دو بیویوں کی اولاد میں تقسیم میراث
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی دو بیویاں ہیں۔ایک بیوی سے ایک بیٹا ہے اور دوسری بیوی سے چار بیٹے ہیں۔جس بیوی سے ایک بیٹا ہے وہ بیوی اس زید نامی شخص کی زندگی ہی میں فوت ہوئی ہے،جبکہ دوسری بیوی اس زید نامی شخص کے مرنے کے بعد فوت ہوئی ہے۔اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:1:جس بیوی سے ایک بیٹا ہے اس کااپنے باقی چار بھائیوں سے مطالبہ یہ ہے کہ چونکہ میری والدہ الگ ہے اس وجہ سے مجھے والد کے کل میراث کا آدھا ملے گا اور تم چاروں کی والدہ چونکہ الگ ہے جس وجہ سے باقی آدھا تم چاروں کا ہوگا۔آیا اس کا یہ مطالبہ شریعت مطہرہ کی رُو سے درست ہے یا نہیں؟2:اسی طرح اس کایہ بھی مطالبہ ہے کہ مجھے والد کی میراث میں سے میری والدہ کاحصہ بھی ملے گا ،حالانکہ وہ والد کی زندگی میں ہی فوت ہوئی ہے۔اس کایہ والا مطالبہ بھی کیاشریعت کی روشنی میں درست ہے یا نہیں؟3:شریعت کی روشنی میں مذکورہ بالاصورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے شرعی تقسیم میراث کی صورت کیا ہوگی؟بینوافتوجرواالمستفتیمولاناضیاء الرحمٰن حقانی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے تینوں سوالوں کے جواب مندرجہ ذیل ہیں: جواب نمبر1: جس بیوی سے ایک بیٹا ہے اس کا یہ مطالبہ کرنا کہ مجھے میراث میں سے آدھاحصہ ملنا چاہیئے ، درست نہیں ہے ۔والد کی میراث میں پانچوں بھائی برابر کے حق دار ہیں۔ ایک بھائی ایک ماں سے ہے اور چار بھائی دوسری ماں سے ،تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔والد کی میراث پانچوں میں برابرکے حساب سے ہی تقسیم ہوگی۔ جواب نمبر2:وارث بننے کے لیے مورث(انتقال کرنے والے) کی موت کے وقت زندہ ہونا شرط ہے ۔اس وجہ سے میراث میں صرف ان ورثاء کو حصہ ملتا ہے جومیت کے انتقال کے وقت زندہ ہوں۔لہٰذا صورت مسئولہ میں چونکہ ایک بیٹے کی ماں شوہر کے زندگی ہی میں فوت ہوئی ہے اس وجہ سے اب شوہر( زید) کی میراث میں سے اس کا کوئی حصہ نہیں بنتا۔اس وجہ سے بیٹے کا یہ مطالبہ کرنا کہ مجھے میری والدہ کا حصہ بھی چاہیئے،درست نہیں ہے۔ جواب نمبر3:صورت مسئولہ کے مطابق اس وقت مرحوم زید کے ورثاء پانچ بیٹے اور ایک بیوی ہیں جواس کے بعد فوت ہوئی ہے ۔ (چار بھائیوں کی والدہ)بتقدیرصحت سوال اگراورکوئی وارث شرعی موجود نہ ہو تو زید کی میراث کو 40حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ 05حصے بیوی کو ملیں گے اور بقیہ35 حصے 05بیٹوں میں اس حساب سے تقسیم ہوں گے کہ ہرایک بیٹے کو 07 حصے ملیں گے۔یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ چار بھائیوں کی ماں کو بیوی ہونے کی وجہ سے زید کی میراث میں جو 05حصے ملے ہیں ،اس میں دوسری بیوی کا بیٹا حصہ دار نہیں ہے۔ حدثنا سويد بن سعيد قال: حدثنا عبد الرحيم بن زيد العمي، عن أبيه، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة۔ سنن ابن ماجہ،داراحیاء الکتب العربیۃ،رقم الحدیث:2703 ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر۔۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:774۔ وللارث شروط ثلاثۃ۔۔۔۔ثانیھا:تحقق حیاۃ الوارث بعد موت المورث۔۔۔۔الخ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،دارالسلاسل،الکویت،الطبعۃ الثانیۃ،1404ھ،ج:3،ص:22۔ والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح.، وموضوعه: التركات، وغايته: إيصال الحقوق لأربابها، وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:758۔ بڑے بھائی کا یہ دعویٰ کرنا کہ آدھا میراحصہ ہے،غلط ہے۔پانچوں بھائی برابر کے حق دار ہیں۔اگرایک بھائی ایک ماں سے ہے اور چار بھائی دوسری ماں سے ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔مگروالد کے ترکہ میں سب ہی برابر کے حصہ دار ہیں۔ فتاویٰ محمودیۃ،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ،کراچی،ج:24،ص:539۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے تینوں سوالوں کے جواب مندرجہ ذیل ہیں: جواب نمبر1: جس بیوی سے ایک بیٹا ہے اس کا یہ مطالبہ کرنا کہ مجھے میراث میں سے آدھاحصہ ملنا چاہیئے ، درست نہیں ہے ۔والد کی میراث میں پانچوں بھائی برابر کے حق دار ہیں۔ ایک بھائی ایک ماں سے ہے اور چار بھائی دوسری ماں سے ،تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔والد کی میراث پانچوں میں برابرکے حساب سے ہی تقسیم ہوگی۔ جواب نمبر2:وارث بننے کے لیے مورث(انتقال کرنے والے) کی موت کے وقت زندہ ہونا شرط ہے ۔اس وجہ سے میراث میں صرف ان ورثاء کو حصہ ملتا ہے جومیت کے انتقال کے وقت زندہ ہوں۔لہٰذا صورت مسئولہ میں چونکہ ایک بیٹے کی ماں شوہر کے زندگی ہی میں فوت ہوئی ہے اس وجہ سے اب شوہر( زید) کی میراث میں سے اس کا کوئی حصہ نہیں بنتا۔اس وجہ سے بیٹے کا یہ مطالبہ کرنا کہ مجھے میری والدہ کا حصہ بھی چاہیئے،درست نہیں ہے۔ جواب نمبر3:صورت مسئولہ کے مطابق اس وقت مرحوم زید کے ورثاء پانچ بیٹے اور ایک بیوی ہیں جواس کے بعد فوت ہوئی ہے ۔ (چار بھائیوں کی والدہ)بتقدیرصحت سوال اگراورکوئی وارث شرعی موجود نہ ہو تو زید کی میراث کو 40حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ 05حصے بیوی کو ملیں گے اور بقیہ35 حصے 05بیٹوں میں اس حساب سے تقسیم ہوں گے کہ ہرایک بیٹے کو 07 حصے ملیں گے۔یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ چار بھائیوں کی ماں کو بیوی ہونے کی وجہ سے زید کی میراث میں جو 05حصے ملے ہیں ،اس میں دوسری بیوی کا بیٹا حصہ دار نہیں ہے۔ حدثنا سويد بن سعيد قال: حدثنا عبد الرحيم بن زيد العمي، عن أبيه، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة۔ سنن ابن ماجہ،داراحیاء الکتب العربیۃ،رقم الحدیث:2703 ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر۔۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:774۔ وللارث شروط ثلاثۃ۔۔۔۔ثانیھا:تحقق حیاۃ الوارث بعد موت المورث۔۔۔۔الخ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،دارالسلاسل،الکویت،الطبعۃ الثانیۃ،1404ھ،ج:3،ص:22۔ والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح.، وموضوعه: التركات، وغايته: إيصال الحقوق لأربابها، وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:758۔ بڑے بھائی کا یہ دعویٰ کرنا کہ آدھا میراحصہ ہے،غلط ہے۔پانچوں بھائی برابر کے حق دار ہیں۔اگرایک بھائی ایک ماں سے ہے اور چار بھائی دوسری ماں سے ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔مگروالد کے ترکہ میں سب ہی برابر کے حصہ دار ہیں۔ فتاویٰ محمودیۃ،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ،کراچی،ج:24،ص:539۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی