حالت حیض اور بے وضو ہونے کی حالت میں مطالعہ قرآن کی کتاب کو چھونے کا حکم
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل سکولز اورکالجز میں میں گورنمنٹ کی طرف سے مطالعہ قرآن کے مضمون کولازمی قرار دیا گیا ہے۔مطالعہ قرآن کے نصاب میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔نویں ،دسویں گیارھویں اور بارھویں جماعت کے طلبہ کے بورڈ کے امتحان میں باقاعدہ مطالعہ قرآن کاپرچہ ہوتا ہے۔ان کلاسزمیں اکثریت بالغ طلبہ اورطالبات کی ہوتی ہے۔اس حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات کاحل مطلوب ہے: 1۔ جن طلبہ وطالبات کاوضو نہ ہو توکیا وہ مطالعہ قرآن کی کتاب کوہاتھ لگاسکتے ہیں یا نہیں؟ 2۔طالبات اپنے مخصوص ایام میں مطالعہ قرآن کی کتاب کو چھوسکتی ہے یا نہیں؟ 3۔طالبات اپنے مخصوص ایام میں مطالعہ قرآن کی کتاب میں قرآنی سورتوں کو پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟ 4۔فی میل سکولزاورکالجزمیں معلمات اپنے مخصوص ایام میں مطالعہ قرآن کی تدریس کس طرح کریں گی؟ 5۔طالبات اپنے مخصوص ایام والے دنوں میں مطالعہ قرآن کے پرچہ میں قرآنی آیات کو لکھ سکتی ہیں یا نہیں؟ مندرجہ بالا سوالوں کاجواب شریعت مطہرہ کی روشنی میں دے کرثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی فضل وہاب ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداًومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے سوالوں کے جوابات دینے سے پہلے چندایک تمہیدی باتوں کاجاننا ضروری ہے۔
1۔قرآن مجید کو صرف وہی شخص ہاتھ لگا سکتا ہےجو باوضو ہو،بے وضو شخص کے لیے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔کتب تفسیر کے بارے میں حضرات فقہاء کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ اگر تفسیر کی کتابوں میں آیات کم اور تفسیر زیادہ ہو توبے وضو کے لیے اسے چھونے کی گنجائش ہےاس شرط کے ساتھ کہ آیات والے حصے کو ہاتھ نہیں لگائے گا اور اگر تفسیر کم یابرابر ہوتوپھربے وضو شخص کے لیے اسے چھونا جائز نہیں ہے۔
2۔بےوضوشخص،جنبی آدمی یاحیض ونفاس والی عورت نے جو لباس اپنے جسم پرپہن رکھا ہو ،اس لباس کے ساتھ مذکورہ حالتوں کے دوران یہ لوگ قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔دستانے اگر پہنے ہوئے ہوں یاپہنے ہوئے قمیص کے آستین یادامن وغیرہ سے یا خواتین کااپنے اوڑھے ہوئے دوپٹے وغیرہ سے قرآن مجید کوپکڑنا جائز نہیں ہے۔البتہ کوئی ایسا کپڑا جو بدن سے متصل نہ ہو جیسے کوئی رومال وغیرہ تواس سے مذکورہ حالتوں میں قرآن مجید کو پکڑ سکتے ہیں۔
3۔چھوٹے نابالغ بچے اگر بغیروضوکے بھی ضرورت کے وقت قرآن مجید کو ہاتھ میں لیتے ہیں توان کے لیے جائز ہے تاہم قرآن مجیدکے ادب واحترام اوربچوں کی تربیت کا کاتقاضا یہ ہے کہ عام حالات میں تادیباً بچوں کو بھی وضو کے اہتمام پر زور دیا جائے۔
4۔بے وضو شخص قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا سکتا لیکن زبانی پڑھ سکتا ہے۔حالت حیض،حالت نفاس اور حالت جنابت میں ہونے کی صورت میں قرآن مجید کوچھونایاہاتھ لگائے بغیر زبانی پڑھنا دونوں جائز نہیں ہے۔
5۔خواتین کے لیے مخصوص ایام یعنی حیض کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت ممنوع ہے البتہ تعلیمی ضرورت کے پیش نظر اس بات کی اجازت ہے کہ طالبات یامعلمات جب قرآن مجید کی تلاوت کرے توایک ایک کلمہ اور ایک ایک لفظ الگ الگ کرتے ہوئے ہجے کرکے پڑھے،مثلاً الحمدللہ رب العٰلمین کو اس طرح پڑھےالحمد۔۔۔۔۔للہ۔۔۔۔۔رب ۔۔۔۔۔العٰلمین۔اس طرح سےہجے کرکے ایک ایک کلمہ کوالگ الگ کرکے پڑھنااور سناناجائز ہے لیکن روانی کے ساتھ مکمل آیت کاپڑھنا یاسناناجائز نہیں ہے۔
6۔حالت جنابت،حالت حیض اور حالت نفاس میں قرآن مجید کی آیت مبارکہ کواس طرح سے کسی کاغذ وغیرہ پر لکھنا کہ لکھتے وقت ہاتھ اس صفحہ پرلگ رہا ہو تویہ جائز نہیں ہے،البتہ اگر اس صفحہ پرکوئی رومال وغیرہ رکھ لیا جائے تاکہ ہاتھ صفحہ سے نہ لگے تواس کی گنجائش ہے۔
7۔اگرصرف قرآن مجید کا ترجمہ ہو تواس کے بھی وہی آداب واحکام ہیں جو قرآن مجید کے مصحف کےہیں۔
مذکورہ بالاتمہیدی باتوں کوسمجھنے کے بعد صورت مسئولہ میں مطالعہ قرآن کی کتاب کے بارے میں جوسوالات پوچھے گئے ہیں ان کے جواب دینے سے پہلے جب مطالعہ قرآن کے کتاب کو دیکھا گیا تومعلوم ہوا کہ اس کتاب میں قرآن مجید کی سورتوں کے ساتھ ساتھ ان کاسلیس ترجمہ دیا گیا ہے،بعض بعض مقامات پرترجمہ کی وضاحت بریکٹ میں عبارت کے ساتھ کی گئی ہےاورچندرکوعات کے بعد ہدایات برائے اساتذہ کرام اورمشقیں دی گئیں ہیں ۔ یہ کتاب پورے صوبہ کے تمام میل اور فی میل کالجزاور سکولزمیں داخل نصاب ہےاس وجہ سےفقہائے کرام کے عبارات کی روشنی میں طلبہ اور بالخصوص ہزاروں کی تعداد میں طالبات اور معلمات کوممنوع کے ارتکاب سے بچانےکی خاطر اس کتاب کو تفسیر قرآن قرار دینے یااسلامیات کے دیگر کتب کی طرح اسلامیات کی کتاب قرار دینے کی گنجائش ہے۔سوالات کے جوابات علیٰ الترتیب مندرجہ ذیل ہیں:
1۔جن طلبہ وطالبات ،معلمین یامعلمات کاوضو نہ ہوان کے لیے بے وضو مطالعہ قرآن کی کتاب کوہاتھ لگانے کی گنجائش توہے مگر حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ بے وضوہاتھ نہ لگایا جائےاورقرآنی سورتوں کے تقدس اوراحترام کومدنظر رکھتے ہوئے باوضو ہو کر ہی کتاب کوہاتھ میں لیا جائے۔نیز اگرکسی کاوضو نہ ہو تو صفحہ کے جس حصہ پرقرآن کی آیت لکھی ہوئی ہو تو وہ یہ احتیاط کرے کہ اس کاہاتھ صفحہ کےآیت والے حصہ پر نہ لگے۔
2۔طالبات اپنے مخصوص ایام کے دنوں میں مطالعہ قرآن کی کتاب کو ہاتھ میں لے سکتی ہے مگر جن جن مقامات پرآیت لکھی ہوئی ہو ان مقامات کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔
3۔طالبات اپنے مخصوص ایام والے دنوں میں دل میں تو قرآن مجید کی آیات کو پڑھ سکتی ہیں لیکن زبان سے پڑھنا جائز نہیں ہے۔
4۔فی میل سکولزاورکالجزکی معلمات کواپنے مخصوص ایام میں تعلیمی ضرورت کے پیش نظر اس بات کی اجازت ہے کہ طالبات یا معلمات جب قرآن مجید کی تلاوت کرے توایک ایک کلمہ اور ایک ایک لفظ کو الگ الگ کرتے ہوئے ہجے کرکے پڑھے،مثلاً الحمدللہ رب العٰلمین کو اس طرح پڑھےالحمد۔۔۔۔۔للہ۔۔۔۔۔رب ۔۔۔۔۔العٰلمین۔اس طرح سےہجے کرکے ایک ایک کلمہ کوالگ الگ کرکے پڑھنااور سناناجائز ہے لیکن روانی کے ساتھ مکمل آیت کاپڑھنا یاسناناجائز نہیں ہے۔
5۔طالبات اپنے مخصوص ایام والے دنوں میں مطالعہ قرآن کے پرچہ میں قرآنی آیات کو اگراس طرح سے لکھے کہ لکھتے وقت ہاتھ اس صفحہ پرلگ رہا ہو تویہ جائز نہیں ہے،البتہ اگر اس صفحہ پرکوئی رومال وغیرہ رکھ لیا جائے تاکہ ہاتھ صفحہ پر نہ لگے توامتحانی ضرورت کے پیش نظراس کی گنجائش ہے۔
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (سورۃ الواقعۃ،آیت:79۔)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِيعِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَرَجُلَانِ رَجُلٌ مِنَّا وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ أَحْسِبُ فَبَعَثَهُمَا وَجْهًا فَقَالَ: إِنَّكُمَا عِلْجَانِ فَعَالِجَا عَنْ دِينِكُمَا، ثُمَّ دَخَلَ الْمَخْرَجَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَتَمَسَّحَ بِهَا ثُمَّ جَاءَ فَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَرَآنَا أَنْكَرْنَا ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي الْخَلَاءَ فَيَقْضِي الْحَاجَةَ ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَأْكُلُ مَعَنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَا يَحْجُبُهُ وَرُبَّمَا قَالَ: وَلَا يَحْجِزُهُ عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ سِوَى الْجَنَابَةِ أَوِ إِلَّا الْجَنَابَةَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ۔
المستدرک علیٰ الصحیحین،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1411ھ،رقم الحدیث:7083۔
(ومنها) حرمة مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه كالخريطة والجلد الغير المشرز لا بما هو متصل به، هو الصحيح. هكذا في الهداية وعليه الفتوى. كذا في الجوهرة النيرة.والصحيح منع مس حواشي المصحف والبياض الذي لا كتابة عليه. هكذا في التبيين.واختلفوا في مس المصحف بما عدا أعضاء الطهارة وبما غسل من الأعضاء قبل إكمال الوضوء والمنع أصح. كذا في الزاهدي ولا يجوز لهم مس المصحف بالثياب التي هم لابسوها ويكره لهم مس كتب التفسير والفقه والسنن ولا بأس بمسها بالكم. هكذا في التبيين.ولا يجوز مس شيء مكتوب فيه شيء من القرآن في لوح أو دراهم أو غير ذلك إذا كان آية تامة. هكذا في الجوهرة النيرة ولو كان القرآن مكتوبا بالفارسية يكره لهم مسه عند أبي حنيفة وكذا عندهما على الصحيح هكذا في الخلاصة.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:01،ص:39۔
وَلَا يَجُوزُ لَهُمْ مَسُّ الْمُصْحَفِ بِالثِّيَابِ الَّتِي يَلْبَسُونَهَا؛ لِأَنَّهَا بِمَنْزِلَةِ الْبَدَنِ وَلِهَذَا لَوْ حَلَفَ لَا يَجْلِسُ عَلَى الْأَرْضِ فَجَلَسَ عَلَيْهَا وَثِيَابُهُ حَائِلَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا وَهُوَ لَابِسُهَا يَحْنَثُ، وَلَوْ قَامَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى النَّجَاسَةِ وَفِي رِجْلَيْهِ نَعْلَانِ أَوْ جَوْرَبَانِ لَا تَصِحُّ صَلَاتُهُ بِخِلَافِ الْمُنْفَصِلِ عَنْهُ وَقِيلَ لَا بَأْسَ بِهِ لِعَدَمِ الْمُبَاشَرَةِ بِالْيَدِ وَكَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا دَفْعَ الْمُصْحَفِ وَاللَّوْحِ الَّذِي كُتِبَ فِيهِ الْقُرْآنُ إلَى الصِّبْيَانِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ بِهِ بَأْسًا وَهُوَ الصَّحِيحُ؛ لِأَنَّ فِي تَكْلِيفِهِمْ بِالْوُضُوءِ حَرَجًا بِهِمْ وَفِي تَأْخِيرِهِمْ إلَى الْبُلُوغِ تَقْلِيلُ حِفْظِ الْقُرْآنِ فَيُرَخَّصُ لِلضَّرُورَةِ۔
تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،القاہرۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:01،ص:58۔
(والتفسير كمصحف لا الكتب الشرعية) فإنه رخص مسها باليد لا التفسير كما في الدرر عن مجمع الفتاوى. وفي السراج: المستحب أن لا يأخذ الكتب الشرعية بالكم أيضا تعظيما، لكن في الأشباه من قاعدة: إذا اجتمع الحلال والحرام رجح الحرام. وقد جوز أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث، ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيرا أو قرآنا، ولو قيل به اعتبارا للغالب لكان حسنا قلت: لكنه يخالف ما مر فتدبر.
وفی الشامیہ:فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعا، وقد صرح بجوازه أيضا في شرح درر البحار. وفي السراج عن الإيضاح أن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها، وله أن يمس غيره وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف فإن الكل فيه تبع للقرآن.والحاصل أنه لا فرق بين التفسير وغيره من الكتب الشرعية على القول بالكراهة وعدمه، ولهذا قال في النهر: ولا يخفى أن مقتضى ما في الخلاصة عدم الكراهة مطلقا؛ لأن من أثبتها حتى في التفسير نظر إلى ما فيها من الآيات، ومن نفاها نظر إلى أن الأكثر ليس كذلك، وهذا يعم التفسير أيضا۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:176۔
ونقل العلامة نوح عن الجوهرة والسراج إن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها وله أن يمس غيرها بخلاف المصحف لأن جميع ذلك تبع له۔۔۔۔۔۔۔ وفيما عدا المصحف إنما يحرم مس الكتابة لا الحواشي ويحرم الكل في المصحف لأن الكل تبع له كما في الحدادي وغيره۔۔۔۔۔۔۔ وقد جوز بعض أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيرا أو قرآنا ولو قيل به إعتبارا للغالب لكان حسنا وفي الجوهرة كتب التفسير وغيرها لا يجوز مس مواضع القرآن منها وله أن يمس غيرها بخلاف المصحف قلت وذلك هو الموافق لكلامهم لأنهم جعلوا المحرم في غير المصحف مس عين القرآن.
حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:1،ص:143،144۔
والتقييد بالكم اتفاقي فإنه لا يجوز مسه ببعض ثياب البدن غير الكم كما في الفتح عن الفتاوى. وفيه قال لي بعض الإخوان: أيجوز بالمنديل الموضوع على العنق؟ قلت: لا أعلم فيه نقلا. والذي يظهر أنه إذا تحرك طرفه بحركته لا يجوز وإلا جاز، لاعتبارهم إياه تبعا له كبدنه في الأول دون الثاني فيما لو صلى وعليه عمامة بطرفها الملقى نجاسة مانعة، وأقره في النهر والبحر.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:174۔
(قوله وقراءة قرآن) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمة كلمة كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور كما قدمه المصنف (قوله بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به كما قدمناه عن العيون لأبي الليث وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية۔
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:293۔
قرآن لکھنے کے جواز میں اس صورت میں اختلاف ہے جبکہ کتابت اس طور پر ہو کہ کاغذ کوہاتھ نہ لگے عندالضرورۃ اس کی گنجائش ہے لیکن کاغذ کوہاتھ لگانا کسی صورت میں جائز نہیں۔ترجمہ قرآن کو بھی بے وضو چھونے کے بارے میں فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے بحکم قرآن قرار دیا ہے۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:2،ص:36۔
واللہ اعلم باالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداًومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے سوالوں کے جوابات دینے سے پہلے چندایک تمہیدی باتوں کاجاننا ضروری ہے۔
1۔قرآن مجید کو صرف وہی شخص ہاتھ لگا سکتا ہےجو باوضو ہو،بے وضو شخص کے لیے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔کتب تفسیر کے بارے میں حضرات فقہاء کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ اگر تفسیر کی کتابوں میں آیات کم اور تفسیر زیادہ ہو توبے وضو کے لیے اسے چھونے کی گنجائش ہےاس شرط کے ساتھ کہ آیات والے حصے کو ہاتھ نہیں لگائے گا اور اگر تفسیر کم یابرابر ہوتوپھربے وضو شخص کے لیے اسے چھونا جائز نہیں ہے۔
2۔بےوضوشخص،جنبی آدمی یاحیض ونفاس والی عورت نے جو لباس اپنے جسم پرپہن رکھا ہو ،اس لباس کے ساتھ مذکورہ حالتوں کے دوران یہ لوگ قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔دستانے اگر پہنے ہوئے ہوں یاپہنے ہوئے قمیص کے آستین یادامن وغیرہ سے یا خواتین کااپنے اوڑھے ہوئے دوپٹے وغیرہ سے قرآن مجید کوپکڑنا جائز نہیں ہے۔البتہ کوئی ایسا کپڑا جو بدن سے متصل نہ ہو جیسے کوئی رومال وغیرہ تواس سے مذکورہ حالتوں میں قرآن مجید کو پکڑ سکتے ہیں۔
3۔چھوٹے نابالغ بچے اگر بغیروضوکے بھی ضرورت کے وقت قرآن مجید کو ہاتھ میں لیتے ہیں توان کے لیے جائز ہے تاہم قرآن مجیدکے ادب واحترام اوربچوں کی تربیت کا کاتقاضا یہ ہے کہ عام حالات میں تادیباً بچوں کو بھی وضو کے اہتمام پر زور دیا جائے۔
4۔بے وضو شخص قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا سکتا لیکن زبانی پڑھ سکتا ہے۔حالت حیض،حالت نفاس اور حالت جنابت میں ہونے کی صورت میں قرآن مجید کوچھونایاہاتھ لگائے بغیر زبانی پڑھنا دونوں جائز نہیں ہے۔
5۔خواتین کے لیے مخصوص ایام یعنی حیض کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت ممنوع ہے البتہ تعلیمی ضرورت کے پیش نظر اس بات کی اجازت ہے کہ طالبات یامعلمات جب قرآن مجید کی تلاوت کرے توایک ایک کلمہ اور ایک ایک لفظ الگ الگ کرتے ہوئے ہجے کرکے پڑھے،مثلاً الحمدللہ رب العٰلمین کو اس طرح پڑھےالحمد۔۔۔۔۔للہ۔۔۔۔۔رب ۔۔۔۔۔العٰلمین۔اس طرح سےہجے کرکے ایک ایک کلمہ کوالگ الگ کرکے پڑھنااور سناناجائز ہے لیکن روانی کے ساتھ مکمل آیت کاپڑھنا یاسناناجائز نہیں ہے۔
6۔حالت جنابت،حالت حیض اور حالت نفاس میں قرآن مجید کی آیت مبارکہ کواس طرح سے کسی کاغذ وغیرہ پر لکھنا کہ لکھتے وقت ہاتھ اس صفحہ پرلگ رہا ہو تویہ جائز نہیں ہے،البتہ اگر اس صفحہ پرکوئی رومال وغیرہ رکھ لیا جائے تاکہ ہاتھ صفحہ سے نہ لگے تواس کی گنجائش ہے۔
7۔اگرصرف قرآن مجید کا ترجمہ ہو تواس کے بھی وہی آداب واحکام ہیں جو قرآن مجید کے مصحف کےہیں۔
مذکورہ بالاتمہیدی باتوں کوسمجھنے کے بعد صورت مسئولہ میں مطالعہ قرآن کی کتاب کے بارے میں جوسوالات پوچھے گئے ہیں ان کے جواب دینے سے پہلے جب مطالعہ قرآن کے کتاب کو دیکھا گیا تومعلوم ہوا کہ اس کتاب میں قرآن مجید کی سورتوں کے ساتھ ساتھ ان کاسلیس ترجمہ دیا گیا ہے،بعض بعض مقامات پرترجمہ کی وضاحت بریکٹ میں عبارت کے ساتھ کی گئی ہےاورچندرکوعات کے بعد ہدایات برائے اساتذہ کرام اورمشقیں دی گئیں ہیں ۔ یہ کتاب پورے صوبہ کے تمام میل اور فی میل کالجزاور سکولزمیں داخل نصاب ہےاس وجہ سےفقہائے کرام کے عبارات کی روشنی میں طلبہ اور بالخصوص ہزاروں کی تعداد میں طالبات اور معلمات کوممنوع کے ارتکاب سے بچانےکی خاطر اس کتاب کو تفسیر قرآن قرار دینے یااسلامیات کے دیگر کتب کی طرح اسلامیات کی کتاب قرار دینے کی گنجائش ہے۔سوالات کے جوابات علیٰ الترتیب مندرجہ ذیل ہیں:
1۔جن طلبہ وطالبات ،معلمین یامعلمات کاوضو نہ ہوان کے لیے بے وضو مطالعہ قرآن کی کتاب کوہاتھ لگانے کی گنجائش توہے مگر حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ بے وضوہاتھ نہ لگایا جائےاورقرآنی سورتوں کے تقدس اوراحترام کومدنظر رکھتے ہوئے باوضو ہو کر ہی کتاب کوہاتھ میں لیا جائے۔نیز اگرکسی کاوضو نہ ہو تو صفحہ کے جس حصہ پرقرآن کی آیت لکھی ہوئی ہو تو وہ یہ احتیاط کرے کہ اس کاہاتھ صفحہ کےآیت والے حصہ پر نہ لگے۔
2۔طالبات اپنے مخصوص ایام کے دنوں میں مطالعہ قرآن کی کتاب کو ہاتھ میں لے سکتی ہے مگر جن جن مقامات پرآیت لکھی ہوئی ہو ان مقامات کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔
3۔طالبات اپنے مخصوص ایام والے دنوں میں دل میں تو قرآن مجید کی آیات کو پڑھ سکتی ہیں لیکن زبان سے پڑھنا جائز نہیں ہے۔
4۔فی میل سکولزاورکالجزکی معلمات کواپنے مخصوص ایام میں تعلیمی ضرورت کے پیش نظر اس بات کی اجازت ہے کہ طالبات یا معلمات جب قرآن مجید کی تلاوت کرے توایک ایک کلمہ اور ایک ایک لفظ کو الگ الگ کرتے ہوئے ہجے کرکے پڑھے،مثلاً الحمدللہ رب العٰلمین کو اس طرح پڑھےالحمد۔۔۔۔۔للہ۔۔۔۔۔رب ۔۔۔۔۔العٰلمین۔اس طرح سےہجے کرکے ایک ایک کلمہ کوالگ الگ کرکے پڑھنااور سناناجائز ہے لیکن روانی کے ساتھ مکمل آیت کاپڑھنا یاسناناجائز نہیں ہے۔
5۔طالبات اپنے مخصوص ایام والے دنوں میں مطالعہ قرآن کے پرچہ میں قرآنی آیات کو اگراس طرح سے لکھے کہ لکھتے وقت ہاتھ اس صفحہ پرلگ رہا ہو تویہ جائز نہیں ہے،البتہ اگر اس صفحہ پرکوئی رومال وغیرہ رکھ لیا جائے تاکہ ہاتھ صفحہ پر نہ لگے توامتحانی ضرورت کے پیش نظراس کی گنجائش ہے۔
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (سورۃ الواقعۃ،آیت:79۔)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِيعِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَرَجُلَانِ رَجُلٌ مِنَّا وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ أَحْسِبُ فَبَعَثَهُمَا وَجْهًا فَقَالَ: إِنَّكُمَا عِلْجَانِ فَعَالِجَا عَنْ دِينِكُمَا، ثُمَّ دَخَلَ الْمَخْرَجَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَتَمَسَّحَ بِهَا ثُمَّ جَاءَ فَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَرَآنَا أَنْكَرْنَا ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي الْخَلَاءَ فَيَقْضِي الْحَاجَةَ ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَأْكُلُ مَعَنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَا يَحْجُبُهُ وَرُبَّمَا قَالَ: وَلَا يَحْجِزُهُ عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ سِوَى الْجَنَابَةِ أَوِ إِلَّا الْجَنَابَةَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ۔
المستدرک علیٰ الصحیحین،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1411ھ،رقم الحدیث:7083۔
(ومنها) حرمة مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه كالخريطة والجلد الغير المشرز لا بما هو متصل به، هو الصحيح. هكذا في الهداية وعليه الفتوى. كذا في الجوهرة النيرة.والصحيح منع مس حواشي المصحف والبياض الذي لا كتابة عليه. هكذا في التبيين.واختلفوا في مس المصحف بما عدا أعضاء الطهارة وبما غسل من الأعضاء قبل إكمال الوضوء والمنع أصح. كذا في الزاهدي ولا يجوز لهم مس المصحف بالثياب التي هم لابسوها ويكره لهم مس كتب التفسير والفقه والسنن ولا بأس بمسها بالكم. هكذا في التبيين.ولا يجوز مس شيء مكتوب فيه شيء من القرآن في لوح أو دراهم أو غير ذلك إذا كان آية تامة. هكذا في الجوهرة النيرة ولو كان القرآن مكتوبا بالفارسية يكره لهم مسه عند أبي حنيفة وكذا عندهما على الصحيح هكذا في الخلاصة.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:01،ص:39۔
وَلَا يَجُوزُ لَهُمْ مَسُّ الْمُصْحَفِ بِالثِّيَابِ الَّتِي يَلْبَسُونَهَا؛ لِأَنَّهَا بِمَنْزِلَةِ الْبَدَنِ وَلِهَذَا لَوْ حَلَفَ لَا يَجْلِسُ عَلَى الْأَرْضِ فَجَلَسَ عَلَيْهَا وَثِيَابُهُ حَائِلَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا وَهُوَ لَابِسُهَا يَحْنَثُ، وَلَوْ قَامَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى النَّجَاسَةِ وَفِي رِجْلَيْهِ نَعْلَانِ أَوْ جَوْرَبَانِ لَا تَصِحُّ صَلَاتُهُ بِخِلَافِ الْمُنْفَصِلِ عَنْهُ وَقِيلَ لَا بَأْسَ بِهِ لِعَدَمِ الْمُبَاشَرَةِ بِالْيَدِ وَكَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا دَفْعَ الْمُصْحَفِ وَاللَّوْحِ الَّذِي كُتِبَ فِيهِ الْقُرْآنُ إلَى الصِّبْيَانِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ بِهِ بَأْسًا وَهُوَ الصَّحِيحُ؛ لِأَنَّ فِي تَكْلِيفِهِمْ بِالْوُضُوءِ حَرَجًا بِهِمْ وَفِي تَأْخِيرِهِمْ إلَى الْبُلُوغِ تَقْلِيلُ حِفْظِ الْقُرْآنِ فَيُرَخَّصُ لِلضَّرُورَةِ۔
تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،القاہرۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:01،ص:58۔
(والتفسير كمصحف لا الكتب الشرعية) فإنه رخص مسها باليد لا التفسير كما في الدرر عن مجمع الفتاوى. وفي السراج: المستحب أن لا يأخذ الكتب الشرعية بالكم أيضا تعظيما، لكن في الأشباه من قاعدة: إذا اجتمع الحلال والحرام رجح الحرام. وقد جوز أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث، ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيرا أو قرآنا، ولو قيل به اعتبارا للغالب لكان حسنا قلت: لكنه يخالف ما مر فتدبر.
