تقسیم وراثت کے ایک سوال کاجواب

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد مرحوم مسمی عطاء الرحمٰن نے اپنے لیے ذاتی طور پر اپنے ذاتی پیسوں سے ایک کنال زمین خریدی تھی،جس کی قیمت موجودہ اعتبار سے چالیس لاکھ 4000000ہے۔1979میں میرے والد صاحب کاانتقال ہوگیا۔وفات کے وقت میرے والد صاحب کے والدین یعنی میرے دادا جان اور دادی جان دونوں بقید حیات تھے۔ علاوہ ازیں وفات کے وقت میرے والد صاحب کی اولادمیں ہم دو بھائی اور ایک بہن کے علاوہ میرے والد صاحب کے پانچ بھائی اور تین بہنیں یعنی میرے پانچ چچا اور تین پھوپھیاں بھی زندہ تھیں۔1993 میں میرے دادا جان کاانتقال ہوا ہے ۔دادا جان کے انتقال کے وقت میری دادی،دو چچا اور تین پھوپھیاں زندہ تھیں۔1998 میں میری دادی کابھی انتقال ہوا ہے ،دادی کے وفات کے وقت بھی میرے یہی دو چچا اور تین پھوپھیاں زندہ تھیں۔اس مذکورہ بالا صورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ میرے والد صاحب کی خرید کردہ ایک کنال زمین میں ان ورثاء میں سے ہرایک کو کتنا کتناحصہ ملےگا؟بینوافتوجروا مولانافریدالحق کوٹھا صوابی

جواب :-

 

الجواب باسم ملہم الصواب

حامداً مصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق سب سے پہلے مسمی عطاء الرحمٰن مرحوم کی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحوم کے حقوق متقدمہ  یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے اورمرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہوتوقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعداس ایک  کنال زمین جس کی مالیت چالیس لاکھ (4000000)روپے ہے،کومسمی عطاء الرحمٰن کے شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔صورت مسئولہ کے مطابق مسمی عطاء الرحمٰن کے ورثاء اس کی بیوی،دو بیٹے،ایک بیٹی اور والدین ہوں گے جبکہ اس کے پانچ بھائی اور تین بہنیں اس کی میراث سے محروم ہوں گے۔بیوی کوثمن،والد کو سدس،والدہ کو سدس اور بقیہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی میں عصبہ ہونے کی حیثیت سے للذکرمثل حظ الانثیین کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔کل مال کے 120حصے بنیں گے جن میں سے بیوی کو 15،والد کو20،والدہ کو20،بیٹی کو13اور بیٹوں میں سے ہرایک کو26،26حصے ملیں گے۔پلاٹ کی کل مالیت چونکہ 4000000روپے ہے توبیوی کو500000،والد کو 666666،والدہ کو666666،بیٹی کو433333اور ہر ایک بیٹے کو 866666روپے ملیں گے۔

اس کے بعد1993 میں جب آپ کے داداجان یعنی مسمی عطاء الرحمٰن کے والد کاانتقال ہواتواس کے وقت آپ کی دادی، دوچچااور تین پھوپھیاں زندہ تھیں تو آپ کے دادا کی میراث ان ہی لوگوں میں تقسیم ہوگی اور آپ دو بھائی اورایک بہن یعنی مسمی عطاء الرحمٰن کی اولاد کوداداکی میراث میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔یہاں پر بھی مرحوم کی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے اورمرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہوتوقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد مال کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔دادا کی میراث میں دادی  یعنی اس کی زوجہ  کو ثمن اورمابقی آپ کے دو چچا اور تین پھوپھیوں میں عصبہ ہونے کی حیثیت سے للذکرمثل حظ الانثیین کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔کل مال کو 8حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جس میں سے آپ کی دادی یعنی مرحوم کی بیوی کو 01،ہر ایک بیٹے کو 02،02اور ہر ایک بیٹی کو 01،01حصہ ملے گا۔آپ کے داداکاحصہ 666666روپے تھا اس وجہ سے اب اس رقم میں سے اس کی بیوی یعنی آپ کی دادی کو 83333،ہر ایک بیٹی کو83333 اور ہرایک بیٹے کو166666روپے ملیں گے۔

1997میں جب آپ کی دادی کاانتقال ہوا تواس وقت آپ دوبھائی،ایک بہن ،آپ کے دوچچا اور تین پھوپھیاں حسب سابق زندہ تھیں۔آپ دو بھائی اور ایک بہن کو دادی کے میراث میں سے کچھ بھی نہیں ملے گااور سارا ترکہ آپ کے دو چچا اور تین پھوپھیوں میں تقسیم ہوگا۔ مرحومہ کی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے اور مرحومہ کے ذمے کوئی قرضہ ہوتوقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحومہ نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد کل میراث کو 07حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک پھوپھی کوایک ایک حصہ اور ہر ایک چچاکو دو دوحصے ملیں گے۔دادی کوآپ کے والد کے میراث میں سے 666666روپے ملے تھےاورآپ کے دادا کی میراث میں سے 83333روپے ملے تھے جس کی وجہ سےاس کا کل ترکہ 749999روپے بن گیا۔اب اس 749999میں سے ہر ایک چچا کو214285اور ہر ایک پھوپھی کو 107142روپے ملیں گے۔

 

پلاٹ کی موجودہ مالیت چالیس لاکھ (4000000)میں سے ہرایک وارث کاجوحصہ  بنتا ہے وہ مندرجہ ذیل ٹیبل میں ملاحظہ کریں:

نمبرشمار

ورثاء کی تفصیل

سائل کے والد کے میراث میں سے ہر ایک کاحصہ

سائل کے دادا کے میراث میں سے ہرایک کاحصہ

سائل کی دادی کی میراث میں سے ہر   ایک کاحصہ

ہر ایک وارث  کا مجموعی حصہ

1

سائل

866666

محروم

محروم

866666

2

سائل کا بھائی

866666

محروم

محروم

866666

3

سائل کی بہن

433333

محروم

محروم

433333

4

سائل کی والدہ

500000

محروم

محروم

500000

5

سائل کاایک چچا

محروم

166666

214285

380951

6

سائل کادوسراچچا

محروم

166666

214285

380951

7

سائل کی ایک پھوپھی

محروم

83333

107142

190475

8

سائل کی دوسری پھوپھی

محروم

83333

107142

190475

9

سائل کی تیسری پھوپھی

محروم

83333

107142

190475

 

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ.                                                                                         سورۃ النساء،آیت:12

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔

صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6732۔

قَوْله: (ألْحقُوا الْفَرَائِض) أَي: الْأَنْصِبَاء الْمقدرَة فِي كتاب الله، وَهِي النّصْف وَالرّبع وَالثمن وَالثُّلُثَانِ وَالثلث وَالسُّدُس، وأصحابها مَذْكُورَة فِي الْفَرَائِض. قَوْله: (بِأَهْلِهَا) هُوَ من يَسْتَحِقهَا بِنَصّ الْقُرْآن، وَوَقع فِي رِوَايَة روح بن الْقَاسِم عَن ابْن طَاوُوس: اقسموا المَال بَين أهل الْفَرَائِض على كتاب الله، أَي: على وفْق مَا أنزل الله فِي كِتَابه. قَوْله: (فَمَا بَقِي) أَي: من أَصْحَاب الْفَرَائِض. قَوْله: (فَهُوَ لأولى رجل) قَالَ النَّوَوِيّ المُرَاد بِالْأولَى الْأَقْرَب وإلاَّ لخلا عَن الْفَائِدَة، لأَنا لَا نَدْرِي من هُوَالأحق. وَقَالَ الْخطابِيّ الأولى الْأَقْرَب رجل من الْعصبَة.۔۔۔۔الخ

عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:23،ص:236۔

العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف:جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا،ثم الأخ لأب وأم،ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم،ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم،ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.۔۔۔۔الخ

فتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:6،ص:451۔

وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه۔۔۔۔الخ

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:758۔

اماللزوجات فحالتان:الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد وولد الابن وان سفل والثمن مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔وامالبنات الصلب فاحوال ثلاث :النصف للواحدۃ والثلثان للاثنتین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الانثیین۔۔۔۔واماللام فاحوال ثلاث:السدس مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔الخ

السراجیۃ فی المیراث،مکتبۃ المدینۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،2017ء،ص:19،20،21،26۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحرار اُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی