حنفی شخص کا نماز عصر مثل اول پر پڑھنے کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بیرون ملک بالخصوص عرب ممالک میں مقیم پاکستانی شخص جو کہ حنفی المسلک ہوتواس کے لیے عصر کی نماز مثل اول پرپڑھنا جائز ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں۔ المستفتی محمدعادل سلیمان خیل ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق نماز عصرکے بارےمیں احناف کے ہاں راجح اور مفتیٰ بہ قول حضرت امام صاحب کا ہے کہ نماز عصر مثلین پرہی پڑھی جائے گی۔عرب ممالک میں مقیم حنفی شخص یہ کوشش کرے کہ اگراحناف کی کوئی مسجد ہو تووہاں جاکر مثلین پر ہی باجماعت نماز اداکیا کرے۔اگر احناف کی مسجد نہ ملے یامسجد ہولیکن وہاں تک جانا ممکن نہ ہو تو پھرحنفی شخص یہ کوشش کرے کہ چندایک حنفی لوگ آپس میں مل کرمثلین پر ہی باجماعت نماز ادا کیا کریں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر مثلین پرتنہا نماز ادا کرنا ہی بہتر ہے۔البتہ اگر کسی مجبوری اورضرورت کی وجہ سےکسی شافعی المسلک امام کی اقتداء میں مثل اول پر نماز عصرپڑھنے کااتفاق ہو جائے تو حضرات صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئےاس کی گنجائش ہے۔جہاں تک حرمین شریفین کی بات ہے تو وہاں پر بہرحال مثل اول پر ہی باجماعت نماز ادا کرنا بہترہے۔
فتحصَّل أنَّه صلَّى الظُّهر تارةً في المِثْل وهو وَقْتُها المُخْتَص وتارةً في المِثْل الثاني وهو الوقْتُ الصَّالح لها، وكذلك صلَّى العصرَ تارةً بعد المِثل الأوَّل، وهو وقتٌ صالحٌ لها أيضًا، وصلاها تارةً بعد المِثل الثاني قبل نهايةِ المِثل الثالث، وهو الوقتُ المُخْتَص بها مع إبقاء الفَاصِلة بين الصَّلاتين في اليومين، وهذا عينُ مذهبنَا ولله الحمد أَوَّلا وآخرًا.
فیض الباری،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1426ھ،ج:02،ص:132۔
وانظر هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا، والظاهر الأول بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل. ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلا عن بعض الفتاوى أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:01،ص:359۔
اس سے ثابت ہوا کہ مثلین کے بعد نماز عصر پڑھناافضل ہے اگرچہ جماعت فوت ہوجائے۔مگریہ حکم عام مقامات کے لیے ہے حرمین شریفین کی فضیلت کے پیش نظر وہاں جماعت ترک نہ کی جائے بلکہ مثل ثانی کے اندرجماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:02،ص:145۔
عصرکی نماز مثلین کے بعد پڑھناافضل ہے اگرچہ اس میں جماعت فوت ہوجانے کاخدشہ ہو،مگریہ حکم دیگرعام مقامات کے لیے ہے، حرمین شریفین کی حرمت اور فضیلت کی وجہ سے جماعت میں شریک ہوجانا چاہیئے اورمثلین تک تاخیر کرناضروری نہیں،بلکہ حرمین شریفین میں باجماعت نماز پڑھناافضل ہے۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:03،ص:42۔
مسلک احناف میں قول مختار یہی ہے کہ وقت عصرمثلین سے شروع ہوتا ہے۔پس عام حالات میں مفتیٰ بہ قول پر عمل کرنا چاہیئے احتیاط اسی میں ہے۔البتہ دوسرا قول یہ بھی ہے کہ وقت عصرمثل اول کے بعد شروع ہوجاتا ہے لہٰذا کوئی معذور ہو یامسافر ہویاکسی شافعی المسلک امام کے پیچھے عصرکی نماز پڑھنے کااتفاق ہوجائے تومثل ثانی میں عصر کی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز کراچی،ج:02،ص:71۔
جہاں کہیں عصر کی نماز سایہ مثلین سے قبل پڑھی جاتی ہوتواس صورت میں مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے،اورایسے لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہو جومثلین سے پہلے عصر کی نماز پڑھتے ہیں۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،ج:02،ص:24۔
عصر کی نماز کا وقت احناف کے مفتیٰ بہ قول کے مطابق مثلین کے بعد شروع ہوتا ہے البتہ صاحبین کے نزدیک مثل اول کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔اگرچہ صاحبین کا قول مفتیٰ بہ نہیں ہے تاہم ضرورت وحاجت کی وجہ سے اگرعصرکی نماز مثل اول میں پڑھ لے تونماز درست ہو جاتی ہے اس لیے کہ بعض مشائخ نے اس پرفتویٰ دیا ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند،حجۃ الاسلام اکیڈمی،دارالعلوم وقف دیوبند،ج:04،ص:68۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق نماز عصرکے بارےمیں احناف کے ہاں راجح اور مفتیٰ بہ قول حضرت امام صاحب کا ہے کہ نماز عصر مثلین پرہی پڑھی جائے گی۔عرب ممالک میں مقیم حنفی شخص یہ کوشش کرے کہ اگراحناف کی کوئی مسجد ہو تووہاں جاکر مثلین پر ہی باجماعت نماز اداکیا کرے۔اگر احناف کی مسجد نہ ملے یامسجد ہولیکن وہاں تک جانا ممکن نہ ہو تو پھرحنفی شخص یہ کوشش کرے کہ چندایک حنفی لوگ آپس میں مل کرمثلین پر ہی باجماعت نماز ادا کیا کریں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر مثلین پرتنہا نماز ادا کرنا ہی بہتر ہے۔البتہ اگر کسی مجبوری اورضرورت کی وجہ سےکسی شافعی المسلک امام کی اقتداء میں مثل اول پر نماز عصرپڑھنے کااتفاق ہو جائے تو حضرات صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئےاس کی گنجائش ہے۔جہاں تک حرمین شریفین کی بات ہے تو وہاں پر بہرحال مثل اول پر ہی باجماعت نماز ادا کرنا بہترہے۔
فتحصَّل أنَّه صلَّى الظُّهر تارةً في المِثْل وهو وَقْتُها المُخْتَص وتارةً في المِثْل الثاني وهو الوقْتُ الصَّالح لها، وكذلك صلَّى العصرَ تارةً بعد المِثل الأوَّل، وهو وقتٌ صالحٌ لها أيضًا، وصلاها تارةً بعد المِثل الثاني قبل نهايةِ المِثل الثالث، وهو الوقتُ المُخْتَص بها مع إبقاء الفَاصِلة بين الصَّلاتين في اليومين، وهذا عينُ مذهبنَا ولله الحمد أَوَّلا وآخرًا.
فیض الباری،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1426ھ،ج:02،ص:132۔
وانظر هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا، والظاهر الأول بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل. ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلا عن بعض الفتاوى أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:01،ص:359۔
اس سے ثابت ہوا کہ مثلین کے بعد نماز عصر پڑھناافضل ہے اگرچہ جماعت فوت ہوجائے۔مگریہ حکم عام مقامات کے لیے ہے حرمین شریفین کی فضیلت کے پیش نظر وہاں جماعت ترک نہ کی جائے بلکہ مثل ثانی کے اندرجماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:02،ص:145۔
عصرکی نماز مثلین کے بعد پڑھناافضل ہے اگرچہ اس میں جماعت فوت ہوجانے کاخدشہ ہو،مگریہ حکم دیگرعام مقامات کے لیے ہے، حرمین شریفین کی حرمت اور فضیلت کی وجہ سے جماعت میں شریک ہوجانا چاہیئے اورمثلین تک تاخیر کرناضروری نہیں،بلکہ حرمین شریفین میں باجماعت نماز پڑھناافضل ہے۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:03،ص:42۔
مسلک احناف میں قول مختار یہی ہے کہ وقت عصرمثلین سے شروع ہوتا ہے۔پس عام حالات میں مفتیٰ بہ قول پر عمل کرنا چاہیئے احتیاط اسی میں ہے۔البتہ دوسرا قول یہ بھی ہے کہ وقت عصرمثل اول کے بعد شروع ہوجاتا ہے لہٰذا کوئی معذور ہو یامسافر ہویاکسی شافعی المسلک امام کے پیچھے عصرکی نماز پڑھنے کااتفاق ہوجائے تومثل ثانی میں عصر کی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز کراچی،ج:02،ص:71۔
جہاں کہیں عصر کی نماز سایہ مثلین سے قبل پڑھی جاتی ہوتواس صورت میں مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے،اورایسے لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہو جومثلین سے پہلے عصر کی نماز پڑھتے ہیں۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،ج:02،ص:24۔
عصر کی نماز کا وقت احناف کے مفتیٰ بہ قول کے مطابق مثلین کے بعد شروع ہوتا ہے البتہ صاحبین کے نزدیک مثل اول کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔اگرچہ صاحبین کا قول مفتیٰ بہ نہیں ہے تاہم ضرورت وحاجت کی وجہ سے اگرعصرکی نماز مثل اول میں پڑھ لے تونماز درست ہو جاتی ہے اس لیے کہ بعض مشائخ نے اس پرفتویٰ دیا ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند،حجۃ الاسلام اکیڈمی،دارالعلوم وقف دیوبند،ج:04،ص:68۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی