حدیث إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلتها، وصوموا يومها کی اسنادی حیثیت

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس حدیث کے بارے میں : عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:

جواب :-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
اس روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں (4542)نمبر پر اور امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (1388)نمبر پر اور امام ابن بشران نے اپنے امالی میں (703)نمبر پر اور امام فاکھی نے اخبار مکۃ میں(1837)نمبر پر ان سب نے ابن أبي سبرة، عن إبراهيم بن محمد، عن معاوية بن عبد الله، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، کے طریق سے ذکر کیا ہے۔
اور ابن ابی سبرہ کو علماء نے ضعیف کہا ہے، امام احمد رحمہ اللہ العلل میں(1193) نمبر پر فرماتا ہے کہ كان يضع الحديث اورامام ابن حبان المجروحین میں(1256) نمبر پر فرماتا ہے کہ كان ممن يروي الموضوعات عن الأثبات لا يحل كتابة حديثه ولا الاحتجاج به بحال اورامام ذہبی الکاشف میں (6525) نمبر پر فرماتا ہے کہ عالم مكثر لكنه متروك اور امام ابن حجر تقریب میں(7973) نمبر پر فرماتا ہے کہ رموه بالوضع،۔
اور امام ابن الجوزی رحمہ اللہ العلل المتناھیہ فی الاحادیث الواھیہ میں(923)نمبر پر اس روایت کے بارے میں فرماتا ہے کہ" هذا حديث لا يصح " ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے ، اس میں ضعف شدید ہے فضائل میں بھی بیا ن نہیں کیا جاسکتا ہے۔
البتہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے، لیکن اس میں پندرویں دن کا تعین کرنا صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے
اور پندرویں رات کی فضیلت بھی دوسرے مقبول احادیث سے ثابت ہے ، اسی وجہ سے علماء نے اسی رات کو عبادت مستحب قرار دیا ہے جیسا کہ امام حصکفی رحمہ اللہ نے الدر المختار (1/25)میں نقل کیا ہے کہ ومن المندوبات ركعتا السفر والقدوم منه.وصلاة الليل وأقلها على ما في الجوهرة ثمان، ولو جعله أثلاثا فالأوسط أفضل، ولو أنصافا فالأخير أفضل.وإحياء ليلة العيدين، والنصف من شعبان، والعشر الأخير من رمضان، والأول من ذي الحجة، ويكون بكل عبادة تعم الليل أو أكثره.۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب

نوراللہ برھانی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
14 /فروری /2023 الموافق 22/ رجب/1444
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
14 /فروری /2023 الموافق 22/ رجب/1444