دادا کے ذمے یتیم پوتے کی ذمہ داریوں کی تفصیل
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے، اب اس کی اولاد یعنی میرےیتیم پوتے پوتیوں کی شریعت کی رُو سے مجھ پرکیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟تفصیلی جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی محسن شاہ محلہ سلیمان خیل (جبر) ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق دادایعنی آپ پر یتیم پوتے پوتیوں کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:
1۔سب سے پہلے مرحوم کی میراث میں سے شریعت مطہرہ کی مقرر کردہ اصول وراثت کے مطابق مرحوم کی بیوہ اور مرحوم کی اولاد کا جتنا حصہ بنتا ہے ،وہ بطیب خاطرالگ کرکےان کے حوالے کیا جائے۔
2۔مرحوم کی اولاد کے بالغ ہونے تک ان کے مال کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
3۔بالغ ہوجانے کے بعد روبروگواہان اُن کا مال اُن کے حوالے کرنا آپ پرلازم ہوگا۔
4۔اگر آپ خود یا دیگر عزیز واقارب اور رشتہ داروں میں سے کوئی اپنی مرضی سے تبرعاً اُن کا خرچہ برداشت کرنا چاہتا ہو تو ٹھیک، ورنہ بصورت دیگر اُن کے مال میں سے اعتدال کے ساتھ اُن پر خرچ کیا جائے گا۔
5۔اگر بالغ ہونے سے پہلے اُن کا مال ختم ہوجائے تو پھر اُن یتیموں کا خرچہ اُن کی والدہ اور اُن کے دادا یعنی آپ پر اثلاثاً واجب ہوگا ۔ اثلاثاً کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے نان نفقہ اور خرچے کا ایک حصہ اُن کی والدہ کے ذمہ اور دو حصے اُن کے دادایعنی آپ کے ذمہ لازم ہوں گے۔
6۔اگر اُن کی والدہ کے پاس اُن پر خرچ کرنے کے لیے کوئی مال نہ ہو تو پھر سارا کا سارا خرچہ دادا کے ذمہ لازم ہوگا۔
7۔اگر دادا کے پاس مال نہ ہو یا دادا کمائی کے قابل نہ ہو تو پھر دادا کی نگرانی میں یتیم بچوں کا خرچہ اُن کے چچا برداشت کریں گے۔
8۔جب یہ بچے بالغ ہو جائیں تو پھر اپنا خرچہ خود برداشت کریں گےجس کے لیے وہ کوئی بھی جائز ممکنہ صورت اختیار کرسکتے ہیں۔البتہ اگر ان بچوں میں کوئی لڑکی ہو جو بالغ ہونے کے بعد اپناخرچہ خود برداشت نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی حلال طریقے سے اپنے لیے خود روزی کما سکتی ہو تو ایسی صورت میں اس بالغ لڑکی کا خرچہ بھی حسب تفصیل سابق اس کی والدہ اور دادا یعنی آپ پر لازم ہوگا۔
9۔یتیم پوتے کو اپنے دادا کی میراث میں سے چونکہ کوئی حصہ نہیں ملتا اس وجہ سے آپ اگر چاہیں تو اپنی زندگی میں اپنے ان پوتے پوتیوں کے حق میں وصیت کرسکتے ہیں۔البتہ اگر بعد میں آپ کی رحلت کے بعد ان کے علاوہ کوئی اور وارث موجود نہ ہوں اور یہ آپ کے وارث بن جائیں تو یہ وصیت خود بخود باطل ہو جائے گی۔
10۔اگر خدانخواستہ ان بچوں میں سےکوئی معذور ہو تو اس کا نفقہ بالغ ہونے کے بعد بھی حسب تفصیل سابق آپ پر لازم ہوگا۔
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا۔(سورۃ النساء،آیت:10۔)
وعلى الوارث مثل ذلك۔(سورۃ البقرۃ،آیت:233۔)
وفي الخانية صغير مات أبوه وله أم وجد أب الأب كانت النفقة عليهما أثلاثا الثلث على الأم والثلثان على جد الأب۔(وفی المنحۃ)قوله: على جد الأب صوابه على الجد أبي الأب؛ لأن الضمير في له للصغير.
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:4،ص:231۔
ثم الشرط أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي لا وقت الوصية حتى لو أوصى لأخيه وله ابن وقت الوصية، ثم مات قبل موت الموصي، ثم مات الموصي لم تصح الوصية؛ لأن الموصى له، وهو الأخ صار وارث الموصي عند موته ولو أوصى لأخيه ولا ابن له وقت الوصية، ثم ولد له ابن، ثم مات الموصي صحت الوصية؛ لأن الأخ ليس بوارثه عند الموت لصيرورته محجوبا بالابن.وإنما اعتبرت الوراثة وقت موت الموصي لا وقت وصيته؛ لأن الوصية ليست بتمليك للحال ليعتبر كونه وارثا وقت وجودها، بل هي تمليك عند الموت، فيعتبر ذلك عند الموت۔
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:7،ص:337۔
لا تجب النفقة لمعتدة الموت ولا لمعتدة وقعت الفرقة بينها وبين زوجها بمعصية من جهتها كالردة وتقبيل ابن الزوج أما المتوفى عنها زوجها فلأن احتباسها ليس لحق الزوج، بل لحق الشرع فإن التربص عبادة منها ألا ترى أن معنى التعريف عن براءة الرحم ليس بمراعى فيه حتى لا يشترط فيه الحيض فلا تجب نفقتها عليه؛ ولأن النفقة تجب شيئا فشيئا ولا ملك له بعد الموت فلا يمكن إيجابها في ملك الورثة۔۔۔۔۔۔۔تجب النفقة والسكنى والكسوة لولده الصغير الفقير۔۔۔۔۔۔۔۔قيد بالطفل وهو الصبي حين يسقط من البطن إلى أن يحتلم، ويقال جارية طفل وطفلة، كذا في المغرب وبه علم أن الطفل يقع على الذكر والأنثى؛ ولذا عبر به؛ لأن البالغ لا تجب نفقته على أبيه إلا بشروط نذكرها وقيد بالفقير؛ لأن الصغير إذا كان له مال فنفقته في ماله۔۔۔۔۔۔۔(قوله ولقريب محرم فقير عاجز عن الكسب بقدر الإرث لو موسرا) وقيد بالفقر؛ لأن الغني نفقته على نفسه وقيدنا بالعجز عن الكسب وهو بالأنوثة مطلقا وبالزمانة والعمى ونحوها في الذكر فنفقة المرأة الصحيحة الفقيرة على محرمها فلا يعتبر في الأنثى إلا الفقر، وأما البالغ الفقير فلا بد من عجزه بزمانة أو عمى أو فقء العينين۔۔۔۔۔۔الخ
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:4،ص:228۔
والنفقة لكل ذي رحم محرم إذا كان صغيرا فقيرا أو كانت امرأة بالغة فقيرة أو كان ذكرا بالغا فقيرا زمنا أو أعمى لأن الصلة في القرابة القريبة واجبة دون البعيدة والفاصل أن يكون ذا رحم محرم ۔۔۔۔۔۔۔۔ثم لا بد من الحاجة والصغر والأنوثة والزمانة والعمى أمارة الحاجة لتحقق العجز فإن القادر على الكسب غني بكسبه بخلاف الأبوين لأنه يلحقهما تعب الكسب والولد مأمور بدفع الضرر عنهما فتجب نفقتهما مع قدرتهما على الكسب.قال: " ويجب ذلك على مقدار الميراث ويجبر عليه " لأن التنصيص على الوارث تنبيه على اعتبار المقدار ولأن الغرم بالغنم والجبر لإيفاء حق مستحق.قال: " وتجب نفقة الابنة البالغة والابن الزمن على أبويه أثلاثا على الأب الثلثان وعلى الأم الثلث " لأن الميراث لهما على هذا المقدار۔
الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:2،ص:293۔
