عالم یا طالب علم کے کسی بستی کے قبرستان پر گزرنے سے چالیس 40دن تک کےلیے عذاب دور کیا جاتا ہے
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس حدیث کے بارے میں کہ:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب حامداً ومصلیاً مذکورہ حدیث کتب احادیث میں ہمیں کہی نہیں ملی، البتہ امام سیوطی ؒ نےتخریج احادیث شرح العقائد للسعد التفتازانی میں (64) یہ روایت ذکر کرکے فرماتے ہیں،اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ "جب عالم یا طالب علم کسی بستی پر گزرتے ہیۓ،تو اللہ تعالی اس بستی کے قبرستان پر چالیس 40دن تک کےلیے عذاب دور فرمادیتا ہے"( امام سیوطیؒ فرماتے ہیں) اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ اوراس بات کا اقرار ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں (الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة:80) ،اور علامہ عجلونی ؒنے (كشف الخفاء:672) میں ،اور مرعی کرمی ؒ نے (الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة :171) میں ،اور محمد بن خلیل الحنفی ؒ نے(اللؤلؤ المرصوع:93) میں کیا ہے،کہ" اس روایت کا کوئی اصل نہیں"۔ اسی طرح اس روایت کے بارے میں امام ابن حجر مکی ہیتمیؒ سے الفتاوى الفقهية الكبرى میں (2/32) سوال کیا گیا: (وسئل) ذكر التفتازاني في شرح العقائد : عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله يدفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما» هل لهذا الحديث أصل وهل رواه أحد من أصحاب السنن أو لا؟ (فأجاب) بقوله لم أر لهذا الحديث وجودا في كتب الحديث الجامعة المبسوطة ولا في غيرها ثم رأيت الكمال بن أبي شريف صاحب الإسعاد قال إن الحديث لا أصل له وهو موافق لما ذكرته. ترجمہ: اور سوال پوچھا گیاکہ علامہ سعد الدین تفتازانی ؒ نےشرح العقائد میں ذکر کیا: کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"جب عالم یا طالب علم کسی بستی گزرتے ہیں ،تو اللہ تعالی اس بستی کے قبرستان پر چالیس 40دن تک کےلیے عذاب ٹال دیتا ہے" کیا اس حدیث کی کوئی اصل موجود ہے؟ اور کیا اصحاب کتب سنن میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے یا نہں؟ تو امام ابن حجر مکیؒ نے جواب دیا،کہ میں نے یہ حدیث کتب احادیث کی نہ بڑی کتابوں میں دیکھی،اور نہ ہی اس کے علاوہ میں ،پھر میں نے کمال الدین بن ابی شریف صاحب"الاسعاد بشرح الارشاد" کو دیکھا،تو انہوں نے فرمایا : اس روایت کا کوئی اصل نہیں،(ابن حجر مکیؒ فرماتےہیں) یہ اس بات کے موافق ہے،جو میں نے ذکر کی۔ یہ روایت پوری تحقیق کے بعد کتب احادیث میں کہی نہیں ملی، لہذا اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اشتیاق علی ذھبی دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی 16/جنوری /2023 الموافق 23/جمادی الثانی/ 1444ھ الجواب صحیح (حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم) رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی 16/جنوری /2023 الموافق 23/جمادی الثانی/ 1444ھ
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب حامداً ومصلیاً مذکورہ حدیث کتب احادیث میں ہمیں کہی نہیں ملی، البتہ امام سیوطی ؒ نےتخریج احادیث شرح العقائد للسعد التفتازانی میں (64) یہ روایت ذکر کرکے فرماتے ہیں،اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ "جب عالم یا طالب علم کسی بستی پر گزرتے ہیۓ،تو اللہ تعالی اس بستی کے قبرستان پر چالیس 40دن تک کےلیے عذاب دور فرمادیتا ہے"( امام سیوطیؒ فرماتے ہیں) اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ اوراس بات کا اقرار ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں (الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة:80) ،اور علامہ عجلونی ؒنے (كشف الخفاء:672) میں ،اور مرعی کرمی ؒ نے (الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة :171) میں ،اور محمد بن خلیل الحنفی ؒ نے(اللؤلؤ المرصوع:93) میں کیا ہے،کہ" اس روایت کا کوئی اصل نہیں"۔ اسی طرح اس روایت کے بارے میں امام ابن حجر مکی ہیتمیؒ سے الفتاوى الفقهية الكبرى میں (2/32) سوال کیا گیا: (وسئل) ذكر التفتازاني في شرح العقائد : عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله يدفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما» هل لهذا الحديث أصل وهل رواه أحد من أصحاب السنن أو لا؟ (فأجاب) بقوله لم أر لهذا الحديث وجودا في كتب الحديث الجامعة المبسوطة ولا في غيرها ثم رأيت الكمال بن أبي شريف صاحب الإسعاد قال إن الحديث لا أصل له وهو موافق لما ذكرته. ترجمہ: اور سوال پوچھا گیاکہ علامہ سعد الدین تفتازانی ؒ نےشرح العقائد میں ذکر کیا: کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"جب عالم یا طالب علم کسی بستی گزرتے ہیں ،تو اللہ تعالی اس بستی کے قبرستان پر چالیس 40دن تک کےلیے عذاب ٹال دیتا ہے" کیا اس حدیث کی کوئی اصل موجود ہے؟ اور کیا اصحاب کتب سنن میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے یا نہں؟ تو امام ابن حجر مکیؒ نے جواب دیا،کہ میں نے یہ حدیث کتب احادیث کی نہ بڑی کتابوں میں دیکھی،اور نہ ہی اس کے علاوہ میں ،پھر میں نے کمال الدین بن ابی شریف صاحب"الاسعاد بشرح الارشاد" کو دیکھا،تو انہوں نے فرمایا : اس روایت کا کوئی اصل نہیں،(ابن حجر مکیؒ فرماتےہیں) یہ اس بات کے موافق ہے،جو میں نے ذکر کی۔ یہ روایت پوری تحقیق کے بعد کتب احادیث میں کہی نہیں ملی، لہذا اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اشتیاق علی ذھبی دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی 16/جنوری /2023 الموافق 23/جمادی الثانی/ 1444ھ الجواب صحیح (حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم) رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی 16/جنوری /2023 الموافق 23/جمادی الثانی/ 1444ھ