تین بیٹوں اور ایک بیٹی میں تقسیم میراث

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسماۃ گل ریبان کاانتقال ہواہے۔انتقال کے وقت مرحومہ کے ورثاء میں سے تین بیٹے پرویزخان، محمد یونس، محمدزبیر اورایک بیٹی مسماۃ بخت زیبا بقید حیات تھے۔مرحومہ گل ریبان کا ایک بیٹامسمی انورخان کامرحومہ کی وفات سے تین ماہ پہلے انتقال ہوا ہے۔علاوہ ازیں مرحومہ کی سوتیلی اولاد بھی ہے یعنی مرحومہ کے شوہر کی دوسری بیوی کی اولاد۔مذکورہ بالاصورت حال کومدنظر رکھتے ہوئے مرحومہ گل ریبان کے شرعی ورثاء کون کون ہوں گے ؟اور ہرایک کو کتنا حصہ ملے گا؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی محمد زبیر محلہ دولت زئی،گاؤں بیسک گدون 0314-7650341

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال مرحومہ کی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے اورمرحومہ کے ذمے کوئی قرضہ ہو(مثلاً زندگی میں کسی سے کوئی اُدھار لیا ہوغیرہ )توقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحومہ نےکوئی جائز وصیت کی ہو توایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل اثاثہ جات منقولہ وغیرمنقولہ کےکل سات حصے کیے جائیں گے جن میں سے ہر ایک بیٹے کو دو دو حصے اور بیٹی کو ایک  حصہ ملے گا۔مسمی انورخان کاانتقال چونکہ مرحومہ گل ریبان کی زندگی میں ہوا ہے اس وجہ سےبوجہ محرومیت کے مرحوم انورخان کے ورثاء کو مرحومہ گل ریبان کی میراث میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔علاوہ ازیں مرحومہ گل ریبان کی سوتیلی اولاد بھی مرحومہ کی میراث سے محروم ہوں گی۔

پرویزخان

محمدیونس

محمدزبیر

بخت زیبا

مرحوم انورخان

سوتیلی اولاد

02 حصے

02 حصے

02 حصے

01 حصہ

محروم

محروم

28.5 فیصد

28.5 فیصد

28.5 فیصد

14.29فیصد

محروم

محروم

 

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ(سورۃ النسآء)

وللارث شروط ثلاثۃ۔۔۔۔ثانیھا:تحقق حیاۃ الوارث بعد موت المورث۔۔۔۔الخ

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،دارالسلاسل،الکویت،الطبعۃ الثانیۃ،1404ھ،ج:3،ص:22۔

والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح.، وموضوعه: التركات، وغايته: إيصال الحقوق لأربابها، وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي۔۔۔۔الخ

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:758۔

اما لاولادالام فاحوال ثلاث :السدس للواحد والثلث بین الاثنین فصاعداً ذکورھم واناثھم فی القسمۃ والاستحقاق سوآء ویسقطون بالولدو ولدالابن وان سفل۔۔۔۔اماللزوجات فحالتان:الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد وولد الابن وان سفل والثمن مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔وامالبنات الصلب فاحوال ثلاث :النصف للواحدۃ والثلثان للاثنتین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الانثیین۔۔۔۔واماللام فاحوال ثلاث:السدس مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔الخ

السراجیۃ فی المیراث،مکتبۃ المدینۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،2017ء،ص:19،20،21،26۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی