جانوروں کے کاروبار کی شرعی حیثیت
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر زید اپنی رقم جانوروں میں کاروبار کرنے کے لیے خالد کو دیتا ہےاورخالد ان پیسوں سے گائے وغیرہ خریدتا ہے توان کے اس کاروبار کی شریعت کی رُو سے جائز صورت کیا ہوگی؟اور ان جانوروں سے حاصل ہونے والے منافع مثلاً دودھ ،بچے وغیرہ میں ان کی شراکت کس طرح سے ہوگی؟ شریعت کی روشنی میں جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں؟ المستفتی قیصرخان محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق جانوروں کے کاروبار کی تین ممکنہ جائز صورتیں ہیں
پہلی صورت
زید اور خالد آپس میں شراکت کی جگہ شروع ہی سےعقد اجارہ کریں۔عقداجارہ کی صورت یہ ہوگی گائے وغیرہ زید ہی کی ہوں گی اورحاصل ہونے والا منافع دودھ وغیرہ بھی سارا کا سارا زید ہی کا ہوگا۔خالد کی حیثیت ایک ملازم کی ہوگی جس کو دیکھ بھال کرنے اور جانوروں کو سنبھالنے کی ایک متعین اور مقررکردہ اجرت ملے گی۔نقصان کی صورت میں سارا نقصان زید ہی کا ہوگا۔
دوسری صورت
زید جانورخرید کر خالد کو نہ دے بلکہ زید رب المال کی حیثیت سے نقد رقم خالد کو دے اور مضاربت مقیدہ کی حیثیت سے خالد کو مضارب بناکر جانور خریدنے کا کہہ دے۔اس صورت میں خالدکو چونکہ یہ رقم مضاربت مقیدہ کی حیثیت سے صرف جانور خریدنے کے لیے ملی ہے تو وہ صرف جانورہی خریدے گا۔نفع دونوں آپس میں ایک متعین تناسب کے اعتبارفی صدی کے حساب سے طے کرے ۔یاد رہے کہ اگرخالد زید کی لگائی ہوئی شرائط کے مطابق ہی کام کررہا تھامگراتفاق سے نقصان ہواتو اس صورت میں سارا نقصان زید ہی کا ہوگا۔
تیسری صورت
زید جانورخرید کر خالد کے ہاتھوں آدھا حصہ بیچ دے یاآدھا اسے ہبہ کر دے ،اس طرح دونوں شریک بن کر شرکت کی وجہ سےاس جانور کے مالک بن جائیں گے ۔اس کے بعد زید یہ جانورخالدکو پالنے کے لیے دیدے۔نفع نقصان میں دونوں برابر کے شریک ہوں گے۔زید خالد سے آدھے حصے کی قیمت بھی لے سکتا ہےاور قیمت معاف بھی کرسکتا ہے۔اس صورت میں نفع نقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔
(ولا) يملك أيضا (تجاوز بلد أو سلعة أو وقت أو شخص عينه المالك) ؛ لأن المضاربة تقبل التقييد المفيد ولو بعد العقد ما لم يصر المال عرضا؛ لأنه حينئذ لا يملك عزله فلا يملك تخصيصه كما سيجيء قيدنا بالمفيد؛ لأن غير المفيد لا يعتبر أصلا كنهيه عن بيع الحال.وأما المفيد في الجملة كسوق من مصر فإن صرح بالنهي صح، وإلا لا (فإن فعل ضمن) بالمخالفة (وكان ذلك الشراء له) ولو لم يتصرف فيه حتى عاد للوفاق عادت المضاربة، وكذا لو عاد في البعض اعتبارا للجزء بالكل۔
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:651۔
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما وكذا لو دفع الدجاج على أن يكون البيض بينهما أو بزر الفيلق على أن يكون الإبريسم بينهما لا يجوز والحادث كله لصاحب الدجاج والبزر. كذا في الوجيز للكردري.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310،ج:4،ص:445۔
ومثله إذا دفع بقرة إلى آخر يعلفها ليكون الحادث بينهما بالنصف فالحادث كله لصاحب البقرة، وله على صاحب البقرة ثمن العلف، وأجر مثله۔
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:6،ص:85۔
الأصل أن رب المال متى شرط على المضارب شرطا في المضاربة، إن كان شرطا لرب المال فيه فائدة فإنه يصح ويجب على المضارب مراعاته والوفاء به، وإذا لم يف به صار مخالفا وعاملا بغير أمره وإن كان شرطا لا فائدة فيه لرب المال فإنه لا يصح ويجعل كالمسكوت عنه كذا في المحيط.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310،ج:4،ص:297۔
ولو شرطا في العقد أن تكون الوضيعة عليهما بطل الشرط، والمضاربة صحيحة والأصل في الشرط الفاسد إذا دخل في هذا العقد أنه ينظر إن كان يؤدي إلى جهالة الربح يوجب فساد العقد؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالة المعقود عليه توجب فساد العقد، وإن كان لا يؤدي إلى جهالة الربح يبطل الشرط وتصح المضاربة وشرط الوضيعة عليهما شرط فاسد؛ لأن الوضيعة جزء هالك من المال، فلا يكون إلا على رب المال، لا أنه يؤدي إلى جهالة الربح، فلا يؤثر في العقد فلا يفسد به العقد۔
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406،ج:6،ص:86۔
دودھ ،اون وغیرہ تمام کے تمام مال مضاربت یاربح میں داخل ہیں،ان کااستعمال بغیر اجازت کے ممنوع ہے۔ان چیزوں کی قیمت حسب ضابطہ فقہاء کبھی تو راس المان میں داخل ہوتی ہےاور کبھی ربح(منافع)میں۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:6،ص:352۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق جانوروں کے کاروبار کی تین ممکنہ جائز صورتیں ہیں
پہلی صورت
زید اور خالد آپس میں شراکت کی جگہ شروع ہی سےعقد اجارہ کریں۔عقداجارہ کی صورت یہ ہوگی گائے وغیرہ زید ہی کی ہوں گی اورحاصل ہونے والا منافع دودھ وغیرہ بھی سارا کا سارا زید ہی کا ہوگا۔خالد کی حیثیت ایک ملازم کی ہوگی جس کو دیکھ بھال کرنے اور جانوروں کو سنبھالنے کی ایک متعین اور مقررکردہ اجرت ملے گی۔نقصان کی صورت میں سارا نقصان زید ہی کا ہوگا۔
دوسری صورت
زید جانورخرید کر خالد کو نہ دے بلکہ زید رب المال کی حیثیت سے نقد رقم خالد کو دے اور مضاربت مقیدہ کی حیثیت سے خالد کو مضارب بناکر جانور خریدنے کا کہہ دے۔اس صورت میں خالدکو چونکہ یہ رقم مضاربت مقیدہ کی حیثیت سے صرف جانور خریدنے کے لیے ملی ہے تو وہ صرف جانورہی خریدے گا۔نفع دونوں آپس میں ایک متعین تناسب کے اعتبارفی صدی کے حساب سے طے کرے ۔یاد رہے کہ اگرخالد زید کی لگائی ہوئی شرائط کے مطابق ہی کام کررہا تھامگراتفاق سے نقصان ہواتو اس صورت میں سارا نقصان زید ہی کا ہوگا۔
تیسری صورت
زید جانورخرید کر خالد کے ہاتھوں آدھا حصہ بیچ دے یاآدھا اسے ہبہ کر دے ،اس طرح دونوں شریک بن کر شرکت کی وجہ سےاس جانور کے مالک بن جائیں گے ۔اس کے بعد زید یہ جانورخالدکو پالنے کے لیے دیدے۔نفع نقصان میں دونوں برابر کے شریک ہوں گے۔زید خالد سے آدھے حصے کی قیمت بھی لے سکتا ہےاور قیمت معاف بھی کرسکتا ہے۔اس صورت میں نفع نقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔
(ولا) يملك أيضا (تجاوز بلد أو سلعة أو وقت أو شخص عينه المالك) ؛ لأن المضاربة تقبل التقييد المفيد ولو بعد العقد ما لم يصر المال عرضا؛ لأنه حينئذ لا يملك عزله فلا يملك تخصيصه كما سيجيء قيدنا بالمفيد؛ لأن غير المفيد لا يعتبر أصلا كنهيه عن بيع الحال.وأما المفيد في الجملة كسوق من مصر فإن صرح بالنهي صح، وإلا لا (فإن فعل ضمن) بالمخالفة (وكان ذلك الشراء له) ولو لم يتصرف فيه حتى عاد للوفاق عادت المضاربة، وكذا لو عاد في البعض اعتبارا للجزء بالكل۔
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:651۔
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما وكذا لو دفع الدجاج على أن يكون البيض بينهما أو بزر الفيلق على أن يكون الإبريسم بينهما لا يجوز والحادث كله لصاحب الدجاج والبزر. كذا في الوجيز للكردري.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310،ج:4،ص:445۔
ومثله إذا دفع بقرة إلى آخر يعلفها ليكون الحادث بينهما بالنصف فالحادث كله لصاحب البقرة، وله على صاحب البقرة ثمن العلف، وأجر مثله۔
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:6،ص:85۔
الأصل أن رب المال متى شرط على المضارب شرطا في المضاربة، إن كان شرطا لرب المال فيه فائدة فإنه يصح ويجب على المضارب مراعاته والوفاء به، وإذا لم يف به صار مخالفا وعاملا بغير أمره وإن كان شرطا لا فائدة فيه لرب المال فإنه لا يصح ويجعل كالمسكوت عنه كذا في المحيط.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310،ج:4،ص:297۔
ولو شرطا في العقد أن تكون الوضيعة عليهما بطل الشرط، والمضاربة صحيحة والأصل في الشرط الفاسد إذا دخل في هذا العقد أنه ينظر إن كان يؤدي إلى جهالة الربح يوجب فساد العقد؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالة المعقود عليه توجب فساد العقد، وإن كان لا يؤدي إلى جهالة الربح يبطل الشرط وتصح المضاربة وشرط الوضيعة عليهما شرط فاسد؛ لأن الوضيعة جزء هالك من المال، فلا يكون إلا على رب المال، لا أنه يؤدي إلى جهالة الربح، فلا يؤثر في العقد فلا يفسد به العقد۔
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406،ج:6،ص:86۔
دودھ ،اون وغیرہ تمام کے تمام مال مضاربت یاربح میں داخل ہیں،ان کااستعمال بغیر اجازت کے ممنوع ہے۔ان چیزوں کی قیمت حسب ضابطہ فقہاء کبھی تو راس المان میں داخل ہوتی ہےاور کبھی ربح(منافع)میں۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:6،ص:352۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی