روایت نهى عن صيام رجب کی اسنادی حیثیت

سوال :-
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس حدیث کے بارے میں : عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم، «نهى عن صيام رجب» کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟اور کیا واقعی نبیﷺ نے رجب کی روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ اگر نہیں بلکہ روزہ رکھنا ثابت ہو تو صحیح روایت سے رہنمایی عنایت فرمادیجئے اور نیز رجب کی روزہ رکھنے کے بارے میں اگر کوئی خاص فضیلت ثابت ہے تو اسکی بھی وضاحت کر کے مشکور فرمائیں۔

جواب :-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
مذکورہ سوال میں تین چیزیں مطلوب ہیں 1۔روایت بالا کی تحقیق 2۔رجب کی روزہ رکھنے کے بارے میں صحیح روایت 3۔ رجب کی روزہ رکھنے کے بارے میں کوئی خاص فضیلت ثابت کرکے وضاحت کرنا ۔
1۔ روایت بالا کی تحقیق:
مذکور بالا روایت کو امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (1743)نمبر پر اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں (10681) نمبر پر اور امام الشجري نے ترتيب الأمالي الخميسية میں(1556) نمبر پر ان سب نے داود بن عطاء، حدثني زيد بن عبد الحميد، عن سليمان بن علي بن عبد الله بن العباس، عن أبيه، عن ابن عباس ، أن النبي صلى الله عليه وسلم، «نهى عن صيام رجب» کے طریق سے ذکر کیا ہے۔
اور امام الحسین الھمذانی نے الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير میں (493)نمبر پر اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس روایت میں" داود "نقل کرنے میں زید بن عبدالحمید سے متفرد ہے اور داود کو مختلف ائمہ نے منکر قرار دیا ہے ۔
امام بخاری نے التاريخ الكبير میں (836) نمبر پر فرمایا کہ یہ منكر الحديث،ہے اور امام مسلم نے الکنی والاسماء میں (1382) نمبر پر فرمایا کہ یہ ذاهب الحديثہے اور امام ابو حاتم نے الجرح والتعدیل میں (1919) نمبر پر فرمایا کہ ليس بالقوي ضعيف الحديث، منكر الحديث.ہےاور اسی رقم پر ابو زرعہ نے اس کو منكر الحديثکہاہےاورامام ابن حبان نے المجروحین
میں (320) نمبر پر فرمایا کہ كثير الوهم في الأخبار لا يحتج به بحال لكثرة خطئه وغلبته على صوابه اور ابن شاہین نے تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين میں (184) نمبر پر فرمایا کہ" ليس حديثه بشيء" لہذا یہ سند صحیح نہیں ہے۔
امام الحسين بن إبراهيم الهمذاني نے اس روایت کے بارے میں فرمایا " هذا حديث باطل"، اور امام ابن الجوزی نے بھی العلل المتناھیہ میں (913) نمبر پر اس حدیث کے بارے میں فرمایا "هذا حديث لا يصح عن رسول اللهﷺ"اور ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے بھی اسکو الموضوعات الکبری (ج1 ص461) میں ذکر کیا ہے ۔
2۔روزہ رکھنے کے بارے میں صحیح روایت:
روزہ رکھنے کے بارے میں صحیح روایت کو امام مسلم نے صحیح مسلم (ج2ص811) میں ذکر کیا ہے قال حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عثمان بن حكيم الأنصاري، قال: سألت سعيد بن جبير، عن صوم رجب ونحن يومئذ في رجب فقال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول: لا يفطر، ويفطر حتى نقول: لا يصوم "
اور امام احمد نے مسند احمد میں(2046)نمبر پر اور امام ابو یعلی نے اپنے مسند میں (2602) نمبر پر اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں (3519) نمبر پر اور امام ابو عوانہ اپنے مستخرج میں (2933)نمبر پر ذکر کیا ہے۔
3۔رجب کی روزہ رکھنے کے بارے میں خاص فضیلت:
رجب کی روزہ رکھنے کے بارے میں اگر چہ کوئی خاص فضیلت صحیح اور صریح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہےجیسا کہ شعیب ارنؤوط نے بھی سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں (1743)نمبر حدیث کے تحت حافظ ابن رجب کے حوالے سےاس بات کی تصریح کی ہے قال الحافظ ابن رجب في "لطائف المعارف" ص 123: وأما الصيام فلم يصح في فضل صوم رجب بخصوصه شيء عن النبي - صلى الله عليه وسلم -، ولا عن أصحابه،تا ہم ابو قلابۃ کی ایک مقطوع روایت ہے کہ" في الجنة قصر لصوام رجب ". ۔
اس روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں (3521) نمبر پر اورامام اسماعیل بن محمد الملقب بقوام السنۃ نے الترغیب والترھیب میں (1848) نمبر پر اورامام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں (3046) نمبر پر ان سب نے إبراهيم بن سليمان البرلسي، حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا عامر بن شبل، قال: سمعت أبا قلابة يقول: " في الجنة قصر لصوام رجب ". کےلفظ سے ذکر کیا ہے ۔
اور امام بیہقی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ قال أحمد: " وإن كان موقوفا على أبي قلابة وهو من التابعين، فمثله لا يقول ذلك إلا عن بلاغ عمن فوقه ممن يأتيه الوحي، وبالله التوفيق "
اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں (3046) نمبر پر اسی طرح روایت حضرت انسؓ سےموقوفا نقل کیا ہے ۔عن الوليد بن مسلم نا عامر بن شبل الجرمي قال سمعت رجلا يحدث أنه سمع أنس بن مالك يقول في الجنة قصر لا يدخله إلا صوام رجب۔
ان دونوں روایتوں کا مدار عامر بن شبل پر ہے،اس کے دو شاگرد ہیں ایک عبداللہ بن یوسف اور دوسرا ولیدبن مسلم، عبداللہ بن یوسف اس میں عامر بن شبل کے استاذ ابو قلابہ سے اسی کا قول روایت کرتے ہیں اور ابو قلابہ تابعی ہے تو یہ مقطوع ہے، جبکہ ولید بن مسلم جب عامر بن شبل سے روایت کرتے ہیں تو کہتے ہیں "عن رجل عن انس" موقوفا ، تو شاید عامر بن شبل نے دونوں طرح روایت کیا ہو،اور جس سند میں عامر بن شبل نے سمعت رجلا کہا ہے اس سے مراد ابو قلابہ بھی ہوسکتا ہے اسلئے کہ عامر بن شبل کا استاذ ابو قلابہ ہے تو پھر یہ روایت انس ؓ تک متصل ہوا ،اور صحابی و تابعی کا قول اس جگہ میں جہاں اجتہاد کا امکان نہ ہو اس کو مرفوع حکما کہا جاتا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کے قول کا بھی یہی مطلب ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم وعلمہ اتم


نوراللہ برھانی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
1/فروری /2023 الموافق 9/ رجب/1444
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
1/فروری /2023 الموافق 9/ رجب/1444