وفی الشامیہ:فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعا، وقد صرح بجوازه أيضا في شرح درر البحار. وفي السراج عن الإيضاح أن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها، وله أن يمس غيره وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف فإن الكل فيه تبع للقرآن.والحاصل أنه لا فرق بين التفسير وغيره من الكتب الشرعية على القول بالكراهة وعدمه، ولهذا قال في النهر: ولا يخفى أن مقتضى ما في الخلاصة عدم الكراهة مطلقا؛ لأن من أثبتها حتى في التفسير نظر إلى ما فيها من الآيات، ومن نفاها نظر إلى أن الأكثر ليس كذلك، وهذا يعم التفسير أيضا۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:176۔
ونقل العلامة نوح عن الجوهرة والسراج إن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها وله أن يمس غيرها بخلاف المصحف لأن جميع ذلك تبع له۔۔۔۔۔۔۔ وفيما عدا المصحف إنما يحرم مس الكتابة لا الحواشي ويحرم الكل في المصحف لأن الكل تبع له كما في الحدادي وغيره۔۔۔۔۔۔۔ وقد جوز بعض أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيرا أو قرآنا ولو قيل به إعتبارا للغالب لكان حسنا وفي الجوهرة كتب التفسير وغيرها لا يجوز مس مواضع القرآن منها وله أن يمس غيرها بخلاف المصحف قلت وذلك هو الموافق لكلامهم لأنهم جعلوا المحرم في غير المصحف مس عين القرآن.
حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:1،ص:143،144۔
والتقييد بالكم اتفاقي فإنه لا يجوز مسه ببعض ثياب البدن غير الكم كما في الفتح عن الفتاوى. وفيه قال لي بعض الإخوان: أيجوز بالمنديل الموضوع على العنق؟ قلت: لا أعلم فيه نقلا. والذي يظهر أنه إذا تحرك طرفه بحركته لا يجوز وإلا جاز، لاعتبارهم إياه تبعا له كبدنه في الأول دون الثاني فيما لو صلى وعليه عمامة بطرفها الملقى نجاسة مانعة، وأقره في النهر والبحر.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:174۔
(قوله وقراءة قرآن) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمة كلمة كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور كما قدمه المصنف (قوله بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به كما قدمناه عن العيون لأبي الليث وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية۔
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:293۔
قرآن لکھنے کے جواز میں اس صورت میں اختلاف ہے جبکہ کتابت اس طور پر ہو کہ کاغذ کوہاتھ نہ لگے عندالضرورۃ اس کی گنجائش ہے لیکن کاغذ کوہاتھ لگانا کسی صورت میں جائز نہیں۔ترجمہ قرآن کو بھی بے وضو چھونے کے بارے میں فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے بحکم قرآن قرار دیا ہے۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:2،ص:36۔
واللہ اعلم باالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی