عدالتی تنسیخ نکاح کا شرعی حکم
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسماۃ نائلہ نے اپنے شوہرمحمداحسان ولدغلام غوث کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کیا کہ میرا شوہرمجھ پرظلم کرتا ہے اورمیرے شوہرنے دوسری شادی کی ہے ،اور عدالت میں یہ درخواست دائر کی کہ مجھے تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کی جائےاور عدالت نے اس کے حق میں تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کردی۔ اس پورے مرحلے کے دوران مسماۃ نائلہ کا شوہرمسمی محمداحسان ولد غلام غوث روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم تھااور قانونی مشکلات کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکتا تھا۔محمداحسان نے نہ ہی مسماۃ نائلہ پرکوئی ظلم نہیں کیا تھااور نہ ہی اس کے تنسیخ نکاح کی ڈگری لینے پر راضی تھا، بلکہ عدالت میں کیس کے دوران بھی میاں بیوی کے تعلقات قائم تھےاور آپس میں دونوں کی بات چیت بھی ہوتی تھی۔ اب مسمی محمداحسان ولد غلام غوث پاکستان واپس آچکاہے اور اپنی بیوی مسماۃ نائلہ کے ساتھ دوبارہ گھر بسانا چاہتا ہے اور مسماۃ نائلہ بھی اس پر راضی ہے۔ماں باپ اور دیگر گھر والے بھی اس بات پر راضی ہیں کہ دونوں کا دوبارہ گھر بس جائے۔سوال یہ ہے کہ عدالتی تنسیخ نکاح کی ڈگری کے بعد کیا یہ دونوں دوبارہ آپس میں ازواجی تعلقات قائم کر سکتے ہیں یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کے ممنون فرمائیں۔ المستفتی محمداحسان ولد غلام غوث 0320-5759598
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کاجواب دینے سے پہلے عدالتی تنسیخ نکاح کے بارے میں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔پہلی بات یہ کہ دین اسلام میں کسی کو بھی دوسرے پر ظلم وزیادتی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔نہ آقا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے غلام پر کوئی زیادتی کرے اور نہ شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی پر کوئی ظلم و زیادتی کرے۔میاں بیوی کا رشتہ ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہے اور اسلام نے دونوں کو یہ حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں تاکہ پیار ومحبت کے ساتھ یہ تعلق قائم رہے۔بسا اوقات کچھ حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ میاں بیوی میں اختلاف واقع ہو جاتا ہے اور دونوں کاآپس میں رہنا مشکل ہوجاتاہے تو ایسی صورت میں سب سے پہلے میاں بیوی میں صلح کی کوشش کی جائے۔دونوں طرف سے حکمین کومقرر کیا جائے اور حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ ان کا گھر بنا رہے۔ان تمام تر کوششوں کے بعد بھی اگر میاں بیوی کا آپس میں اتفاق نہیں بن پاتا تو شریعت نے شوہر کو طلاق کااختیار دیا ہے کہ وہ ایک طلاق دے کر معاملہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کرے۔
اب ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ میاں بیوی کا آپس میں اختلافات کی وجہ سےایک ساتھ رہنا بھی مشکل ہے اور میاں طلاق بھی نہیں دیتا،تو ایسی صورت میں شریعت بیوی کو کہتی ہے کہ شوہر کو مال دے کریامہروغیرہ معاف کرکے اس کو خلع پرراضی کرے اور اس سے خلع لے لے۔ اگرشوہر بیوی کے حقوق بھی ادا نہیں کرتا،بیوی کو ساتھ رکھتا بھی نہیں،طلاق بھی نہیں دیتا اور خلع پر بھی راضی نہیں ہوتا توپھرایسے مخصوص حالات بامرمجبوری بیوی عدالت سے تنسیخ نکاح کے لیے رجوع کرسکتی ہے۔یہ مخصوص حالات مندرجہ ذیل چھ میں منحصر ہیں۔یعنی جب کوئی شخص شادی کے بعد ان چھ صورتوں میں سے کسی صورت کا حامل ہو تو اس کی بیوی تنسیخ نکاح کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔
1۔عنین:اس کامطلب یہ ہے کہ شوہر نکاح سے پہلے ہی نامرد ہوچکاہویعنی عضومخصوص ہونے کے باوجود بیوی سے جماع پر قادر نہ ہوسکتا ہو،مگربیوی کو بوقت نکاح اس بات کا علم نہیں تھا۔یہ بھی ضروری ہے کہ شادی کے بعد اس نے ایک بار بھی جماع نہ کی ہو ،اسی طرح یہ بھی لازمی ہے کہ شادی کے بعد جب بیوی کو پتہ چلا کہ اس کی شادی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی ہے جو نامرد ہو چکا ہے تو بیوی نے اس کے ساتھ رہنے پررضامندی ظاہر نہ کی ہو۔
2۔متعنت:اس سے مراد وہ شوہر ہے جو بیوی کوقدرت ہونے کے باوجود بھی نان نفقہ نہیں دیتااور نہ ہی بیوی خود اپنی عفت وعزت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی آمدنی پر قدرت رکھتی ہو۔مجبور ہوکربیوی حاکم وقت یا عدالت کے پاس شکایت لے کر چلی گئی ،حاکم وقت یا عدالت نے اسے خرچہ دینے یا نان نفقہ نہ دینے کی صورت میں طلاق دینے کاحکم دیا،مگر یہ شوہر عدالت یاحاکم کا ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی بات ماننے کے لیے تیار نہیں، مطلب حکم حاکم کے بعد بھی نہ نان نفقہ دیتا ہے اور نہ ہی طلاق دیتا ہے۔
3۔غائب :وہ شوہر ہے جو بیوی کوخرچہ بھی نہیں دیتا اور نہ ہی طلاق دیتا ہے۔اور جب بیوی عدالت چلی گئی تو یہ جواب دہی کے لیے عدالت میں بھی حاضری نہیں دیتا۔غائب میں اور متعنت میں فرق یہ ہے کہ متعنت عدالت میں جواب دہی کے لیے حاضری دیتا ہے مگر عدالتی حکم کو قبول نہیں کرتا جبکہ غائب سرے سے عدالت میں آتا ہی نہیں۔
4۔معسر:معسر سے مراد وہ شوہر ہے جو اپنی غربت اور تنگدستی کی وجہ سے بیوی کے نان نفقہ پر قدرت نہیں رکھتامگر اسے طلاق بھی نہیں دیتا۔
5۔مفقود:ایسا شوہرجو شادی کے بعد اچانک لاپتہ ہوجائے اور تمام تر ممکنہ ذرائع کو استعمال کرنے کے بعد بھی اس کاکوئی سراغ نہ ملے ، نہ یہ پتہ چلے کہ وہ زندہ ہے اور نہ یہ پتہ چلے کہ وہ مرگیاہے۔
6۔مجنون:مجنون سے مراد ایسا شوہر ہے جواپنے پاگل پن کی وجہ سے یاتونان نفقہ دینے پر قادر نہیں یااس کے ساتھ رہنے میں یہ قوی اندیشہ ہے کہ بیوی کواپنے پاگل پن کی وجہ سے مار دے گا یااس کے ساتھ رہنا بیوی کے لیے اس کے پاگل پن کی وجہ سےناقابل برداشت ہو گیا ہو۔
ان مذکورہ بالا صورتوں میں بھی عدالت سے رجوع کرنے اور پھر عدالت کاتنسیخ نکاح کرنے کی بہت ساری شرائط وضوابط ہیں جن کا لحاظ لیے بغیر تنسیخ نکاح پھر بھی معتبر نہیں ہوگی۔مذکورہ بالا صورتوں میں بھی کافی تفصیل ہے،عورت کے عدالت سے رجوع کرنے کی بھی شرائط ہیں،قاضی کس طرح اور کن شرائط پر تنسیخ نکاح کرے گااس میں بھی کافی تفصیل ہے مگریہاں ہم ان تمام تفصیلات کو بیان نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ مقام ان تفصیلات کا ہے،یہاں مقصود صرف ان صورتوں کی طرف اشارہ کرنا تھا جن میں بیوی تنسیخ نکاح کے لیے عدالت رجوع کرسکتی ہے۔
دوسری بات جس کاسمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر مذکورہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں عدالت بیوی کے حق میں تنسیخ نکاح کافیصلہ کرتی ہے تو شریعت کی روشنی میں اس کاحکم طلاق بائن کا ہوتا ہے،یعنی تنسیخ نکاح کے فیصلے کی وجہ سے بیوی پر طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔طلاق بائن کاحکم یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بیوی فوراً جدا ہوجاتی ہے اور نکاح ختم ہوجاتاہے لیکن اگرمیاں بیوی راضی ہو تو دوبارہ نکاح جدید کر سکتے ہیں۔
ان مذکورہ بالا تمہیدی باتوں کو سمجھنے کے بعد صورت مسئولہ کے مطابق بیوی مسماۃ نائلہ کا یہ کہنا کہ " میرا شوہرمجھ پرظلم کرتا ہے اور میرے شوہرنے دوسری شادی کی ہے"بظاہر ان مذکورہ بالا چھ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں بنتی کہ جس کو بنیاد بناکر تنسیخ نکاح کرایا جائے۔اور فقہائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ جہاں شرعاً نکاح قابل تنسیخ نہیں ہوتا وہاں اگر عدالت تنسیخ نکاح کر بھی دے تو بھی شرعاً اس تنسیخ کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔اس وجہ سے اس اعتبار سے تو ان دونوں کا نکاح علیٰ حالہ قائم ہے۔اوراس صورت میں اگر وہ احتیاطاً تجدید نکاح کر لیتے ہیں تو بہتر ہے کیونکہ فقہائے کرام نے عام حالات میں بھی کبھی کبھی تجدید نکاح کو احوط لکھا ہے۔اور اگر اس عدالتی تنسیخ نکاح کو معتبر مان بھی لیاجائے تو جیسا کہ ماقبل میں بیان ہوچکا ہے کہ عدالت کی تنسیخ طلاق بائن کے حکم میں ہوتی ہے اور طلاق بائن کے بعد بھی نکاح جدید ہو سکتا ہے۔اس وجہ سے ان تمام تفصیلات اور باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم صورت مسئولہ کا جواب یوں دیتے ہیں کہ:
"صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال مسماۃ نائلہ اور مسمی محمداحسان اگر دونوں باہمی رضامندی اور خوشی سے ایک ساتھ دوبارہ اپناگھر بسانا چاہتے ہیں تو دونوں کاآپس میں نکاح ہو سکتا ہے، اس وجہ سے دونوں نکاح جدید کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں۔"
الباب الثاني عشر في العنين هو الذي لا يصل إلى النساء مع قيام الآلة، فإن كان يصل إلى الثيب دون الأبكار أو إلى بعض النساء دون البعض، وذلك لمرض به أو لضعف في خلقه أو لكبر سنه أو سحر فهو عنين في حق من لا يصل إليها كذا في النهاية. إذا أولج الحشفة فليس بعنين، وإن كان مقطوعها فلا بد من إيلاج بقية الذكر في البحر الرائق إذا رفعت المرأة زوجها إلى القاضي وادعت أنه عنين وطلبت الفرقة فإن القاضي يسأله هل وصل إليها أو لم يصل فإن أقر أنه لم يصل أجله سنة سواء كانت المرأة بكرا أم ثيبا، وإن أنكر وادعى الوصول إليها فإن كانت المرأة ثيبا فالقول قوله مع يمينه أنه وصل إليها كذا في البدائع۔۔۔۔الخ
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:1،ص:522۔
وأما العقل فلا رواية فيه عن أصحابنا المتقدمين واختلف فيه المتأخرون اهـ أي في أنه هل يعتبر في الكفاءة أو لا (قوله ولا بعيوب إلخ) أي ولا يعتبر في الكفاءة السلامة من العيوب التي يفسخ بها البيع كالجذام والجنون والبرص والبخر والدفر بحر (قوله خلافا للشافعي) وكذا لمحمد في الثلاثة الأول إذا كان بحال لا تطيق المقام معه إلا أن التفريق أو الفسخ للزوجة لا للولي في الفتح (قوله ليس بكفء للعاقلة) قال في النهر: لأنه يفوت مقاصد النكاح فكان أشد من الفقر دناءة الحرفة، وينبغي اعتماده لأن الناس يعيرون بتزويج المجنون أكثر من ذي الحرفة الدنيئة۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:93۔
قوله: واختار الزيلعي تفويضه للإمام) قال في الفتح: فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته. قال في النهر: وفي الينابيع: قيل يفوض إلى رأي القاضي، ولا تقدير فيه في ظاهر الرواية. وفي القنية: جعل هذا رواية عن الإمام.قلت: والظاهر أن هذا غير خارج عن ظاهر الرواية أيضا، بل هو أقرب إليه من القول بالتقدير؛ لأنه فسره في شرح الوهبانية بأن ينظر ويجتهد ويفعل ما يغلب على ظنه فلا يقول بالتقدير؛ لأنه لم يرد به الشرع بل ينظر في الأقران وفي الزمان والمكان ويجتهد، ثم نقل عن مغني الحنابلة حكايته عن الشافعي ومحمد، وأنه المشهور عن مالك وأبي حنيفة وأبي يوسف. وقال الزيلعي: لأنه يختلف باختلاف البلاد وكذا غلبة الظن تختلف باختلاف الأشخاص فإن الملك العظيم إذا انقطع خبره يغلب على الظن في أدنى مدة أنه قد مات اهـ ومقتضاه أنه يجتهد ويحكم القرائن الظاهرة الدالة على موته وعلى هذا يبتنى على ما في جامع الفتاوى حيث قال: وإذا فقد في المهلكة فموته غالب فيحكم به، كما إذا فقد في وقت الملاقاة مع العدو أو مع قطاع الطريق، أو سافر على المرض الغالب هلاكه، أو كان سفره في البحر وما أشبه ذلك حكم بموته؛ لأنه الغالب في هذه الحالات وإن كان بين احتمالين، واحتمال موته ناشئ عن دليل لا احتمال حياته؛ لأن هذا الاحتمال كاحتمال ما إذا بلغ المفقود مقدار ما لا يعيش على حسب ما اختلفوا في المقدار نقل من الغنية ما في جامع الفتاوى۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:4،ص:297۔
فإذا مضت السنة، ولم يصل إليها علم أنه لآفة أصلية، فتخير؛ فإن اختارت نفسها قال أبو يوسف ومحمد: بانت، وهو ظاهر الرواية. وروى الحسن عن أبي حنيفة: لا تبين إلا بتفريق القاضي، وهو المشهور من مذهبه. لهما: أن الشرع خيرها عند تمام الحول دفعا للضرر عنها، فلا يحتاج إلى تفريق القاضي كما إذا خيرها الزوج. وله: أن النكاح عقد لازم، وملك الزوج فيه معصوم؛ فلا يزول إلا بإزالته دفعا للضرر عنه. لكن لما وجب عليه الإمساك بالمعروف أو التسريح بالإحسان، وقد عجز عن الأول بالعنة، ولا يمكن القاضي النيابة فيه فوجب عليه التسريح بالإحسان، فإذا امتنع عنه ناب القاضي منابه؛ لأنه نصب لدفع الظلم، فلا تبين بدون تفريق القاضي. فإذا فرق يصير كأنه طلقها بنفسه، فتكون تطليقة بائنة؛ ليحصل مقصودها، وهو دفع الظلم عنها بملكها نفسها. ويشترط طلبها؛ لأن الفرقة حقها.
الاختیار لتعلیل المختار،مطبعۃ الحلبی،القاہرۃ،1356ھ،ج:3،ص:115۔
باب العنين وغيره وإذا كان الزوج عنينا أجله الحاكم سنة فإن وصل إليها فبها وإلا فرق بينهما إذا طلبت المرأة ذلك " هكذا روي عن عمر وعلي وابن مسعود رضي الله تعالى عنهم ولأن الحق ثابت لها في الوطء ويحتمل أن يكون الامتناع لعلة معترضة ويحتمل لآفة أصلية فلا بد من مدة معرفة لذلك وقدرناها بالسنة لاشتمالها على الفصول الأربعة فإذا مضت المدة ولم يصل إليها تبين أن العجز بآفة أصلية ففات الإمساك بالمعروف ووجب عليه التسريح بالإحسان فإذا امتنع ناب القاضي منابه ففرق بينهما ولا بد من طلبها لأن التفريق حقها " وتلك الفرقة تطليقة بائنة " لأن فعل القاضي أضيف إلى فعل الزوج فكأنه طلقها بنفسه وقال الشافعي رحمه الله هو فسخ لكن النكاح لا يقبل الفسخ عندنا وإنما تقع بائنة لأن المقصود وهو دفع الظلم عنها لا يحصل إلا بها لو لم تكن بائنة تعود معلقة بالمراجعة " ولها كمال مهرها إن كان خلا بها " إن خلوة العنين صحيحة " ويجب العدة " لما بينا من قبل هذا إذا اقر الزوج أنه لم يصل إليها.
الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:2،ص:273۔
ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان؛ لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهم عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:1،ص:42۔
ظلم یا ناچاقی کے سبب عدالت (یااس کے قائم مقام مثلاً جمعیت العلماء)میاں بیوی کے درمیان جو تفریق کردے گی تو وہ تفریق اپنے حکم کے اعتبار سے ایک طلاق بائن ہوگی۔ فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،ج:4،ص:257۔
اگر متعنت شخص اگر اپنی حرکت سے اس وقت باز آئے جب کہ حاکم شرعی اس کی بیوی پرطلاق واقع کر چکے اور عدت بھی گذرجائے تو اب اس شخص کا اپنی بیوی پر کسی قسم کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا کیونکہ عدت گذرنے کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتااگرچہ طلاق رجعی ہی ہو ،البتہ دونوں فریق کی رضامندی سے نکاح ہو سکتا ہے۔
الحیلۃ الناجزۃ،مکتبہ رضی دیوبند،انڈیا،ص:131۔
اگر عورت کے حقوق سے لاپرواشخص اپنی حرکت سے اس وقت باز آجائے جب کہ حاکم شرعی اس کی بیوی پرطلاق واقع کرچکے اور عدت بھی گزر چکے،تواب اس کا کوئی اختیار بیوی پرنہیں رہتاکیونکہ عدت گزرنے کے بعد رجوع کاحق نہیں رہتااگرچہ طلاق ابھی ابھی ہوجب بھی دونوں فریق کی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
الحیلۃ الناجزۃ،مکتبہ رضی دیوبند،انڈیا،ص:294۔
خاوند جب تک اپنی زوجہ کے حقوق زوجیت پوری طرح ادا کرنے پر قادر ہو اور نان نفقہ کا بھی انتظام کرتا ہو اس وقت تک اس کی زوجہ کا نکاح شرعاً قابل فسخ نہیں ہوتا،اگر جج اپنے کسی قانون کے تحت فسخ بھی کردے تو بھی شریعت میں وہ فسخ معتبر نہیں ہوتا بلکہ شریعت میں وہ قائم رہتا ہے،اور شرعاً عورت کا دوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوتا۔
خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:6،ص:67۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر) ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کاجواب دینے سے پہلے عدالتی تنسیخ نکاح کے بارے میں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔پہلی بات یہ کہ دین اسلام میں کسی کو بھی دوسرے پر ظلم وزیادتی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔نہ آقا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے غلام پر کوئی زیادتی کرے اور نہ شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی پر کوئی ظلم و زیادتی کرے۔میاں بیوی کا رشتہ ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہے اور اسلام نے دونوں کو یہ حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں تاکہ پیار ومحبت کے ساتھ یہ تعلق قائم رہے۔بسا اوقات کچھ حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ میاں بیوی میں اختلاف واقع ہو جاتا ہے اور دونوں کاآپس میں رہنا مشکل ہوجاتاہے تو ایسی صورت میں سب سے پہلے میاں بیوی میں صلح کی کوشش کی جائے۔دونوں طرف سے حکمین کومقرر کیا جائے اور حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ ان کا گھر بنا رہے۔ان تمام تر کوششوں کے بعد بھی اگر میاں بیوی کا آپس میں اتفاق نہیں بن پاتا تو شریعت نے شوہر کو طلاق کااختیار دیا ہے کہ وہ ایک طلاق دے کر معاملہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کرے۔
اب ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ میاں بیوی کا آپس میں اختلافات کی وجہ سےایک ساتھ رہنا بھی مشکل ہے اور میاں طلاق بھی نہیں دیتا،تو ایسی صورت میں شریعت بیوی کو کہتی ہے کہ شوہر کو مال دے کریامہروغیرہ معاف کرکے اس کو خلع پرراضی کرے اور اس سے خلع لے لے۔ اگرشوہر بیوی کے حقوق بھی ادا نہیں کرتا،بیوی کو ساتھ رکھتا بھی نہیں،طلاق بھی نہیں دیتا اور خلع پر بھی راضی نہیں ہوتا توپھرایسے مخصوص حالات بامرمجبوری بیوی عدالت سے تنسیخ نکاح کے لیے رجوع کرسکتی ہے۔یہ مخصوص حالات مندرجہ ذیل چھ میں منحصر ہیں۔یعنی جب کوئی شخص شادی کے بعد ان چھ صورتوں میں سے کسی صورت کا حامل ہو تو اس کی بیوی تنسیخ نکاح کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔
1۔عنین:اس کامطلب یہ ہے کہ شوہر نکاح سے پہلے ہی نامرد ہوچکاہویعنی عضومخصوص ہونے کے باوجود بیوی سے جماع پر قادر نہ ہوسکتا ہو،مگربیوی کو بوقت نکاح اس بات کا علم نہیں تھا۔یہ بھی ضروری ہے کہ شادی کے بعد اس نے ایک بار بھی جماع نہ کی ہو ،اسی طرح یہ بھی لازمی ہے کہ شادی کے بعد جب بیوی کو پتہ چلا کہ اس کی شادی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی ہے جو نامرد ہو چکا ہے تو بیوی نے اس کے ساتھ رہنے پررضامندی ظاہر نہ کی ہو۔
2۔متعنت:اس سے مراد وہ شوہر ہے جو بیوی کوقدرت ہونے کے باوجود بھی نان نفقہ نہیں دیتااور نہ ہی بیوی خود اپنی عفت وعزت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی آمدنی پر قدرت رکھتی ہو۔مجبور ہوکربیوی حاکم وقت یا عدالت کے پاس شکایت لے کر چلی گئی ،حاکم وقت یا عدالت نے اسے خرچہ دینے یا نان نفقہ نہ دینے کی صورت میں طلاق دینے کاحکم دیا،مگر یہ شوہر عدالت یاحاکم کا ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی بات ماننے کے لیے تیار نہیں، مطلب حکم حاکم کے بعد بھی نہ نان نفقہ دیتا ہے اور نہ ہی طلاق دیتا ہے۔
3۔غائب :وہ شوہر ہے جو بیوی کوخرچہ بھی نہیں دیتا اور نہ ہی طلاق دیتا ہے۔اور جب بیوی عدالت چلی گئی تو یہ جواب دہی کے لیے عدالت میں بھی حاضری نہیں دیتا۔غائب میں اور متعنت میں فرق یہ ہے کہ متعنت عدالت میں جواب دہی کے لیے حاضری دیتا ہے مگر عدالتی حکم کو قبول نہیں کرتا جبکہ غائب سرے سے عدالت میں آتا ہی نہیں۔
4۔معسر:معسر سے مراد وہ شوہر ہے جو اپنی غربت اور تنگدستی کی وجہ سے بیوی کے نان نفقہ پر قدرت نہیں رکھتامگر اسے طلاق بھی نہیں دیتا۔
5۔مفقود:ایسا شوہرجو شادی کے بعد اچانک لاپتہ ہوجائے اور تمام تر ممکنہ ذرائع کو استعمال کرنے کے بعد بھی اس کاکوئی سراغ نہ ملے ، نہ یہ پتہ چلے کہ وہ زندہ ہے اور نہ یہ پتہ چلے کہ وہ مرگیاہے۔
6۔مجنون:مجنون سے مراد ایسا شوہر ہے جواپنے پاگل پن کی وجہ سے یاتونان نفقہ دینے پر قادر نہیں یااس کے ساتھ رہنے میں یہ قوی اندیشہ ہے کہ بیوی کواپنے پاگل پن کی وجہ سے مار دے گا یااس کے ساتھ رہنا بیوی کے لیے اس کے پاگل پن کی وجہ سےناقابل برداشت ہو گیا ہو۔
ان مذکورہ بالا صورتوں میں بھی عدالت سے رجوع کرنے اور پھر عدالت کاتنسیخ نکاح کرنے کی بہت ساری شرائط وضوابط ہیں جن کا لحاظ لیے بغیر تنسیخ نکاح پھر بھی معتبر نہیں ہوگی۔مذکورہ بالا صورتوں میں بھی کافی تفصیل ہے،عورت کے عدالت سے رجوع کرنے کی بھی شرائط ہیں،قاضی کس طرح اور کن شرائط پر تنسیخ نکاح کرے گااس میں بھی کافی تفصیل ہے مگریہاں ہم ان تمام تفصیلات کو بیان نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ مقام ان تفصیلات کا ہے،یہاں مقصود صرف ان صورتوں کی طرف اشارہ کرنا تھا جن میں بیوی تنسیخ نکاح کے لیے عدالت رجوع کرسکتی ہے۔
دوسری بات جس کاسمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر مذکورہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں عدالت بیوی کے حق میں تنسیخ نکاح کافیصلہ کرتی ہے تو شریعت کی روشنی میں اس کاحکم طلاق بائن کا ہوتا ہے،یعنی تنسیخ نکاح کے فیصلے کی وجہ سے بیوی پر طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔طلاق بائن کاحکم یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بیوی فوراً جدا ہوجاتی ہے اور نکاح ختم ہوجاتاہے لیکن اگرمیاں بیوی راضی ہو تو دوبارہ نکاح جدید کر سکتے ہیں۔
ان مذکورہ بالا تمہیدی باتوں کو سمجھنے کے بعد صورت مسئولہ کے مطابق بیوی مسماۃ نائلہ کا یہ کہنا کہ " میرا شوہرمجھ پرظلم کرتا ہے اور میرے شوہرنے دوسری شادی کی ہے"بظاہر ان مذکورہ بالا چھ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں بنتی کہ جس کو بنیاد بناکر تنسیخ نکاح کرایا جائے۔اور فقہائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ جہاں شرعاً نکاح قابل تنسیخ نہیں ہوتا وہاں اگر عدالت تنسیخ نکاح کر بھی دے تو بھی شرعاً اس تنسیخ کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔اس وجہ سے اس اعتبار سے تو ان دونوں کا نکاح علیٰ حالہ قائم ہے۔اوراس صورت میں اگر وہ احتیاطاً تجدید نکاح کر لیتے ہیں تو بہتر ہے کیونکہ فقہائے کرام نے عام حالات میں بھی کبھی کبھی تجدید نکاح کو احوط لکھا ہے۔اور اگر اس عدالتی تنسیخ نکاح کو معتبر مان بھی لیاجائے تو جیسا کہ ماقبل میں بیان ہوچکا ہے کہ عدالت کی تنسیخ طلاق بائن کے حکم میں ہوتی ہے اور طلاق بائن کے بعد بھی نکاح جدید ہو سکتا ہے۔اس وجہ سے ان تمام تفصیلات اور باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم صورت مسئولہ کا جواب یوں دیتے ہیں کہ:
"صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال مسماۃ نائلہ اور مسمی محمداحسان اگر دونوں باہمی رضامندی اور خوشی سے ایک ساتھ دوبارہ اپناگھر بسانا چاہتے ہیں تو دونوں کاآپس میں نکاح ہو سکتا ہے، اس وجہ سے دونوں نکاح جدید کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں۔"
الباب الثاني عشر في العنين هو الذي لا يصل إلى النساء مع قيام الآلة، فإن كان يصل إلى الثيب دون الأبكار أو إلى بعض النساء دون البعض، وذلك لمرض به أو لضعف في خلقه أو لكبر سنه أو سحر فهو عنين في حق من لا يصل إليها كذا في النهاية. إذا أولج الحشفة فليس بعنين، وإن كان مقطوعها فلا بد من إيلاج بقية الذكر في البحر الرائق إذا رفعت المرأة زوجها إلى القاضي وادعت أنه عنين وطلبت الفرقة فإن القاضي يسأله هل وصل إليها أو لم يصل فإن أقر أنه لم يصل أجله سنة سواء كانت المرأة بكرا أم ثيبا، وإن أنكر وادعى الوصول إليها فإن كانت المرأة ثيبا فالقول قوله مع يمينه أنه وصل إليها كذا في البدائع۔۔۔۔الخ
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:1،ص:522۔
وأما العقل فلا رواية فيه عن أصحابنا المتقدمين واختلف فيه المتأخرون اهـ أي في أنه هل يعتبر في الكفاءة أو لا (قوله ولا بعيوب إلخ) أي ولا يعتبر في الكفاءة السلامة من العيوب التي يفسخ بها البيع كالجذام والجنون والبرص والبخر والدفر بحر (قوله خلافا للشافعي) وكذا لمحمد في الثلاثة الأول إذا كان بحال لا تطيق المقام معه إلا أن التفريق أو الفسخ للزوجة لا للولي في الفتح (قوله ليس بكفء للعاقلة) قال في النهر: لأنه يفوت مقاصد النكاح فكان أشد من الفقر دناءة الحرفة، وينبغي اعتماده لأن الناس يعيرون بتزويج المجنون أكثر من ذي الحرفة الدنيئة۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:93۔
قوله: واختار الزيلعي تفويضه للإمام) قال في الفتح: فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته. قال في النهر: وفي الينابيع: قيل يفوض إلى رأي القاضي، ولا تقدير فيه في ظاهر الرواية. وفي القنية: جعل هذا رواية عن الإمام.قلت: والظاهر أن هذا غير خارج عن ظاهر الرواية أيضا، بل هو أقرب إليه من القول بالتقدير؛ لأنه فسره في شرح الوهبانية بأن ينظر ويجتهد ويفعل ما يغلب على ظنه فلا يقول بالتقدير؛ لأنه لم يرد به الشرع بل ينظر في الأقران وفي الزمان والمكان ويجتهد، ثم نقل عن مغني الحنابلة حكايته عن الشافعي ومحمد، وأنه المشهور عن مالك وأبي حنيفة وأبي يوسف. وقال الزيلعي: لأنه يختلف باختلاف البلاد وكذا غلبة الظن تختلف باختلاف الأشخاص فإن الملك العظيم إذا انقطع خبره يغلب على الظن في أدنى مدة أنه قد مات اهـ ومقتضاه أنه يجتهد ويحكم القرائن الظاهرة الدالة على موته وعلى هذا يبتنى على ما في جامع الفتاوى حيث قال: وإذا فقد في المهلكة فموته غالب فيحكم به، كما إذا فقد في وقت الملاقاة مع العدو أو مع قطاع الطريق، أو سافر على المرض الغالب هلاكه، أو كان سفره في البحر وما أشبه ذلك حكم بموته؛ لأنه الغالب في هذه الحالات وإن كان بين احتمالين، واحتمال موته ناشئ عن دليل لا احتمال حياته؛ لأن هذا الاحتمال كاحتمال ما إذا بلغ المفقود مقدار ما لا يعيش على حسب ما اختلفوا في المقدار نقل من الغنية ما في جامع الفتاوى۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:4،ص:297۔
فإذا مضت السنة، ولم يصل إليها علم أنه لآفة أصلية، فتخير؛ فإن اختارت نفسها قال أبو يوسف ومحمد: بانت، وهو ظاهر الرواية. وروى الحسن عن أبي حنيفة: لا تبين إلا بتفريق القاضي، وهو المشهور من مذهبه. لهما: أن الشرع خيرها عند تمام الحول دفعا للضرر عنها، فلا يحتاج إلى تفريق القاضي كما إذا خيرها الزوج. وله: أن النكاح عقد لازم، وملك الزوج فيه معصوم؛ فلا يزول إلا بإزالته دفعا للضرر عنه. لكن لما وجب عليه الإمساك بالمعروف أو التسريح بالإحسان، وقد عجز عن الأول بالعنة، ولا يمكن القاضي النيابة فيه فوجب عليه التسريح بالإحسان، فإذا امتنع عنه ناب القاضي منابه؛ لأنه نصب لدفع الظلم، فلا تبين بدون تفريق القاضي. فإذا فرق يصير كأنه طلقها بنفسه، فتكون تطليقة بائنة؛ ليحصل مقصودها، وهو دفع الظلم عنها بملكها نفسها. ويشترط طلبها؛ لأن الفرقة حقها.
الاختیار لتعلیل المختار،مطبعۃ الحلبی،القاہرۃ،1356ھ،ج:3،ص:115۔
باب العنين وغيره وإذا كان الزوج عنينا أجله الحاكم سنة فإن وصل إليها فبها وإلا فرق بينهما إذا طلبت المرأة ذلك " هكذا روي عن عمر وعلي وابن مسعود رضي الله تعالى عنهم ولأن الحق ثابت لها في الوطء ويحتمل أن يكون الامتناع لعلة معترضة ويحتمل لآفة أصلية فلا بد من مدة معرفة لذلك وقدرناها بالسنة لاشتمالها على الفصول الأربعة فإذا مضت المدة ولم يصل إليها تبين أن العجز بآفة أصلية ففات الإمساك بالمعروف ووجب عليه التسريح بالإحسان فإذا امتنع ناب القاضي منابه ففرق بينهما ولا بد من طلبها لأن التفريق حقها " وتلك الفرقة تطليقة بائنة " لأن فعل القاضي أضيف إلى فعل الزوج فكأنه طلقها بنفسه وقال الشافعي رحمه الله هو فسخ لكن النكاح لا يقبل الفسخ عندنا وإنما تقع بائنة لأن المقصود وهو دفع الظلم عنها لا يحصل إلا بها لو لم تكن بائنة تعود معلقة بالمراجعة " ولها كمال مهرها إن كان خلا بها " إن خلوة العنين صحيحة " ويجب العدة " لما بينا من قبل هذا إذا اقر الزوج أنه لم يصل إليها.
الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:2،ص:273۔
ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان؛ لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهم عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:1،ص:42۔
ظلم یا ناچاقی کے سبب عدالت (یااس کے قائم مقام مثلاً جمعیت العلماء)میاں بیوی کے درمیان جو تفریق کردے گی تو وہ تفریق اپنے حکم کے اعتبار سے ایک طلاق بائن ہوگی۔ فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،ج:4،ص:257۔
اگر متعنت شخص اگر اپنی حرکت سے اس وقت باز آئے جب کہ حاکم شرعی اس کی بیوی پرطلاق واقع کر چکے اور عدت بھی گذرجائے تو اب اس شخص کا اپنی بیوی پر کسی قسم کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا کیونکہ عدت گذرنے کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتااگرچہ طلاق رجعی ہی ہو ،البتہ دونوں فریق کی رضامندی سے نکاح ہو سکتا ہے۔
الحیلۃ الناجزۃ،مکتبہ رضی دیوبند،انڈیا،ص:131۔
اگر عورت کے حقوق سے لاپرواشخص اپنی حرکت سے اس وقت باز آجائے جب کہ حاکم شرعی اس کی بیوی پرطلاق واقع کرچکے اور عدت بھی گزر چکے،تواب اس کا کوئی اختیار بیوی پرنہیں رہتاکیونکہ عدت گزرنے کے بعد رجوع کاحق نہیں رہتااگرچہ طلاق ابھی ابھی ہوجب بھی دونوں فریق کی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
الحیلۃ الناجزۃ،مکتبہ رضی دیوبند،انڈیا،ص:294۔
خاوند جب تک اپنی زوجہ کے حقوق زوجیت پوری طرح ادا کرنے پر قادر ہو اور نان نفقہ کا بھی انتظام کرتا ہو اس وقت تک اس کی زوجہ کا نکاح شرعاً قابل فسخ نہیں ہوتا،اگر جج اپنے کسی قانون کے تحت فسخ بھی کردے تو بھی شریعت میں وہ فسخ معتبر نہیں ہوتا بلکہ شریعت میں وہ قائم رہتا ہے،اور شرعاً عورت کا دوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوتا۔
خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:6،ص:67۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر) ٹوپی صوابی