جدید عصری وسائنسی علوم حاصل کرنے کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاءکیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسلامی ماحول میں رہتے ہوئے جدید عصری علوم سائنس، طب، کیمیا، اور صناعت وغیرہ کے حاصل کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں۔المستفتیمولوی نورمحمدنور

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! تعلیم وتربیت کے حوالے سے ایک مسلمان کی سب سے اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس قدر دینی علم حاصل کرے کہ جس سے وہ اپنے معمولات میں گناہوں سے بچتے ہوئے فرائض دینیہ کی تکمیل کرسکے۔دین کے بنیادی عقائد وفرائض کاجتنا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے ،اُس کے حصول کے بعد دنیوی تعلیم اور جدیدعصری وسائنسی علوم وفنون کے سیکھنے میں قدرے تفصیل ہے، جس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے: ۱۔جدید علوم وفنون کے جواز یاعدم جواز کابنیادی دارومدار تین چیزوں کے ساتھ ہے:اساتذہ،نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم۔اگر نصاب تعلیم درست ہو،کسی قسم کے خلاف شریعت مواد پرمشتمل نہ ہو۔اساتذہ غلط ذہنیت کے حامل نہ ہوں کہ وہ طلباء کو لامذہبیت یا خلاف شریعت کاموں کی ترغیب نہ دیں ۔طریقہ تعلیم خلاف شریعت نہ ہو،مخلوط تعلیم،بے پردہ ماحول ،آلات موسیقی کااستعمال، خلاف شریعت لباس وغیرہ عوارض خارجیہ سے خالی ہو توپھران جدید عصری علوم وفنون کے سیکھنے کی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ۲۔اگرعصری تعلیم حاصل کرنے سے مقصد مخلوق خدا کی خدمت ہواور خدمت خلق کی نیت سے حاصل کی جائے جیسے میڈیکل کا طالب علم یہ نیت کرے کہ میں ڈاکٹر بن کرعالم انسانیت کی خدمت کروں گا اورمسلمانوں کی تکالیف میں ان کی مدد کروں گا تو اس صورت میں اس حسن نیت کی وجہ سے اسے ثواب بھی ملے گا۔ ۳۔اگرمسلمانوں کے پاس دشمنان اسلام کامقابلہ کرنے کی طاقت اورسامان موجود ہوتواس صورت میں ان عصری وسائنسی علوم کاحصول مباح اورحسن نیت کی صورت میں مستحسن ہوگا۔ ۴۔اوراگرمسلمانوں کے پاس اسلام دشمن عناصر کامقابلہ کرنے کی طاقت نہ ہو جیسا کہ عصرحاضر میں مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ سائنس اورٹیکنالوجی کے اس دور میں مسلمانوں کے پاس وہ دفاعی ہتھیارمیسر نہیں جوغیرمسلم ممالک کے پاس ہیں۔دشمن کامقابلہ کرنے کی تیاری کرنا چونکہ امت مسلمہ کی ایک مشترکہ مذہبی ذمہ داری ہے اس وجہ سے مطلوبہ طاقت کے حصول تک اس قدر سائنسی علوم کا سیکھنا واجب علیٰ الکفایۃ ہے جس سے دشمن کے مقابلے میں دفاعی قوت حاصل ہوسکے۔ اس وجہ سے صورت مسئولہ کے مطابق اسلامی ماحول میں رہتے ہوئے جدید عصری علوم کا سیکھنا بالکل درست ہے۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ۔۔۔۔۔الخ سورۃ الانفال،آیت:60۔ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ ثُمَامَةَ بْنِ شُفَيٍّ الْهَمْدَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ،أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ۔ سنن ابی داؤد،المکتبۃ العصریۃ،بیروت،رقم الحدیث:2514۔ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَّامٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ، صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَمُنْبِلَهُ. وَارْمُوا، وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا. لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ: تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّمْيَ بَعْدَ مَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ، فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا «، أَوْ قَالَ» كَفَرَهَا " سنن ابی داؤد،المکتبۃ العصریۃ،بیروت،رقم الحدیث:2513۔ وأنت تعلم أن الرمي بالنبال اليوم لا يصيب هدف القصد من العدو لأنهم استعملوا الرمي بالبندق والمدافع ولا يكاد ينفع معهما نبل وإذا لم يقابلوا بالمثل عم الداء العضال واشتد الوبال والنكال وملك البسيطة أهل الكفر والضلال فالذي أراه والعلم عند الله تعالى تعين تلك المقابلة على أئمة المسلمين وحماة الدين، ولعل فضل ذلك الرمي يثبت لهذا الرمي لقيامه مقامه في الذب عن بيضة الإسلام ولا أرى ما فيه من النار للضرورة الداعية إليه إلا سببا للفوز بالجنة إن شاء الله تعالى، ولا يبعد دخول مثل هذا الرمي في عموم قوله سبحانه: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ۔۔۔۔الخ روح المعانی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1415ھ،ج:5،ص:220۔ تضمنت الآيات قواعد أو مبادئ أربعة مهمة في العلاقات الدولية بين المسلمين وغيرهم، وهي خطاب لجميع المؤمنين: القاعدة الأولى: الاستعداد الدائم لمواجهة الأعداء، بجميع أوجه الإعداد المادي والمعنوي والفني والمالي، بما يناسب كل عصر وزمان، لأن الجيش المقاتل درع البلاد وسياج الوطن، به يدفع العدوان، وتدحر قوى البغي والشر والتسلط، ولا يعقل أن نواجه الأعداء إلا بنفس المستوى الحربي والسلاح المتطور الذي تعتمد عليه الجيوش المحاربة، وبالقوى المماثلة المناظرة عند الآخرين، لذا وردت كلمة قُوَّةٍ نكرة في قوله تعالى: مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وهي تشمل مختلف أنواع القوى البرية والبحرية والجوية، من حيوان وسلاح وألبسة وآلات ونفقات وتقنيات متطورة، ولما كانت الخيول في الماضي هي أصل الحروب وأقوى القوى وحصون الفرسان، خصها الله بالذكر تشريفا لها، وإذا تغيرت الوسائل الحربية، تغير الواجب لإرهاب عدو الله وعدو المؤمنين الظاهر والعدو الخفي الذي نعلمه أو لا نعلمه وإنما يعلمه الله، فالإرهاب سبب الإعداد، وطريق تحصين البلاد وتوفير الأمن والسلامة.۔۔۔۔الخ التفسیرالوسیط للزحیلی،دارالفکر،دمشق،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:1،ص:817۔ ويختلف هذا باختلاف الزمان والمكان، فالواجب على المسلمين فى هذا العصر: صنع المدافع والطيارات والقنابل والدبابات وإنشاء السفن الحربية والغواصات ونحو ذلك، كما يجب عليهم تعلم الفنون والصناعات التي يتوقف عليها صنع هذه الأشياء وغيرها من قوى الحرب وقد استعمل الصحابة المنجنيق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى غزوة خيبر وغيرها۔۔۔۔الخ تفسیر المراغی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،الطبعۃ الاولیٰ،1365ھ،ج:10،ص:24۔ "جہاد کے لیے اسلحہ اور سامان حرب کی تیاری فرض ہے"کے عنوان کے تحت حضرت مولانامفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قوت ہر زمانہ اور ہرملک ومقام کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے۔اُس زمانہ کے اسلحہ تیر،تلوار،نیزے تھے۔اس کے بعد بندوق ، توپ کا زمانہ آیا۔پھراب بموں اور راکٹوں کا وقت آگیا۔لفظ قوت ان سب کو شامل ہے،اس لیے آج کے مسلمانوں کوبقدر استطاعت ایٹمی قوت،ٹینک اورلڑاکاتیارے ،آب دوزکشتیاں جمع کرنا چاہیئے،کیونکہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہے۔اور اس کے لیے جس علم وفن کو سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اسی نیت سے ہو کہ اس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور کفار کے مقابلے کا کام لیا جائے گاتو وہ بھی جہاد کے حکم میں ہے۔" معارف القرآن،مکتبہ معارف القرآن،کراچی،ج:4،ص:272۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی