حجام کی کمائی کی شرعی حیثیت
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آدمی جوحجامت(نائی) کا کام کرتا ہے،لوگوں کے لیے انگریزی بال بناتا ہے۔ڈاڑھی کو ایک مٹھی کی مقدار سے کم کرتے ہوئےکاٹتا بھی ہے اور مونڈتابھی ہے ۔اس حجام کی کمائی اور قربانی کے بارے میں تین سوالوں کے جوابات مطلوب ہیں:1۔اس حجام کی کمائی کا شرعی حکم کیا ہے،آیااس کی کمائی حلال ہے یا حرام؟2۔کیا یہ حجام اپنی اس کمائی کے پیسوں سے قربانی کرسکتا ہے یا نہیں؟3۔اگر یہ حجام کسی کے ساتھ اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے توکیا اس کواجتماعی قربانی کے جانورمیں اپنے ساتھ شریک کرنا جائز ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں مذکورہ سولات کے جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔المستفتیمفتی امیرماجداتلہ گدون صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق تینوں سوالوں کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں: جواب نمبر1:حجام (نائی) کی کمائی کے حلال یاحرام ہونے کاتعلق اُس کے کام کی نوعیت کے ساتھ ہے۔حجام کے نہ تو سارے کام جائز ہیں اور نہ ہی سارے کام ناجائز ہیں۔جوجوکام جائز ہیں مثلاً سر کے بال شرعی طریقے کے مطابق کاٹنا،ایک مشت سے زیادہ ڈاڑھی کو شرعی طریقےکے مطابق درست کرناوغیرہ توان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے۔اور جوجو کام ممنوع ہیں مثلاًسرکے بال خلاف شریعت کاٹنا (سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے اور کچھ کے بڑے کاٹنا،انگریزی کٹنگ وغیرہ)توان کاموں کی اجرت بھی حلال وطیب نہیں ہے ۔اور جو کام حرام ہیں مثلاًایک مشت سے کم ڈاڑھی کاٹنا،ڈاڑھی مونڈنا،خوب صورتی کے لیے باریک بھنویں بناناوغیرہ وغیرہ تو ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے۔ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔ سورۃ المائدۃ،آیت:2۔ وأما الأخذ منها، وهي دون ذلك كما يفعل بعض المغاربة والمخنثة من الرجال فلم يبحه أحد۔۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:۲،ص:۳۰۲۔ والأخذ من اللحية وهو دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال لم يبحه أحد وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الإعاجم۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ص:681۔ وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم فتح ۔ الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:418۔ باجماع امت داڑھی منڈانا حرام ہے۔اسی طرح ایک قبضہ(مٹھی)سے کم ہونے کی صورت میں کتروانا بھی حرام ہے۔ائمہ اربعہ حنفیہ،مالکیہ،شافعیہ،حنبلیہ کااس پراتفاق ہے۔ جواہرالفقہ،مکتبہ دارالعلوم کراچی ،2010ء،ج:7،ص:160۔ جواب نمبر2:یہ سوال کہ کیا یہ حجام اپنی اس کمائی کے پیسوں سے قربانی کرسکتا ہے یا نہیں؟اس کاجواب یہ ہے کہ اگرمذکورہ حجام کی آمدنی کااکثرحصہ حلال ہےیا اس حجامت کے پیشے کے علاوہ اس کاکوئی اور حلال ذریعہ آمدن بھی ہے تواس صورت میں اس کی قربانی درست ہے۔اور اگر اس کے پاس صرف حرام مال ہی ہے یعنی اس کی ساری آمدنی اسی حرام کمائی سے ہے یااس کی آمدنی کااکثرحصہ حرام ہےتواس صورت میں اُس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔اللہ تعالیٰ صرف حلال اور طیب مال کاہی صدقہ اور عبادت قبول فرماتے ہیں۔اوراگر اِس حجام کے پاس سارا کا سارامال حرام ہی کا ہے اور اس کے پاس حلال مال نصاب کے برابر بھی نہیں ہے تواس صورت میں اس کے حرام مال پر قربانی واجب بھی نہیں ہوگی۔ حرام مال پر قربانی اس لیے واجب نہیں ہوتی کہ اس پر صاحب قبضہ کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ حرام مال کی دوصورتیں ہوتی ہیں یا تو کسی کے پاس یہ حرام مال بلاکسی عوض کے آیا ہوگا یا بالعوض حاصل ہواہوگا۔اگربلاعوض حاصل ہوا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے مالک یا اس کے ورثاء تک پہنچانا لازم ہے۔اوراگر مالک یااس کے ورثاء تک پہنچانا ممکن نہ ہو یا دوسری صورت ہو کہ یہ مال حرام بالعوض حاصل ہوا ہو تو ان دونوں حالتوں میں ثواب کی نیت کے بغیر بطورصدقہ کسی مستحق زکوٰۃ کواس کادینا واجب ہے۔اس وجہ سے حرام مال سے قربانی واجب نہیں ہوتی کہ اس پر صاحب قبضہ کی ملکیت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ۔ سورۃ المؤمنون،آیت:51۔ وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ:يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ۔ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1015۔ في القنية لو كان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه.۔۔۔۔۔ قدمنا عن القنية والبزازية أن ما وجب التصدق بكله لا يفيد التصدق ببعضه؛ لأن المغصوب إن علمت أصحابه أو ورثتهم وجب رده عليهم وإلا وجب التصدق به.۔۔۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:291۔ أي خلطه بماله أما إذا لم يكن له مال وغصب أموال الناس وخلطها ببعضها فلا زكاة عليه لما في القنية لو كان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه، ومثله في البزازية قال في الشرنبلالية وبه صرح في شرح المنظومة ويجب عليه تفريغ ذمته برده إلى أربابه إن علموا وإلا إلى الفقراء۔۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:2،ص:221۔ جواب نمبر3:یہ سوال کہ" اگر یہ حجام کسی کے ساتھ اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے توکیا اس کواجتماعی قربانی کے جانورمیں اپنے ساتھ شریک کرنا جائز ہے یا نہیں؟"اس کاحکم یہ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں نیک گمان رکھنا چاہیئے۔ہر مسلمان کے بارے میں یہی گمان ہو کہ اس کی کمائی حلال ہے کیونکہ عام طور پر مسلمان حرام کمائی سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اورحلال کمائی ہی کی کوشش کرتا ہے۔مسلمان کی آمدن کی تفتیش یا تجسس کا دوسروں کو حکم نہیں ہے۔صورت مسئولہ میں اس حجام کے بارے میں بھی یہی گمان ہو کہ اس کی اکثرآمدنی حلال ہی ہوگی۔البتہ اگر قرائن سے کسی کو یہ یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اس حجام کی ساری آمدنی یا اکثر آمدنی حرام ہے تو پھر اس کو اپنے ساتھ قربانی کے جانورمیں شریک نہ کیا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اجتماعی قربانی میں اگر کسی ایک شریک کی بھی آمدنی حرام ہو اور یقینی طور پر یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے قربانی میں حرام مال سے ہی شرکت کی ہے تو اس صورت میں کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔ وإن كان كل واحد منهم صبيا أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانيا ونحو ذلك لا يجوز للآخرين أيضا كذا في السراجية.ولو كان أحد الشركاء ذميا كتابيا أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لا يتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقة بالعدم، فكأن يريد اللحم والمسلم لو أراد اللحم لا يجوز عندنا، وكذلك إذا كان أحدهم عبدا أو مدبرا ويريد أضحية، كذا في البدائع۔۔۔الخ الفتاویٰ الھندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:304۔ أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع.ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم، كذا في الاختيار شرح المختار. الفتاویٰ الھندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:342۔ ان کان لایتعدی ضررہ الیٰ غیرہ فلا حاجۃ للمحتسب ان یتجسس فی امرہ۔۔۔۔۔امااذا تعدی ضررہ الیٰ احد غیرہ اوالیٰ المجتمع بصفۃ عامۃ ،فانہ یجوز للمحتسب او لمؤظف آخر منصوب من قبل الحکومۃ لہٰذا الغرض ان یہجم علیہ ۔۔۔۔۔فالتجسس الممنوع ہوما کان لمجرد الاطلاع علیٰ عورات الناس وہتک سترہم لاخزائہم ،اما ماکان لغرض اجتماعی مقبول مثل ماذکرنا فلیس من التجسس المحظور۔۔۔۔الخ تکملۃ فتح الملہم،داراحیاء التراث العربی ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1426ھ،ج:5،ص:278۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق تینوں سوالوں کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں: جواب نمبر1:حجام (نائی) کی کمائی کے حلال یاحرام ہونے کاتعلق اُس کے کام کی نوعیت کے ساتھ ہے۔حجام کے نہ تو سارے کام جائز ہیں اور نہ ہی سارے کام ناجائز ہیں۔جوجوکام جائز ہیں مثلاً سر کے بال شرعی طریقے کے مطابق کاٹنا،ایک مشت سے زیادہ ڈاڑھی کو شرعی طریقےکے مطابق درست کرناوغیرہ توان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے۔اور جوجو کام ممنوع ہیں مثلاًسرکے بال خلاف شریعت کاٹنا (سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے اور کچھ کے بڑے کاٹنا،انگریزی کٹنگ وغیرہ)توان کاموں کی اجرت بھی حلال وطیب نہیں ہے ۔اور جو کام حرام ہیں مثلاًایک مشت سے کم ڈاڑھی کاٹنا،ڈاڑھی مونڈنا،خوب صورتی کے لیے باریک بھنویں بناناوغیرہ وغیرہ تو ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے۔ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔ سورۃ المائدۃ،آیت:2۔ وأما الأخذ منها، وهي دون ذلك كما يفعل بعض المغاربة والمخنثة من الرجال فلم يبحه أحد۔۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:۲،ص:۳۰۲۔ والأخذ من اللحية وهو دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال لم يبحه أحد وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الإعاجم۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ص:681۔ وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم فتح ۔ الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:418۔ باجماع امت داڑھی منڈانا حرام ہے۔اسی طرح ایک قبضہ(مٹھی)سے کم ہونے کی صورت میں کتروانا بھی حرام ہے۔ائمہ اربعہ حنفیہ،مالکیہ،شافعیہ،حنبلیہ کااس پراتفاق ہے۔ جواہرالفقہ،مکتبہ دارالعلوم کراچی ،2010ء،ج:7،ص:160۔ جواب نمبر2:یہ سوال کہ کیا یہ حجام اپنی اس کمائی کے پیسوں سے قربانی کرسکتا ہے یا نہیں؟اس کاجواب یہ ہے کہ اگرمذکورہ حجام کی آمدنی کااکثرحصہ حلال ہےیا اس حجامت کے پیشے کے علاوہ اس کاکوئی اور حلال ذریعہ آمدن بھی ہے تواس صورت میں اس کی قربانی درست ہے۔اور اگر اس کے پاس صرف حرام مال ہی ہے یعنی اس کی ساری آمدنی اسی حرام کمائی سے ہے یااس کی آمدنی کااکثرحصہ حرام ہےتواس صورت میں اُس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔اللہ تعالیٰ صرف حلال اور طیب مال کاہی صدقہ اور عبادت قبول فرماتے ہیں۔اوراگر اِس حجام کے پاس سارا کا سارامال حرام ہی کا ہے اور اس کے پاس حلال مال نصاب کے برابر بھی نہیں ہے تواس صورت میں اس کے حرام مال پر قربانی واجب بھی نہیں ہوگی۔ حرام مال پر قربانی اس لیے واجب نہیں ہوتی کہ اس پر صاحب قبضہ کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ حرام مال کی دوصورتیں ہوتی ہیں یا تو کسی کے پاس یہ حرام مال بلاکسی عوض کے آیا ہوگا یا بالعوض حاصل ہواہوگا۔اگربلاعوض حاصل ہوا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے مالک یا اس کے ورثاء تک پہنچانا لازم ہے۔اوراگر مالک یااس کے ورثاء تک پہنچانا ممکن نہ ہو یا دوسری صورت ہو کہ یہ مال حرام بالعوض حاصل ہوا ہو تو ان دونوں حالتوں میں ثواب کی نیت کے بغیر بطورصدقہ کسی مستحق زکوٰۃ کواس کادینا واجب ہے۔