ربیبہ کے نفقہ کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب میرا بھائی فوت ہواتومیں نے عدت گزرنے کے بعد اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ سے نکاح کیا۔میرے مرحوم بھائی کے تین بچے تھے ایک بیٹا اور دوبیٹیاں۔میرے مرحوم بھائی کا ایک پلاٹ تھا جو وفات سے پہلے انھوں نے اپنے نابالغ بیٹے کے نام کیا تھا۔میری مالی حالت زیادہ مستحکم نہیں تھی اس وجہ سے شادی کے بعد میرے لیے اپنے مرحوم بھائی کے اولاد(جوکہ ان کی ماں کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سےمیرے زیرکفالت تھی)کاخرچہ اٹھانا مشکل تھا اس وجہ سے میں نے اپنے طور پر مرحوم بھائی کے پلاٹ کی ایک قیمت مقرر کی اور یہ سوچا کہ اب میں بھائی کی اولاد پر بطور اُدھارخرچہ کرتا رہوں گا اور بعد میں جب یہ بڑے ہوجائیں گے تو اس خرچے کے رقم کی عوض میں مذکورہ پلاٹ میرے نام کر دیں گے۔بالغ ہونے بعد بھی ابھی تک میں ان کے تمام اخراجات برداشت کررہا ہوں۔اُس وقت پلاٹ کی جوقیمت میں نے مقرر کی تھی اس سے کئی گنا زیادہ رقم میں ان پرخرچ کرچکا ہوں لیکن اب میرے مرحوم بھائی کا بیٹا وہ پلاٹ مجھے دینے کو تیار نہیں۔اس پوری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ کیا میں اس مذکورہ پلاٹ کا مالک یاحصہ دار ہوں یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی بصیرمحمد ولدحکیم خان محلہ حاجی خیل،موضع مینئی 0313-1414475 نوٹ:تنقیح سے یہ معلوم ہوا کہ مرحوم کی وفات کے وقت مرحوم کے والدین میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا،نیز مرحوم کی وفات کے وقت اس کی بیوی،تین بھائی اور دوبہنیں بقیدحیات تھیں۔مرحوم کی بیوہ کی مالی حالت بھی کمزور تھی اور وہ اپنے بچوں کے نفقہ برداشت کرنے کی متحمل نہیں تھی۔
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق جب آپ کے بھائی کاانتقال ہوا توان کے تینوں اولاد (یعنی ایک بیٹا اور دو بیٹیاں )نابالغ تھیں۔والد کے انتقال کے بعد بچوں کی والدہ،تین چچااور دوپھوپھیاں زندہ تھیں۔ایسی صورت حال میں نفقات کے شرعی اصول کے مطابق تو بچوں کا نقفہ والدہ اور چچادونوں پرلازم ہوتا ہے لیکن بقول آپ کے بچوں کے پاس پلاٹ کی صورت میں اپنی جائیداد ہے اور آپ کی مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے آپ اپنے ذاتی مال سے بچوں کاخرچہ برداشت نہیں کرسکتے تھے،اور نہ ہی ان کی والدہ ان کا خرچہ برداشت کرسکتی تھی۔
جب نابالغ کے پاس ذاتی مال موجود ہواور اس کا ولی غریب ہونے کی وجہ سے اس کانفقہ برداشت نہیں کرسکتا تو اس صورت میں نابالغ کاخرچہ اس کے اپنے ذاتی مال سے ہی لیا جائے گا۔آپ کے بقول آپ نے ان پر جو خرچہ کیا ہے وہ آپ نےادھار کی نیت سے کیا تھااورآپ ان بچوں کے حقیقی چچا بھی ہو اور ان بچوں کی والدہ بھی آپ کے نکاح میں ہے تو اس صورت میں اگر واقعی آپ نے اپنی غربت کی وجہ سے ان پر ادھار کی نیت سے خرچہ کیا ہو اوربچوں کی والدہ کی رضامندی سے ایسا کیا ہواور اس پورے معاملہ میں آپ کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے ہوں تو آپ نے ان پر جتنا خرچہ کیا ہے وہ رقم آپ ان سے طلب کر سکتے ہیں ،پھر ان کی مرضی ہے کہ وہ آپ کووہ رقم نقد دیتے ہیں یا اس رقم کے بقدر آپ کواپنے ساتھ پلاٹ میں شریک کرتے ہیں۔
إنما تجب النفقة على الأب إذا لم يكن للصغير مال أما إذا كان فالأصل أن نفقة الإنسان في مال نفسه صغيرا كان أو كبيرا.
الہدایہ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:02،ص:292۔
(والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412،ج:03،ص:594۔
فأما نفقة الولد لا تجب إذا تمكن من الانتفاع، وإنما تجب لأجل الحاجة فلا تجب بدون الحاجة، كنفقة المحارم.فإن كان للصغير عقاراً....... ذلك للنفقة كان للأب أن يبيع ذلك كله وينفق عليه؛ لأنه غني بهذه الأشياء، ونفقة الصبي تكون في ماله إذا كان غنياً.وإن كان مال الصغير غائباً توجب على الأم أن تنفق من مال الولد إذا حضر ماله، ولكن إن أشهد على ذلك فله أن يرجع في الحكم، وإن أنفق بغير إشهاد على نية الرجوع ليس له أن يرجع في الحكم؛ لأن الظاهر أن الأب قصد فيما ينفق على ولده التبرع والقاضي لا يطلع إلا على الظاهر، أما الله تعالى فمطلع على الضمائروالظواهر، فكان له أن يرجع إذا كان قصده عند الإنفاق الرجوع۔
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:03،ص:566۔
نابالغ اولاد کا کھانا،کپڑا،رہن سہن والد کے ذمے ہوتا ہے جبکہ خود اس نابالغ کے پاس مال نہ ہوجیسا کہ کتب فقہ میں مذکور ہے۔
فتاویٰ محمودیہ،جامعہ فاروقیہ کراچی،ج:13،ص:467۔
اگر بچے خود صاحب استطاعت ہو ں اور مال ان کے پاس موجود ہوتو باپ ان ہی کا مال ان پرخرچ کرسکتا ہے۔اوراگرمال اس کی دسترس میں نہ ہو اور قاضی کی اجازت سے باپ خرچ کرے یابچوں کی جائیداد سے وصول کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو بعد میں بچے کے مال پردسترس حاصل ہونے کے بعد اپنا پیسہ وصول کرسکتا ہے،تاہم قضاء اپنے پیسے واپس لینے کے لیے اپنی نیت پر گواہ بنانا ضروری ہے۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،اشاعت ششم،2020،ج:06،ص:398۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی،صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق جب آپ کے بھائی کاانتقال ہوا توان کے تینوں اولاد (یعنی ایک بیٹا اور دو بیٹیاں )نابالغ تھیں۔والد کے انتقال کے بعد بچوں کی والدہ،تین چچااور دوپھوپھیاں زندہ تھیں۔ایسی صورت حال میں نفقات کے شرعی اصول کے مطابق تو بچوں کا نقفہ والدہ اور چچادونوں پرلازم ہوتا ہے لیکن بقول آپ کے بچوں کے پاس پلاٹ کی صورت میں اپنی جائیداد ہے اور آپ کی مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے آپ اپنے ذاتی مال سے بچوں کاخرچہ برداشت نہیں کرسکتے تھے،اور نہ ہی ان کی والدہ ان کا خرچہ برداشت کرسکتی تھی۔
جب نابالغ کے پاس ذاتی مال موجود ہواور اس کا ولی غریب ہونے کی وجہ سے اس کانفقہ برداشت نہیں کرسکتا تو اس صورت میں نابالغ کاخرچہ اس کے اپنے ذاتی مال سے ہی لیا جائے گا۔آپ کے بقول آپ نے ان پر جو خرچہ کیا ہے وہ آپ نےادھار کی نیت سے کیا تھااورآپ ان بچوں کے حقیقی چچا بھی ہو اور ان بچوں کی والدہ بھی آپ کے نکاح میں ہے تو اس صورت میں اگر واقعی آپ نے اپنی غربت کی وجہ سے ان پر ادھار کی نیت سے خرچہ کیا ہو اوربچوں کی والدہ کی رضامندی سے ایسا کیا ہواور اس پورے معاملہ میں آپ کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے ہوں تو آپ نے ان پر جتنا خرچہ کیا ہے وہ رقم آپ ان سے طلب کر سکتے ہیں ،پھر ان کی مرضی ہے کہ وہ آپ کووہ رقم نقد دیتے ہیں یا اس رقم کے بقدر آپ کواپنے ساتھ پلاٹ میں شریک کرتے ہیں۔
إنما تجب النفقة على الأب إذا لم يكن للصغير مال أما إذا كان فالأصل أن نفقة الإنسان في مال نفسه صغيرا كان أو كبيرا.
الہدایہ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:02،ص:292۔
(والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412،ج:03،ص:594۔
فأما نفقة الولد لا تجب إذا تمكن من الانتفاع، وإنما تجب لأجل الحاجة فلا تجب بدون الحاجة، كنفقة المحارم.فإن كان للصغير عقاراً....... ذلك للنفقة كان للأب أن يبيع ذلك كله وينفق عليه؛ لأنه غني بهذه الأشياء، ونفقة الصبي تكون في ماله إذا كان غنياً.وإن كان مال الصغير غائباً توجب على الأم أن تنفق من مال الولد إذا حضر ماله، ولكن إن أشهد على ذلك فله أن يرجع في الحكم، وإن أنفق بغير إشهاد على نية الرجوع ليس له أن يرجع في الحكم؛ لأن الظاهر أن الأب قصد فيما ينفق على ولده التبرع والقاضي لا يطلع إلا على الظاهر، أما الله تعالى فمطلع على الضمائروالظواهر، فكان له أن يرجع إذا كان قصده عند الإنفاق الرجوع۔
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:03،ص:566۔
نابالغ اولاد کا کھانا،کپڑا،رہن سہن والد کے ذمے ہوتا ہے جبکہ خود اس نابالغ کے پاس مال نہ ہوجیسا کہ کتب فقہ میں مذکور ہے۔
فتاویٰ محمودیہ،جامعہ فاروقیہ کراچی،ج:13،ص:467۔
اگر بچے خود صاحب استطاعت ہو ں اور مال ان کے پاس موجود ہوتو باپ ان ہی کا مال ان پرخرچ کرسکتا ہے۔اوراگرمال اس کی دسترس میں نہ ہو اور قاضی کی اجازت سے باپ خرچ کرے یابچوں کی جائیداد سے وصول کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو بعد میں بچے کے مال پردسترس حاصل ہونے کے بعد اپنا پیسہ وصول کرسکتا ہے،تاہم قضاء اپنے پیسے واپس لینے کے لیے اپنی نیت پر گواہ بنانا ضروری ہے۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،اشاعت ششم،2020،ج:06،ص:398۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی،صوابی