اگر یتیم بچے کی ماں اور دادا زندہ ہیں تویہ دونوں اس بچے کے محرم بھی ہیں اور وارث بھی،اس لیے اس کا نفقہ ان دونوں پر بقدر حصہ میراث عائد ہوگا یعنی ایک تہائی خرچہ ماں کے ذمہ اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہوگا۔
تفسیرمعارف القرآن،دارالمعارف کراچی،ج:1،ص:582۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق دادایعنی آپ پر یتیم پوتے پوتیوں کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:
1۔سب سے پہلے مرحوم کی میراث میں سے شریعت مطہرہ کی مقرر کردہ اصول وراثت کے مطابق مرحوم کی بیوہ اور مرحوم کی اولاد کا جتنا حصہ بنتا ہے ،وہ بطیب خاطرالگ کرکےان کے حوالے کیا جائے۔
2۔مرحوم کی اولاد کے بالغ ہونے تک ان کے مال کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
3۔بالغ ہوجانے کے بعد روبروگواہان اُن کا مال اُن کے حوالے کرنا آپ پرلازم ہوگا۔
4۔اگر آپ خود یا دیگر عزیز واقارب اور رشتہ داروں میں سے کوئی اپنی مرضی سے تبرعاً اُن کا خرچہ برداشت کرنا چاہتا ہو تو ٹھیک، ورنہ بصورت دیگر اُن کے مال میں سے اعتدال کے ساتھ اُن پر خرچ کیا جائے گا۔
5۔اگر بالغ ہونے سے پہلے اُن کا مال ختم ہوجائے تو پھر اُن یتیموں کا خرچہ اُن کی والدہ اور اُن کے دادا یعنی آپ پر اثلاثاً واجب ہوگا ۔ اثلاثاً کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے نان نفقہ اور خرچے کا ایک حصہ اُن کی والدہ کے ذمہ اور دو حصے اُن کے دادایعنی آپ کے ذمہ لازم ہوں گے۔
6۔اگر اُن کی والدہ کے پاس اُن پر خرچ کرنے کے لیے کوئی مال نہ ہو تو پھر سارا کا سارا خرچہ دادا کے ذمہ لازم ہوگا۔
7۔اگر دادا کے پاس مال نہ ہو یا دادا کمائی کے قابل نہ ہو تو پھر دادا کی نگرانی میں یتیم بچوں کا خرچہ اُن کے چچا برداشت کریں گے۔
8۔جب یہ بچے بالغ ہو جائیں تو پھر اپنا خرچہ خود برداشت کریں گےجس کے لیے وہ کوئی بھی جائز ممکنہ صورت اختیار کرسکتے ہیں۔البتہ اگر ان بچوں میں کوئی لڑکی ہو جو بالغ ہونے کے بعد اپناخرچہ خود برداشت نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی حلال طریقے سے اپنے لیے خود روزی کما سکتی ہو تو ایسی صورت میں اس بالغ لڑکی کا خرچہ بھی حسب تفصیل سابق اس کی والدہ اور دادا یعنی آپ پر لازم ہوگا۔
9۔یتیم پوتے کو اپنے دادا کی میراث میں سے چونکہ کوئی حصہ نہیں ملتا اس وجہ سے آپ اگر چاہیں تو اپنی زندگی میں اپنے ان پوتے پوتیوں کے حق میں وصیت کرسکتے ہیں۔البتہ اگر بعد میں آپ کی رحلت کے بعد ان کے علاوہ کوئی اور وارث موجود نہ ہوں اور یہ آپ کے وارث بن جائیں تو یہ وصیت خود بخود باطل ہو جائے گی۔
10۔اگر خدانخواستہ ان بچوں میں سےکوئی معذور ہو تو اس کا نفقہ بالغ ہونے کے بعد بھی حسب تفصیل سابق آپ پر لازم ہوگا۔
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا۔(سورۃ النساء،آیت:10۔)
وعلى الوارث مثل ذلك۔(سورۃ البقرۃ،آیت:233۔)
وفي الخانية صغير مات أبوه وله أم وجد أب الأب كانت النفقة عليهما أثلاثا الثلث على الأم والثلثان على جد الأب۔(وفی المنحۃ)قوله: على جد الأب صوابه على الجد أبي الأب؛ لأن الضمير في له للصغير.
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:4،ص:231۔
ثم الشرط أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي لا وقت الوصية حتى لو أوصى لأخيه وله ابن وقت الوصية، ثم مات قبل موت الموصي، ثم مات الموصي لم تصح الوصية؛ لأن الموصى له، وهو الأخ صار وارث الموصي عند موته ولو أوصى لأخيه ولا ابن له وقت الوصية، ثم ولد له ابن، ثم مات الموصي صحت الوصية؛ لأن الأخ ليس بوارثه عند الموت لصيرورته محجوبا بالابن.وإنما اعتبرت الوراثة وقت موت الموصي لا وقت وصيته؛ لأن الوصية ليست بتمليك للحال ليعتبر كونه وارثا وقت وجودها، بل هي تمليك عند الموت، فيعتبر ذلك عند الموت۔
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:7،ص:337۔
لا تجب النفقة لمعتدة الموت ولا لمعتدة وقعت الفرقة بينها وبين زوجها بمعصية من جهتها كالردة وتقبيل ابن الزوج أما المتوفى عنها زوجها فلأن احتباسها ليس لحق الزوج، بل لحق الشرع فإن التربص عبادة منها ألا ترى أن معنى التعريف عن براءة الرحم ليس بمراعى فيه حتى لا يشترط فيه الحيض فلا تجب نفقتها عليه؛ ولأن النفقة تجب شيئا فشيئا ولا ملك له بعد الموت فلا يمكن إيجابها في ملك الورثة۔۔۔۔۔۔۔تجب النفقة والسكنى والكسوة لولده الصغير الفقير۔۔۔۔۔۔۔۔قيد بالطفل وهو الصبي حين يسقط من البطن إلى أن يحتلم، ويقال جارية طفل وطفلة، كذا في المغرب وبه علم أن الطفل يقع على الذكر والأنثى؛ ولذا عبر به؛ لأن البالغ لا تجب نفقته على أبيه إلا بشروط نذكرها وقيد بالفقير؛ لأن الصغير إذا كان له مال فنفقته في ماله۔۔۔۔۔۔۔(قوله ولقريب محرم فقير عاجز عن الكسب بقدر الإرث لو موسرا) وقيد بالفقر؛ لأن الغني نفقته على نفسه وقيدنا بالعجز عن الكسب وهو بالأنوثة مطلقا وبالزمانة والعمى ونحوها في الذكر فنفقة المرأة الصحيحة الفقيرة على محرمها فلا يعتبر في الأنثى إلا الفقر، وأما البالغ الفقير فلا بد من عجزه بزمانة أو عمى أو فقء العينين۔۔۔۔۔۔الخ
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:4،ص:228۔
والنفقة لكل ذي رحم محرم إذا كان صغيرا فقيرا أو كانت امرأة بالغة فقيرة أو كان ذكرا بالغا فقيرا زمنا أو أعمى لأن الصلة في القرابة القريبة واجبة دون البعيدة والفاصل أن يكون ذا رحم محرم ۔۔۔۔۔۔۔۔ثم لا بد من الحاجة والصغر والأنوثة والزمانة والعمى أمارة الحاجة لتحقق العجز فإن القادر على الكسب غني بكسبه بخلاف الأبوين لأنه يلحقهما تعب الكسب والولد مأمور بدفع الضرر عنهما فتجب نفقتهما مع قدرتهما على الكسب.قال: " ويجب ذلك على مقدار الميراث ويجبر عليه " لأن التنصيص على الوارث تنبيه على اعتبار المقدار ولأن الغرم بالغنم والجبر لإيفاء حق مستحق.قال: " وتجب نفقة الابنة البالغة والابن الزمن على أبويه أثلاثا على الأب الثلثان وعلى الأم الثلث " لأن الميراث لهما على هذا المقدار۔
الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:2،ص:293۔
اگر یتیم بچے کی ماں اور دادا زندہ ہیں تویہ دونوں اس بچے کے محرم بھی ہیں اور وارث بھی،اس لیے اس کا نفقہ ان دونوں پر بقدر حصہ میراث عائد ہوگا یعنی ایک تہائی خرچہ ماں کے ذمہ اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہوگا۔
تفسیرمعارف القرآن،دارالمعارف کراچی،ج:1،ص:582۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی