بكيتم كثيرا وضحكتم قليلا، أيها الناس، استعيذوا بالله من عذاب القبر، فإن عذاب القبر حق "
ترجمہ:"حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :کہ ایک یہودی عورت میری خدمت کیا کرتی تھی ،میں جب بھی اسے کوئی چیز دیتی تو وہ کہتی،اللہ تعالی تم کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے،جب رسول اللہ میرے ہاں تشریف لے آئے،تو میں نے کہا ،اے اللہ کے رسول کیا قیامت سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:جی نہیں ،بھلا تم یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہو،میں نے کہاں ،فلاں یہودی عورت، جب بھی ہم اسے کوئی چیز دیتے ہیں تو وہ کہتی ہے کہ اللہ تعالی تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے،آپ ﷺ نے فرمایا:یہودی جھوٹ بولتے ہیں،اور اللہ پر بہت زیادہ جھوٹ باندھتے ہیں،قیامت کے روز سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہوگا،اس کے بعد کچھ دن آپﷺ ٹہرے رہے،جتنا اللہ تعالی کو منظور تھا،ایک دن آپ ﷺ وین دوپہر کے وقت نکلےجبکہ آپ ﷺ نےاپنے اوپر ایک کپڑا اوڑھا ہوا تھااور آپ ﷺ کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں،اور آپ ﷺ بلند آواز سے فرماتے جارہے تھے :"لوگوں اندھیری رات کی ٹکڑوں کی طرح تم پر فتنے چھا رہے ہیں،لوگوں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم اسے جان لیتےتو تم بہت زیادہ روتےاور کم ہنستے،لوگوں عذاب قبر سے پناہ مانگا کرو،بے شک قبر کا عذاب حق ہے"۔
اس حدیث مبارک سے بھی معلوم ہوتی ہیں کہ آپ ﷺ نے عقیدہ عذاب قبر ان یہود سے نہیں لیا ہے،یہ صرف دشمنان اسلام کا الزام تراشیاں ہیں ،جو ہر دور میں کرتے ہیں۔
اگر نبی کریم ﷺ یہ عقیدہ بقول آپ لوگوں کے ان یہود سے لیتا یا سیکھتا،تو پھر اس سے پہلے والی حدیث میں ان کو جھٹلاتےکیوں ؟اور آپ ﷺ یہ کیوں فرماتے ، کہ یہود اللہ تعالی پر جھوٹ بولتے ہیں ؟ بلکہ خاموشی اختیار فرماتےاور ان سے ان کی کلام سنتے اور مزید تفصیلات پوچھ لیتے؟
2-اگر نبی کریم ﷺ کو اس عقیدہ کا علم ان سے لیا تو پھرفورا آپ ﷺ کیوں نہیں نکلے کہ مسلمانوں کو عذاب قبر سے ڈراتے؟لیکن حدیث ہمیں صاف بتاتے ہیں کہ کچھ مدت بعد آپ ﷺ پر وحی اترا ۔
3-حدیث سے معلوم ہوا، کہ آپ ﷺ پر جب وحی نازل ہوا توآپ ﷺ اس حال میں نکلے کہ آنکھ مبارک سرخ تھےاور یہ ہیئت و شکل سچا ہونے کی دلیل ہے،اگر ہم بالفرض کہے کہ یہ عقیدہ یہودیوں سے لیا گیا ہے تو پھر آپ ﷺ کا ہیئت اور آنکھیں مبارک اتنا سرخ کیوں؟
اعتراض نمبر 3: یہ حدیث صحیح نہیں ہےاس لیے کہ حضرت عائشہؓ خود اس میں متردد ہےکبھی فرماتی ہے کہ ایک یہودی عورت آئی اور کبھی کہتی ہے دو بوڑھی عورتیں اور کبھی خادمہ کا کا قصہ بیان کرتی ہے۔
جواب:یہ حدیث صحیح ہے،بلکہ حضرت عائشہؓ کہ یہ تینوں روایات جس میں یہودی عورتوں کا ذکر ہےیہ صحیح ہیں،لیکن یہ واقعات مختلف ہیں اور مختلف موقعوں پر ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے فرمائی ہے،جسکی تفصیل یہ ہیں:
پہلی روایت میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ ایک یہودی عورت نے مجھے کہا کہ کیا تم لوگ قبروں میں آزمائیں جاؤگے ، یہ سن کر آپ ﷺکانپ گئے ، پس نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہود آزمائیں جائیں گے،پس کچھ راتیں ہم ٹہرے ،پھر آپ ﷺ نے فرمایا:کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میری طرف وحی نازل ہوئی کہ تم کو بھی قبروں میں آزمائیں جاؤگے،اور دوسری روایت میں ہےکہ یہود کی دو بوڑھیاں میرے ہاں آئے اور عذآب قبر کاذکر کیا ،پس میں آپ ﷺ کو بتا یا تو آپ ان کی تصدیق کی ،
یہ دونوں اصل میں دو واقعہ ہے،پہلا قصہ تو گزر گیا پھر نبی کریم ﷺ کو اس کے بارے میں خبر دیا گیا ، لیکن ام المؤمنینؓ کو معلوم نہیں تھا،پھر کچھ عرصہ بعد دو بوڑھیاں آئیں،تو ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ انہیں جھٹلایاچونکہ آپ ؓ کو عذاب قبر کے اثبات کے بارے میں نزول وحی کا علم نہیں تھا،پس جب نبی کریم ﷺ تشریف لے آئیں، اور ام المؤمنینؓ نے ان دو بوڑھیوں کی گفتگو کا ذکر کیا،تو آپ ﷺ نے فرمایا:کہ انہوں نے سچ کہا،اور حضرت عائشہ ؓ کو عذاب قبر کے بارے میں وحی سے خبر دار کیا۔
خلاصہ یہ اگر کوئی درجہ بالا احادیث کی تفصیل صدق دل کے ساتھ پڑھے ،تو عذاب قبر کے متعلق منکرین حدیث کے تمام تر شبہات سے محفوط رہےگا،جو ہر دور میں اپنے خواہش پرستی اور عقل پرستی کی بنیاد پر کرتےہیں۔
اشتیاق علی ذھبی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
25/جنوری /2023 الموافق 02/رجب / 1444ھ
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
25/جنوری /2023 الموافق 02/رجب / 1444ھ