تقسیم میراث کا مطالبہ کرنے کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے پڑوس میں دو بھائیوں کا قتل ہوا ہے اور قاتل کے ساتھ ابھی قانونی کیس چل رہاہے۔ان مقتول دو بھائیوں میں سے بڑے بھائی کے دو بیٹے ہیں اور دوسرے کی کوئی اولاد نہیں ہے۔جس بھائی کی کوئی اولاد نہیں اس کی بیوہ یہ مطالبہ کررہی ہے کہ مجھے میرے مقتول شوہرکی میراث میں سے میرا حصہ دیا جائے۔چونکہ ابھی تک قاتل کے ساتھ معاملات حل نہیں ہوئے ہیں تو کیا اس دوران تقسیم میراث کایہ مطالبہ درست ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی مولانامحمد قاسم کوٹھا،صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال مرحوم کی بیوہ کا اپنے شوہر کی میراث میں سے اپناحصہ طلب کرنا بالکل درست اور جائز ہے ۔تقسیم میراث کے ساتھ چونکہ کئی ایک لوگوں کے حقوق متعلق ہوتے ہیں اس وجہ سے جتنا جلدی ممکن ہو،میراث کو تقسیم کردینا چاہیے۔قاتل کے ساتھ عدالتی کیس وغیرہ کاچلنا کوئی ایسا عذر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی ایک وارث کے مطالبہ کے باوجود بھی تقسیم میراث کو مؤخرکیا جائے۔بغیر کسی معقول عذر کے تقسیم میراث کو مؤخر کرکے مرحوم کی بیوہ کو اذیت دینا جائز نہیں ہے۔
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا۔ سورۃ النساء،آیت:07۔
عن عمران بن سليم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من قطع ميراثا فرضه الله قطع الله ميراثه في الجنة۔
مسند سعید بن منصور،الدارالسلفیہ،الہند،الطبعۃ الاولیٰ،1403ھ،رقم الحدیث:286۔
(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1412ھ،ج:06،ص:260۔
إذَا طَلَبَ أَحَدُ الشَّرِيكَيْنِ الْقِسْمَةَ وَامْتَنَعَ الْآخَرُ فَيَقْسِمُهُ الْقَاضِي جَبْرًا إنْ كَانَ الْمَالُ الْمُشْتَرَكُ قَابِلًا لِلْقِسْمَةِ وَإِلَّا فَلَا يَقْسِمُهُ۔
دررالحکام فی شرح المجلۃ الاحکام،دارالجیل،الطبعۃ الاولیٰ،1411ھ،ج:03،ص:128۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال مرحوم کی بیوہ کا اپنے شوہر کی میراث میں سے اپناحصہ طلب کرنا بالکل درست اور جائز ہے ۔تقسیم میراث کے ساتھ چونکہ کئی ایک لوگوں کے حقوق متعلق ہوتے ہیں اس وجہ سے جتنا جلدی ممکن ہو،میراث کو تقسیم کردینا چاہیے۔قاتل کے ساتھ عدالتی کیس وغیرہ کاچلنا کوئی ایسا عذر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی ایک وارث کے مطالبہ کے باوجود بھی تقسیم میراث کو مؤخرکیا جائے۔بغیر کسی معقول عذر کے تقسیم میراث کو مؤخر کرکے مرحوم کی بیوہ کو اذیت دینا جائز نہیں ہے۔
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا۔ سورۃ النساء،آیت:07۔
عن عمران بن سليم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من قطع ميراثا فرضه الله قطع الله ميراثه في الجنة۔
مسند سعید بن منصور،الدارالسلفیہ،الہند،الطبعۃ الاولیٰ،1403ھ،رقم الحدیث:286۔
(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1412ھ،ج:06،ص:260۔
إذَا طَلَبَ أَحَدُ الشَّرِيكَيْنِ الْقِسْمَةَ وَامْتَنَعَ الْآخَرُ فَيَقْسِمُهُ الْقَاضِي جَبْرًا إنْ كَانَ الْمَالُ الْمُشْتَرَكُ قَابِلًا لِلْقِسْمَةِ وَإِلَّا فَلَا يَقْسِمُهُ۔
دررالحکام فی شرح المجلۃ الاحکام،دارالجیل،الطبعۃ الاولیٰ،1411ھ،ج:03،ص:128۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی