طلاق مغلظہ کے بعد اولاد کے پرورش کی خاطرمیاں بیوی کاایک ساتھ رہنے کا حکم

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی محمد زاہد سکنہ گاؤں کنڈ علاقہ گدون کا آج سے تقریباً دس سال پہلے مسماۃ معراج بی بی کے ساتھ نکاح ہوا تھا۔شادی کے بعد دونوں تقریباً دس سال ایک ساتھ رہے۔اس عرصہ میں دونوں کے مابین کافی اختلافات رونما ہوتے رہے اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ مورخہ 16/06/2022 کو ایک مولوی صاحب اور برادری کے دیگر لوگوں کی موجودگی میں محمد زاہد نے بیوی کوتین طلاقیں دے دیں۔طلاق دیتے وقت بیوی حاملہ تھی اور بعد میں بچہ پیدا ہوا ہے۔اس وقت اُن کے تین بچے ہیں ۔محمد زوہیب آٹھ سال کا،محمد سدیس چھ سال کا،محمداویس چار سال کا اور شعیب تین مہینے کا ہے۔چونکہ بچے ابھی چھوٹے ہیں اوربالخصوص شعیب تو تین ماہ کا ہے،تواب میاں بیوی دونوں کو بچوں کی دیکھ بھال کی فکر ہے۔اس وجہ سے اگر معراج بی بی اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنا چاہے تو کیا وہ ایسا کر سکتی ہے یا نہیں؟اور اگر الگ مکان کی جگہ وہ محمد زاہد کے گھر میں رہے اور محمد زاہد اس کو خرچہ دیتا رہے تو شریعت کی رُو سے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔المستفتیمحمد زاہد ولدمحمدآمینگاؤں کنڈ،علاقہ گدون0343-8997296

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق سوال کاجواب دینے سے پہلے دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔پہلی بات یہ کہ جب مسمی محمد زاہد ولد محمد آمین نے اپنی بیوی مسماۃ معراج بی بی کوتین طلاقیں دی ہیں توتین طلاقیں دینے کے بعدحرمت مغلظہ کی وجہ سے اُن کا رشتہ زوجیت مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے،اورچونکہ طلاق دیتے وقت مسماۃ معراج بی بی حاملہ تھی اس وجہ سے وضع حمل کے ساتھ اُس کی عدت بھی ختم ہو چکی ہے۔اب محمد آمین اور معراج بی بی دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی کے حکم میں ہیں اور معراج بی بی پر لازم ہے کہ وہ محمد آمین سے مکمل پردہ کرے۔
دوسری بات یہ کہ جہاں تک بچوں کی دیکھ بھال کا سوال ہے تو اس کے بارے میں یہ واضح رہے کہ جب میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے توماں لڑکے کو سات سال اور لڑکی کو نو سال تک اپنے پاس پرورش کی خاطر رکھ سکتی ہے،لیکن یہ اُس کے ذمہ لازم نہیں ہے اس لیے جدائی ہوجانے کے بعد ماں کو اس ذمہ داری کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔البتہ اگر کوئی دودھ پیتا بچہ یا بچی ہو( جیسا کہ صورت مسئولہ میں مسمی شعیب تین ماہ کا شیرخوار بچہ ہے )اور ماں کے علاوہ کوئی اور دودھ پلانے والی موجود نہ ہو یا بچہ ماں کے علاوہ کسی اور کادودھ پیتا نہیں، تو پھر اس صورت میں ماں کو جدائی کے بعد بھی پرورش کی ذمہ داری لینے پر مجبور کیا جائے گا۔بہرصورت بچوں کے تمام تر اخراجات کی ذمہ داری والد پر ہی ہوگی۔
مذکورہ بالا دونوں باتوں کی وضاحت کے بعد بتقدیر صحت سوال حکم یہ ہے کہ اگرمعراج بی بی اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کرنا چاہتی ہے تویہ بالکل جائز ہے اور وہ بچوں کو پرورش کی خاطر اپنے پاس رکھ سکتی ہے۔البتہ چونکہ تین طلاقوں کی وجہ سے اُس کااور محمد زاہد کارشتہ مکمل طور پرختم ہوچکا ہے اس وجہ سے محمد زاہد کے ساتھ اُس کے گھر میں رہنا جائز نہیں ہے۔کسی الگ مکان میں وہ رہائش اختیار کرے یااپنے میکے چلی جائے یا اور کوئی جائزصورت اختیار کرے مگر سابقہ شوہرمحمد زاہد کے ساتھ اُس کے گھر میں رہنا جائز نہیں ہے۔جہاں تک نان نفقہ اور خرچہ کا تعلق ہے تو بچوں کے تمام اخراجات (بشمول اُجرت ارضاع واُجرت حضانت) کی ذمہ داری محمد زاہد پر ہے۔جہاں تک معراج بی بی کو خرچہ دینے کا معاملہ ہے تو چونکہ اُس کی عدت وضع حمل کے ساتھ ختم ہو چکی ہے اس وجہ سے معراج بی بی کواُس کا ذاتی خرچہ دینا محمد زاہد پرلازم نہیں ہے لیکن اگر وہ دیتا ہے تو یہ اُس کی طرف سے ایک احسان ہے اور ان شاء اللہ اس کااجر اُس کوملے گا۔
عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً، وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً، وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي، وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي۔
سنن ابی داؤد،المکتبۃ العصریۃ،بیروت،رقم الحدیث:2276۔
فصل (ونفقة الأولاد الصغار على الأب إذا كانوا فقراء) لقوله تعالى:وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف(وليس على الأم إرضاع الصبي) لأن أجرة الإرضاع من نفقته وهي على الأب.قال:(إلا إذا تعينت) بأن لم يجد غيرها أو لا يأخذ من لبن غيرها،(فيجب عليها) حينئذ صيانة للصغير عن الهلاك. قال:(ويستأجر الأب من ترضعه عندها) لأن الأجرة عليه والحضانة لها (فإن استأجر زوجته أو معتدته لترضع ولدها لم يجز) لأن الإرضاع مستحق عليها بالأصل، لقوله تعالى:والوالدات يرضعن أولادهن، فإذا امتنعت حملناه على العجز فجعلناه عذرا، فإذا أقدمت عليه بالأجر علمنا قدرتها فكان واجبا عليها فلا يحل لها أخذ الأجر على فعل وجب عليها، ولا خلاف في المعتدة الرجعية.
الاختیار لتعلیل المختار،مطبعۃ الحلبی،1356ھ،ج:4،ص:10۔
(ولا تجبر أمه) أي أم الطفل (على إرضاعه) قضاء؛ لأن ما عليها تسليم النفس للاستمتاع لا غير وتؤمر ديانة؛ لأنه من باب الاستخدام وهو واجب عليها ديانة (إلا إذا تعينت) الأم للإرضاع بأن لا يجد الأب من يرضعه أو كان الولد لا يأخذ ثدي غيرها أو لم يكن له مال والأب معسر فحينئذ تجبر على الإرضاع صيانة عن ضياعه وهذا مروي عن الشيخين وظاهر الرواية أنها لا تجبر؛ لأنه يتغذى بالدهن واللبن وغيرهما من المائعات فلا يؤدي إلى ضياعه وإلى الأول مال القدوري وشمس الأئمة وعليه الفتوى وكان هو المذهب كما في أكثر المعتبرات؛ لأن قصر الرضيع الذي لم يأنس الطعام على الدهن والشراب سبب تمريضه كما في الفتح (ويستأجر) الأب؛ لأن الأجرة عليه (من ترضعه عندها) أي عند الأم إذا أرادت ذلك؛ لأن الحضانة لها وفيه إشارة إلى أنه يجب الإرضاع عند الأم وذا غير واجب بل عليها إرضاعه أما في منزل أمه أو فنائه أو في منزل نفسها ثم تدفعه إلى أمه إلا إذا شرط ذلك عند العقد وكذا لا يجب على المرضعة المكث عندها إلا إذا شرط.
مجمع الانھر،داراحیاالتراث العربی،بیروت،ج:۱،ص:497۔
وإذا وقعت الفرقة ين الزوجين فالأم أحق بالولد " لما روى أن امرأة قالت يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء وزعم أبوه أنه ينزعه مني فقال عليه الصلاة والسلام: " أنت أحق به مالم تتزوجي " ولأن الأم أشفق وأقدر على الحضانة فكان الدفع إليها أنظر وإليه أشار الصديق رضي الله عنه بقوله ريقها خير له من شهد وعسل عندك يا عمر قاله حين وقعت الفرقة بينه وبين امرأته والصحابة حاضرون متوافرون.والنفقة على الأب " على ما نذكر " ولا تجبر الأم عليه " لأنها عست تعجز عن الحضانة.
الہدایۃ،داراحیاالتراث العربی،بیروت،ج:2،ص:283۔
(ومن لها) حق (الحضانة لا تجبر عليها) إن أبت لاحتمال أن تعجز عن الحضانة إلا إذا تعينت بأن لا يأخذ الولد ثدي غيرها أو لا يكون له ذو رحم محرم سواها فتجبر على الحضانة إذ الأجنبية لا شفقة لها عليه كما في الدرر.
مجمع الانھر،داراحیاالتراث العربی،بیروت،ج:1،ص:482۔
(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،1412ھ،ج:3،ص:566۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی
فتویٰ نمبر:44/1444
تاریخ اجراء:30/04/2023