عدالتی خلع کی شرعی حیثیت
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسماۃ نائلہ نے اپنے شوہرمحمداحسان ولدغلام غوث کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کیا کہ میرا شوہرمجھ پرظلم کرتا ہے اورمیرے شوہرنے دوسری شادی کی ہے ،اور عدالت میں یہ درخواست دائر کی کہ مجھے خلع کی ڈگری جاری کی جائےاور عدالت نے اس کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کردی۔ اس پورے مرحلے کے دوران مسماۃ نائلہ کا شوہرمسمی محمداحسان ولد غلام غوث روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم تھااور قانونی مشکلات کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکتا تھا۔محمداحسان نے نہ ہی مسماۃ نائلہ پرکوئی ظلم نہیں کیا تھااور نہ ہی اس کے خلع لینے پر راضی تھا، بلکہ عدالت میں کیس کے دوران بھی میاں بیوی کے تعلقات قائم تھےاور آپس میں دونوں کی بات چیت بھی ہوتی تھی۔ اب مسمی محمداحسان ولد غلام غوث پاکستان واپس آچکاہے اور اپنی بیوی مسماۃ نائلہ کے ساتھ دوبارہ گھر بسانا چاہتا ہے اور مسماۃ نائلہ بھی اس پر راضی ہے۔ماں باپ اور دیگر گھر والے بھی اس بات پر راضی ہیں کہ دونوں کا دوبارہ گھر بس جائے۔سوال یہ ہے کہ عدالتی خلع کی ڈگری کے بعد کیا یہ دونوں دوبارہ آپس میں ازواجی تعلقات قائم کر سکتے ہیں یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کے ممنون فرمائیں۔ المستفتی محمداحسان ولد غلام غوث 0320-5759598
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال اگر مسمی محمداحسان ولد غلام غوث اپنی بیوی مسماۃ نائلہ کے ساتھ خلع کرنے پرراضی نہیں تھا اور کیس کے دوران عدالت میں محمداحسان کے وکیل نے خلع پررضامندی ظاہر نہ کی ہو توپھریک طرفہ عدالتی خلع کی ڈگری کی وجہ سے شرعاً خلع واقع نہیں ہوا ہے۔خلع ایک دیگر مالی معاملات کی طرح ایک عقدمالی ہے جس میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے،اگرمیاں بیوی میں سے کوئی ایک بھی راضی نہ ہو تو خلع واقع نہیں ہوتا۔ صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ میاں خلع پر راضی نہیں تھا تواس وجہ سے عدالتی خلع کی ڈگری کی وجہ سے خلع واقع نہیں ہوا ہے اور بیوی مسماۃ نائلہ تاحال اپنے شوہر کے نکاح میں ہے ۔اگر اس عدالتی خلع کے علاوہ کوئی اور طلاق وغیرہ واقع نہ ہوا ہو تو دونوں کا نکاح چونکہ تاحال قائم ہے اس وجہ سے وہ دونوں آپس میں ازواجی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
فالخلع لا يخلو أما إن كان بغير بدل.وأما إن كان ببدل فإن كان بغير بدل بأن قال: خالعتك، ونوى الطلاق فحكمه أنه يقع الطلاق، ولا يسقط شيء من المهر، وإن كان ببدل فإن كان البدل هو المهر بأن خلعها على المهر فحكمه أن المهر إن كان غير مقبوض أنه يسقط المهر عن الزوج، وتسقط عنه النفقة الماضية، وإن كان مقبوضا فعليها أن ترده على الزوج، وإن كان البدل مالا آخر سوى المهر فحكمه حكم سقوط كل حكم، وجب بالنكاح قبل الخلع من المهر، والنفقة الماضية، ووجوب البدل حتى لو خلعها على عبد أو على مائة درهم، ولم يذكر شيئا آخر فله ذلك ثم إن كان لم يعطها المهر برئ، ولم يكن لها عليه شيء سواء كان لم يدخل بها أو كان قد دخل بها، وإن كان قد أعطاها المهر لم يرجع عليها بشيء سواء كان بعد الدخول بها أو قبل الدخول بها، وكذلك إذا بارأها على عبد أو على مائة درهم فهو مثل الخلع في جميع ما وصفنا، وهذا قول أبي حنيفة.
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:3،ص:151۔
باب الخلع وهو أن تفتدي المرأة نفسها بمال ليخلعها به، فإذا فعلا لزمها المال ووقعت تطليقة بائنة،ويكره أن يأخذ منها شيئا إن كان هو الناشز، وإن كانت هي الناشزة كره له أن يأخذ أكثر مما أعطاها، وإن أخذ منها أكثر مما أعطاها حل له، وكذلك إن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق بائنا ويلزمها المال بالتزامها، وما صلح مهرا صلح بدلا في الخلع۔
الاختیار لتعلیل المختار،مطبعۃ الحلبی،قاہرہ،1356ھ،ج:3،ص:156۔
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان.
الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:1،ص:491۔
اب تک تمام فقہاء ومجتہدین کا اس پراتفاق چلا آتا ہے کہ خلع شوہر اور بیوی کا ایک باہمی معاملہ ہے جو فریقین کی رضامندی پر موقوف ہے ،لہٰذا کوئی فریق دوسرے کو اس پرمجبور نہیں کرسکتا۔نہ شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ بیوی کو خلع پر قانوناً مجبور کرے اور نہ بیوی کو یہ حق ہے کہ وہ شوہر سے بزور قانون خلع حاصل کر لے۔
فقہی مقالات (شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب)میمن اسلامک پبلشرز،ج:2،ص:145۔
جب خاوند بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا تواس صورت میں خاوند کی رضامندی کے بغیر قاضی کو خلع وتفریق کرانے کا حق نہیں ،کیونکہ طلاق اور خلع میں رضاء زوج شرط ہے۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:4،ص:524۔
شریعت مطہرہ میں خلع بھی دیگر عقود کی طرح ایک عقد ہے،جو فریقین کی رضامندی کے بغیر تام نہیں ہوتا،لہٰذا بصورت مسئولہ خلع منعقد نہیں ہوا اور عورت کاخلع کا دعویٰ کرنا لغو اور بے بنیاد ہے،وہ حسب سابق اس مرد کے نکاح میں ہے،طلاق یا تفریق کے بغیر کسی اور سے نکاح کرنا ناجائز ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،ج:4،ص:238۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر) ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال اگر مسمی محمداحسان ولد غلام غوث اپنی بیوی مسماۃ نائلہ کے ساتھ خلع کرنے پرراضی نہیں تھا اور کیس کے دوران عدالت میں محمداحسان کے وکیل نے خلع پررضامندی ظاہر نہ کی ہو توپھریک طرفہ عدالتی خلع کی ڈگری کی وجہ سے شرعاً خلع واقع نہیں ہوا ہے۔خلع ایک دیگر مالی معاملات کی طرح ایک عقدمالی ہے جس میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے،اگرمیاں بیوی میں سے کوئی ایک بھی راضی نہ ہو تو خلع واقع نہیں ہوتا۔ صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ میاں خلع پر راضی نہیں تھا تواس وجہ سے عدالتی خلع کی ڈگری کی وجہ سے خلع واقع نہیں ہوا ہے اور بیوی مسماۃ نائلہ تاحال اپنے شوہر کے نکاح میں ہے ۔اگر اس عدالتی خلع کے علاوہ کوئی اور طلاق وغیرہ واقع نہ ہوا ہو تو دونوں کا نکاح چونکہ تاحال قائم ہے اس وجہ سے وہ دونوں آپس میں ازواجی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
فالخلع لا يخلو أما إن كان بغير بدل.وأما إن كان ببدل فإن كان بغير بدل بأن قال: خالعتك، ونوى الطلاق فحكمه أنه يقع الطلاق، ولا يسقط شيء من المهر، وإن كان ببدل فإن كان البدل هو المهر بأن خلعها على المهر فحكمه أن المهر إن كان غير مقبوض أنه يسقط المهر عن الزوج، وتسقط عنه النفقة الماضية، وإن كان مقبوضا فعليها أن ترده على الزوج، وإن كان البدل مالا آخر سوى المهر فحكمه حكم سقوط كل حكم، وجب بالنكاح قبل الخلع من المهر، والنفقة الماضية، ووجوب البدل حتى لو خلعها على عبد أو على مائة درهم، ولم يذكر شيئا آخر فله ذلك ثم إن كان لم يعطها المهر برئ، ولم يكن لها عليه شيء سواء كان لم يدخل بها أو كان قد دخل بها، وإن كان قد أعطاها المهر لم يرجع عليها بشيء سواء كان بعد الدخول بها أو قبل الدخول بها، وكذلك إذا بارأها على عبد أو على مائة درهم فهو مثل الخلع في جميع ما وصفنا، وهذا قول أبي حنيفة.
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:3،ص:151۔
باب الخلع وهو أن تفتدي المرأة نفسها بمال ليخلعها به، فإذا فعلا لزمها المال ووقعت تطليقة بائنة،ويكره أن يأخذ منها شيئا إن كان هو الناشز، وإن كانت هي الناشزة كره له أن يأخذ أكثر مما أعطاها، وإن أخذ منها أكثر مما أعطاها حل له، وكذلك إن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق بائنا ويلزمها المال بالتزامها، وما صلح مهرا صلح بدلا في الخلع۔
الاختیار لتعلیل المختار،مطبعۃ الحلبی،قاہرہ،1356ھ،ج:3،ص:156۔
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان.
الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:1،ص:491۔
اب تک تمام فقہاء ومجتہدین کا اس پراتفاق چلا آتا ہے کہ خلع شوہر اور بیوی کا ایک باہمی معاملہ ہے جو فریقین کی رضامندی پر موقوف ہے ،لہٰذا کوئی فریق دوسرے کو اس پرمجبور نہیں کرسکتا۔نہ شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ بیوی کو خلع پر قانوناً مجبور کرے اور نہ بیوی کو یہ حق ہے کہ وہ شوہر سے بزور قانون خلع حاصل کر لے۔
فقہی مقالات (شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب)میمن اسلامک پبلشرز،ج:2،ص:145۔
جب خاوند بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا تواس صورت میں خاوند کی رضامندی کے بغیر قاضی کو خلع وتفریق کرانے کا حق نہیں ،کیونکہ طلاق اور خلع میں رضاء زوج شرط ہے۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:4،ص:524۔
شریعت مطہرہ میں خلع بھی دیگر عقود کی طرح ایک عقد ہے،جو فریقین کی رضامندی کے بغیر تام نہیں ہوتا،لہٰذا بصورت مسئولہ خلع منعقد نہیں ہوا اور عورت کاخلع کا دعویٰ کرنا لغو اور بے بنیاد ہے،وہ حسب سابق اس مرد کے نکاح میں ہے،طلاق یا تفریق کے بغیر کسی اور سے نکاح کرنا ناجائز ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،ج:4،ص:238۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر) ٹوپی صوابی