ظہر کی سنتوں کا ثواب سحری کے وقت نماز کے برابر ہے اس حدیث کی اسنادی حیثیت
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس حدیث کے بارے میں کہ :
جواب :-
الجواب: حامدًا ومصلیًا مذکورہ حدیث امام بزار نے مسند بزار میں برقم (179) مرفوعا ذکرکیا ہے ، فرماتے ہیں "حدثنا علي بن شعيب قال: نا علي بن عاصم قال: نا يحيى البكاء قال: حدثني عبد الله بن عمر قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أربع ركعات قبل الظهر بعد الزوال تعدل بصلاة السحر» حدیث ذکر کرنے کے بعد امام بزار اس پر کلام کر کے فرماتے ہیں "وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن عمر إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد، ويحيى البكاء حدث عنه غير واحد وليس بالحافظ" اسی سند میں یحی البکاء راوی ہے جس کی علامہ ابن حجر ؒ نے تضعیف کی ہے ۔ نیز ابو شیخ الاصبہانیؒ نے العظمۃ (ج 5 ص 1741) اور امام البیہقی ؒنے شعب الایمان میں برقم (2808) يحيى البكاء سے بروایت عمر بن خطاب رضی للہ عنہ کے مع کچھ ذیادتی کے نقل کیا ہے لیکن اس میں بھی وہی "یحی البکاء " راوی ہے۔ البتہ ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ نے مصنف میں برقم (5940) اس حدیث کوذکوان ابو صالح السمان سےمرسلاً نقل کیا ہے جس کے رُواۃ ثقات ہیں پس مرسل روایت کے سبب مرفوع حدیث کی ضعف بھی دور ہوئی لہذا یہ حدیث مقبول ہے۔ واللہ اعلم بالصواب کتبہ : عرفان اللہ دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی 16/دسمبر/2022 الموافق 21/جمادی الاول/ 1444ھ الجواب صحیح نورالحق عفي عنه رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
جواب :-
الجواب: حامدًا ومصلیًا مذکورہ حدیث امام بزار نے مسند بزار میں برقم (179) مرفوعا ذکرکیا ہے ، فرماتے ہیں "حدثنا علي بن شعيب قال: نا علي بن عاصم قال: نا يحيى البكاء قال: حدثني عبد الله بن عمر قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أربع ركعات قبل الظهر بعد الزوال تعدل بصلاة السحر» حدیث ذکر کرنے کے بعد امام بزار اس پر کلام کر کے فرماتے ہیں "وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن عمر إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد، ويحيى البكاء حدث عنه غير واحد وليس بالحافظ" اسی سند میں یحی البکاء راوی ہے جس کی علامہ ابن حجر ؒ نے تضعیف کی ہے ۔ نیز ابو شیخ الاصبہانیؒ نے العظمۃ (ج 5 ص 1741) اور امام البیہقی ؒنے شعب الایمان میں برقم (2808) يحيى البكاء سے بروایت عمر بن خطاب رضی للہ عنہ کے مع کچھ ذیادتی کے نقل کیا ہے لیکن اس میں بھی وہی "یحی البکاء " راوی ہے۔ البتہ ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ نے مصنف میں برقم (5940) اس حدیث کوذکوان ابو صالح السمان سےمرسلاً نقل کیا ہے جس کے رُواۃ ثقات ہیں پس مرسل روایت کے سبب مرفوع حدیث کی ضعف بھی دور ہوئی لہذا یہ حدیث مقبول ہے۔ واللہ اعلم بالصواب کتبہ : عرفان اللہ دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی 16/دسمبر/2022 الموافق 21/جمادی الاول/ 1444ھ الجواب صحیح نورالحق عفي عنه رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی