دوران نماز موبائل فون کو بند کرنے کا شرعی حکم

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل عموماًہر کسی کے پاس موبائل فون ہوتا ہے اور بسا اوقات دوران نماز موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگتی ہےجس کی وجہ سے نماز کے خشوع میں خلل واقع ہوتا ہے ۔اگر کسی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے کہ دوران نماز اس کے موبائل پر گھنٹی بجنے لگے تو اس صورت میں وہ کیا کرےگا؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں تفصیلی جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً

جواب :-

حامداً ومصلیاً!

سوال کاجواب دینے سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہےکہ فقہائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ دوران نماز عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی اور عمل کثیر سے فاسد ہو جاتی ہے۔عمل قلیل اور عمل کثیر کی تعریف میں فقہائے کرام کے مختلف اقوال کتب فقہ میں منقول ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:

1۔دوران نماز کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ شاید یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا،ایسے عمل کو عمل کثیر کہا جاتا ہے اور جو عمل اس طرح کا نہ ہو وہ عمل قلیل ہے۔اس قول کو زیادہ تر فقہائے کرام نے ترجیح دی ہے۔

2۔جوکام عام طور پر دونوں ہاتھوں سے کیا جاتا ہے وہ عمل کثیر ہے اور جو کام ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عمل قلیل ہے۔مثلاً عمامہ باندھنا ایسا کام ہے جو دونوں ہاتھوں سے کرنے کا ہے تو یہ عمل کثیرکہلائے گا،اب اگرکوئی آدمی ایک ہاتھ سے بھی عمامہ باندھے گا تب بھی نماز فاسد ہوجائے گی۔

3۔نماز کے کسی ایک رکن میں تین بار "سبحان ربی الاعلیٰ"کہنے کے مقدار یااس سے بھی کم وقت میں تین بارپے درپے عمل قلیل کرنا بھی کثیر بن جاتا ہے،اور نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

عمل قلیل اور کثیر کی وضاحت کے بعدصورت مسئولہ کے مطابق سب سے پہلے تونمازی کو چاہیئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے موبائل فون کو مکمل طورپربند کرنے کااہتمام کرےتاکہ پوری یکسوئی اور توجہ سے نماز ادا کرسکےاوراگرمکمل بند نہیں کرتا توپھر کم از کم موبائل فون کی گھنٹی ہی بند کردے اور موبائل کو سائلنٹ موڈ پر لگادے۔اسی طرح ہر مسلمان کو چاہیئے کہ موبائل فون کی رنگ ٹون میں گانے وغیرہ لگانے سے احتراز کرے اور عام سادہ ساکوئی رنگ ٹون لگایا کرے۔اگرکوئی نمازی موبائل کی گھنٹی بند کرنا بھول گیااور دوران نماز فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی تواس دوران نمازی کیا کرے گا؟اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1۔ایک ہاتھ جیب میں ڈال کرگھنٹی کواگربند کرسکتا ہے توجیب میں ہاتھ ڈالے اور ایک ہاتھ سے گھنٹی بند کرے۔موبائل کوجیب سے نکالنااوراسے دیکھنا درست نہیں ہے،البتہ اگرجیب میں ہاتھ ڈال کرموبائل کی گھنٹی بند کرناممکن نہ ہواور ایک ہاتھ سے نکال کراسے بندکرسکتا ہوتو پھراس صورت میں وہ مختصروقت میں موبائل جیب سے نکالے اور اسے بند کرے۔ایسا کرنے سے نماز فاسد تونہیں ہو گی لیکن نماز میں کراہت ضرور آئے گی،البتہ تمام نمازیوں کی نمازوں میں خلل ڈالنے اور ساری مسجد کوپریشان کرنے سے یہ بہتر ہے کہ اپنی خود کی نماز کو مکروہ کرے اور موبائل کی گھنٹی کوبند کرے۔اس صورت میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ دوران نماز مختصر وقت میں ایک ہاتھ جیب میں ڈال کرموبائل نکالنااور اسے دیکھ کربند کرنے کی رخصت کاتعلق صرف موبائل بند کرنے کی وجہ سے ہے ،اس کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ موبائل کودیکھنا شروع کرے کہ کس کی کال آئی ہے؟ یاکس نے میسج کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔وہ صرف موبائل کوجلدی سے نکال کر بند ہی کر سکتا ہے اس کے علاوہ موبائل دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

2۔اگرموبائل کوجیب سے نکالنے کے بعددونوں ہاتھوں سے پکڑا تونماز فاسد ہوجائے گی۔ماقبل میں گزر چکا ہے کہ جو کام ایک ہاتھ سے کرنے کا ہو تو اگر اس کام کو دونوں ہاتھوں سے کیا جائے تو وہ عمل کثیر بن جاتا ہے جو کہ مفسد صلوٰۃ ہوتا ہے۔

3۔جیب سے موبائل ایک ہاتھ سے ہی نکالا ہے اور نکالنے کے بعد ایک ہاتھ سے ہی پکڑا ہے مگر اس انداز اورہیئت سے پکڑا ہے کہ اگرکوئی شخص دور سے اسے دیکھے اور وہ یہ سمجھے کہ گویا یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہاتواس صورت میں بھی نماز فاسد ہوجائے گی،کیونکہ سابقہ ذکرشدہ اقوال میں سے پہلے قول کے مطابق دوران نماز کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ شاید یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا،ایسے عمل کو عمل کثیر کہا جاتا ہے۔

4۔ایک بار گھنٹی آنے کی وجہ سے نمازی نے موبائل جیب سے نکالا اور گھنٹی بند کردی، دوبارہ گھنٹی آگئی اوراس نے دوبارہ جیب سے نکال کرخاموش کردیا ،پھرسہ بارہ گھنٹی آگئی اور اس نے پھرجیب سے موبائل نکالااور بند کردیا تواگرایک ہی رکن میں تین بار یہ عمل پے درپےکیایعنی تین بار "سبحان ربی الاعلیٰ"کہنے کے برابریااس سے کم وقت میں تین بار یہ عمل کیا، تواس صورت میں بھی یہ عمل کثیر بن جائے گااورنماز فاسد ہو جائے گی۔

5۔اگرایک ہاتھ سے موبائل بند کرناممکن نہ ہو اوردوران نماز موبائل کی گھنٹی بجنے لگےتوپھردیکھاجائے گاکہ اگررنگ ٹون سادہ سی ہواور آواز زیادہ تیز نہ ہو کہ جس سے نمازیوں کوناقابل برداشت حد تک تکلیف ہو رہی ہوتواس صورت میں گھنٹی بجتی چھوڑ کرنماز پوری کرلینے کی گنجائش ہےکیونکہ صرف خشوع میں خلل کاواقع ہونا ایسا عذرنہیں ہے کہ جس کی وجہ سے نماز کو توڑ دیا جائے،اور اگر خدانخواستہ رنگ ٹون پر کوئی گانا وغیرہ لگایا ہو یا آواز زیادہ تیز ہو یا باربار گھنٹی بجتی جارہی ہو جس سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہو اور نماز کی ادائیگی مشکل ہو رہی ہوتوپھر ایسی صورت میں نماز توڑ کرموبائل کو بندکرناچاہیئے۔

قال في الفيض: الحك بيد واحدة في ركن ثلاث مرات يفسد الصلاة إن رفع يده في كل مرة.

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:640۔

يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لا يشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها)۔۔۔۔۔۔۔ (قوله ليس من أعمالها) احتراز عما لو زاد ركوعا أو سجودا مثلا فإنه عمل كثير غير مفسد لكونه منها غير أنه يرفض لأن هذا سبيل ما دون الركعة قلت: والظاهر الاستغناء عن هذا القيد على تعريف العمل الكثير بما ذكره المصنف تأمل (قوله ولا لإصلاحها) خرج به الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنهما لا يفسدانها. قلت: وينبغي أن يزاد ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحية أو العقرب بعمل كثير على أحد القولين كما يأتي، إلا أن يقال إنه لإصلاحها لأن تركه قد يؤدى إلى إفسادها تأمل (قوله وفيه أقوال خمسة أصحها ما لا يشك إلخ) صححه في البدائع، وتابعه الزيلعي والولوالجي. وفي المحيط أنه الأحسن. وقال الصدر الشهيد: إنه الصواب. وفي الخانية والخلاصة: إنه اختيار العامة. وقال في المحيط وغيره: رواه الثلجي عن أصحابنا حلية.القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل.الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل.الرابع ما يكون مقصودا للفاعل بأن يفرد له مجلسا على حدة. قال في التتارخانية: وهذا القائل: يستدل بامرأة صلت فلمسها زوجها أو قبلها بشهوة أو مص صبي ثديها وخرج اللبن: تفسد صلاتها.الخامس التفويض إلى رأي المصلي، فإن استكثره فكثير وإلا فقليل قال القهستاني: وهو شامل للكل وأقرب إلى قول أبي حنيفة، فإنه لم يقدر في مثله بل يفوض إلى رأي المبتلى.قال في شرح المنية: ولكنه غير مضبوط، وتفويض مثله إلى رأي العوام مما لا ينبغي، وأكثر الفروع أو جميعها مفرع على الأولين. والظاهر أن ثانيهما ليس خارجا عن الأول، لأن ما يقام باليدين عادة يغلب ظن الناظر أنه ليس في الصلاة، وكذا قول من اعتبر التكرار ثلاثا متوالية فإنه يغلب الظن بذلك، فلذا اختاره جمهور المشايخ.

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:624۔

واختلفوا في القلة والكثرة قال بعضهم كل ما يقام باليدين فهو كثير وما يقام بيد واحدة فهو يسير ما لم يتكرر فعلى هذا القول المصلي إذا ضرب دابته مرة أو مرتين لا تفسد صلاته لأن الضرب يتم بيد واحدة وإن ضربها ثلاث مرات في ركعة واحدة تفسد صلاته ولو كان في صلاة الظهر أو النفل أربع ركعات فضربها في كل ركعة مرة أو مرتين لا تفسد صلاته وإن ضربها ثلاث مرات في ركعة واحدة تفسد صلاته۔۔۔۔الخ

فتاویٰ قاضی خان،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،ج:1،ص:128۔

ومنها العمل الكثير الذي ليس من أعمال الصلاة في الصلاة من غير ضرورة فأما القليل فغير مفسد، واختلف في الحد الفاصل بين القليل والكثير قال بعضهم: الكثير ما يحتاج فيه إلى استعمال اليدين والقليل ما لا يحتاج فيه إلى ذلك حتى قالوا: إذا زر قميصه في الصلاة فسدت صلاته، وإذا حل إزاره لا تفسد، وقال بعضهم: كل عمل لو نظر الناظر إليه من بعيد لا يشك أنه في غير الصلاة فهو كثير، وكل عمل لو نظر إليه ناظر ربما يشبه عليه أنه في الصلاة فهو قليل وهو الأصح۔۔۔۔الخ

بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406،ج:1،ص:242۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحرار اُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی

فتویٰ نمبر:46/1444

تاریخ اجراء:19/05/2023

الجواب باسم ملھم الصواب