رزق کی تنگی کی شکایت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک صحابی کو شادی کا حکم دینے کی تحقیق
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس حدیث کے بارے میں کہ:
جواب :-
الجواب حامداً ومصلیاً
تلاش بسیار کے باوجود یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ کہی نہ ملی،لہذا اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔
البتہ نکاح سے رزق کی کمی و تنگدستی ختم ہونے کے لیے علامہ خطیب بغدادی ؒ نے تاریخ بغداد میں(1/382) اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
"قال أخبرنا ابن الحسين القطان قال نبأنا عبد الباقي بن قانع قال نبأنا محمد بن أحمد ابن نصر الترمذي قال نبأنا إبراهيم بن المنذر قال نبأنا سعيد بن محمد مولى بني هاشم قال نبأنا محمد بن المنكدر عن جابر. قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة، فأمره أن يتزوج".
ترجمہ:"حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ"ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اوراپنی تنگدستی کی شکایت کی،تو آپ ﷺ نے اس کو شادی کرنے کا حکم دیا"۔
لیکن اس روایت میں ایک راوی سعید بن محمد المدنی انتہائی ضعیف ہے،جیسا کہ اس پرحافظ ذھبیؒ میزان الاعتدال میں (3262) اور امام ابن حجر عسقلانی ؒ لسان المیزان میں(159) نمبر پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔:
"قال أبو حاتم: ليس حديثه بشئ".امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ" اس کی حدیث کسی چیز کی قابل نہیں" ۔
"وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به". اورامام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ "اس کی حدیث سے حجت پکڑنا جائز نہیں"۔
اس کے بعد دونوں(حافظ ذھبیؒ اور ابن حجرؒ) نے مذکورہ بالا روایت کو ذکر کیا ہے۔
خلاصہ یہ ہےکہ چار شادیوں والی روایت ذخیرہ احادیث میں میں بالکل کہی نہیں ملی،اور مطلقا شادی سے تنگدستی دور کرنے والی روایت ملی،لیکن اس میں ضعف شدید ہے،لہذا دونوں روایتوں کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب.
اشتیاق علی ذھبی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
21/جنوری /2023 الموافق 28/جمادی الثانی/ 1444ھ
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
21/جنوری /2023 الموافق 28/جمادی الثانی/ 1444ھ
جواب :-
الجواب حامداً ومصلیاً
تلاش بسیار کے باوجود یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ کہی نہ ملی،لہذا اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔
البتہ نکاح سے رزق کی کمی و تنگدستی ختم ہونے کے لیے علامہ خطیب بغدادی ؒ نے تاریخ بغداد میں(1/382) اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
"قال أخبرنا ابن الحسين القطان قال نبأنا عبد الباقي بن قانع قال نبأنا محمد بن أحمد ابن نصر الترمذي قال نبأنا إبراهيم بن المنذر قال نبأنا سعيد بن محمد مولى بني هاشم قال نبأنا محمد بن المنكدر عن جابر. قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة، فأمره أن يتزوج".
ترجمہ:"حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ"ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اوراپنی تنگدستی کی شکایت کی،تو آپ ﷺ نے اس کو شادی کرنے کا حکم دیا"۔
لیکن اس روایت میں ایک راوی سعید بن محمد المدنی انتہائی ضعیف ہے،جیسا کہ اس پرحافظ ذھبیؒ میزان الاعتدال میں (3262) اور امام ابن حجر عسقلانی ؒ لسان المیزان میں(159) نمبر پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔:
"قال أبو حاتم: ليس حديثه بشئ".امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ" اس کی حدیث کسی چیز کی قابل نہیں" ۔
"وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به". اورامام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ "اس کی حدیث سے حجت پکڑنا جائز نہیں"۔
اس کے بعد دونوں(حافظ ذھبیؒ اور ابن حجرؒ) نے مذکورہ بالا روایت کو ذکر کیا ہے۔
خلاصہ یہ ہےکہ چار شادیوں والی روایت ذخیرہ احادیث میں میں بالکل کہی نہیں ملی،اور مطلقا شادی سے تنگدستی دور کرنے والی روایت ملی،لیکن اس میں ضعف شدید ہے،لہذا دونوں روایتوں کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب.
اشتیاق علی ذھبی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
21/جنوری /2023 الموافق 28/جمادی الثانی/ 1444ھ
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
21/جنوری /2023 الموافق 28/جمادی الثانی/ 1444ھ