اس وجہ سے حرام مال سے قربانی واجب نہیں ہوتی کہ اس پر صاحب قبضہ کی ملکیت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ۔ سورۃ المؤمنون،آیت:51۔ وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ:يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ۔ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1015۔ في القنية لو كان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه.۔۔۔۔۔ قدمنا عن القنية والبزازية أن ما وجب التصدق بكله لا يفيد التصدق ببعضه؛ لأن المغصوب إن علمت أصحابه أو ورثتهم وجب رده عليهم وإلا وجب التصدق به.۔۔۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:291۔ أي خلطه بماله أما إذا لم يكن له مال وغصب أموال الناس وخلطها ببعضها فلا زكاة عليه لما في القنية لو كان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه، ومثله في البزازية قال في الشرنبلالية وبه صرح في شرح المنظومة ويجب عليه تفريغ ذمته برده إلى أربابه إن علموا وإلا إلى الفقراء۔۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:2،ص:221۔ جواب نمبر3:یہ سوال کہ" اگر یہ حجام کسی کے ساتھ اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے توکیا اس کواجتماعی قربانی کے جانورمیں اپنے ساتھ شریک کرنا جائز ہے یا نہیں؟"اس کاحکم یہ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں نیک گمان رکھنا چاہیئے۔ہر مسلمان کے بارے میں یہی گمان ہو کہ اس کی کمائی حلال ہے کیونکہ عام طور پر مسلمان حرام کمائی سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اورحلال کمائی ہی کی کوشش کرتا ہے۔مسلمان کی آمدن کی تفتیش یا تجسس کا دوسروں کو حکم نہیں ہے۔صورت مسئولہ میں اس حجام کے بارے میں بھی یہی گمان ہو کہ اس کی اکثرآمدنی حلال ہی ہوگی۔البتہ اگر قرائن سے کسی کو یہ یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اس حجام کی ساری آمدنی یا اکثر آمدنی حرام ہے تو پھر اس کو اپنے ساتھ قربانی کے جانورمیں شریک نہ کیا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اجتماعی قربانی میں اگر کسی ایک شریک کی بھی آمدنی حرام ہو اور یقینی طور پر یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے قربانی میں حرام مال سے ہی شرکت کی ہے تو اس صورت میں کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔ وإن كان كل واحد منهم صبيا أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانيا ونحو ذلك لا يجوز للآخرين أيضا كذا في السراجية.ولو كان أحد الشركاء ذميا كتابيا أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لا يتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقة بالعدم، فكأن يريد اللحم والمسلم لو أراد اللحم لا يجوز عندنا، وكذلك إذا كان أحدهم عبدا أو مدبرا ويريد أضحية، كذا في البدائع۔۔۔الخ الفتاویٰ الھندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:304۔ أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع.ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم، كذا في الاختيار شرح المختار. الفتاویٰ الھندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:342۔ ان کان لایتعدی ضررہ الیٰ غیرہ فلا حاجۃ للمحتسب ان یتجسس فی امرہ۔۔۔۔۔امااذا تعدی ضررہ الیٰ احد غیرہ اوالیٰ المجتمع بصفۃ عامۃ ،فانہ یجوز للمحتسب او لمؤظف آخر منصوب من قبل الحکومۃ لہٰذا الغرض ان یہجم علیہ ۔۔۔۔۔فالتجسس الممنوع ہوما کان لمجرد الاطلاع علیٰ عورات الناس وہتک سترہم لاخزائہم ،اما ماکان لغرض اجتماعی مقبول مثل ماذکرنا فلیس من التجسس المحظور۔۔۔۔الخ تکملۃ فتح الملہم،داراحیاء التراث العربی ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1426ھ،ج:5،ص:278۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی