تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانے کی شرعی حیثیت

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سکولز،کالجز اور بعض مدارس اسلامیہ میں بھی یہ رواج چل پڑا ہے کہ جب طلبہ غیرحاضری کرتے ہیں یا ان سے کوئی اور جرم سرزد ہوتا ہے توان سے جرمانہ لیا جاتا ہے،کیاشریعت کی رُو سے مالی جرمانہ لینا جائز ہے یا نہیں؟بینوا فتوجروا المستفتی محمدآصف خان ٹوپی

جواب :-

الجواب باسم ملہم الصواب

حامداً ومصلیاً!

احناف کے راحج اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق تعزیز بالمال یعنی مالی جرمانہ لیناجائز نہیں ہےاس وجہ سے جرمانہ لینے کے اس معمول کو فوراًختم کیا جائے۔جن بچوں سے جرمانے کی رقم جمع کی گئی ہے وہ رقم ان بچوں کو واپس کی جائے۔ تعلیمی اداروں میں غیرحاضری یاکسی دوسری کوتاہی کی وجہ سے مالی جرمانہ لینے کی بجائے کوئی اورمتبادل صورت اختیار کی جائے۔ البتہ اگر کسی ادارے میں مالی جرمانہ کے علاوہ کوئی اور متبادل صورت نہ ہو تو وہاں پر  امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے کہ وقتی طور پر دباؤ ڈالنے اور اصلاح کی غرض سے جرمانہ لیا جائے اور پھر جب یہ معلوم ہوجائے کہ اب اس طالب علم کی اصلاح ہو چکی ہے تو سال کے آخر میں وہ رقم اسےپوری واپس کی جائے۔

ولم يذكر محمد التعزير بأخذ المال وقد قيل روي عن أبي يوسف أن التعزير من السلطان بأخذ المال جائز كذا في الظهيرية وفي الخلاصة سمعت عن ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي ذلك أو الوالي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزيره بأخذ المال۔وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال۔

البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:5،ص:44۔

مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه۔ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.

حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:4،ص:61۔

طالب علم کا مدرسہ وغیرہ سے انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کثرت سے غیرحاضر رہنا یادیگر کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب کرنا اگرچہ موجب سزا ہے مگریہ سزا جسمانی حد تک محدود ہونی چاہیئے،مالی جرمانہ شرعاً صحیح نہیں ۔۔۔۔الخ

فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،طبع ہفتم،1431ھ،ج:5،ص:172۔

بطور سزا یا غلطی سدھارنے کی غرض سے کسی بھی ادارہ،محکمہ یامدرسہ کا مالی جرمانہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ہاں البتہ بطور سزا اور جرمانہ کے متعین رقم وصول کرلی جائے اور سال کے آخرمیں وہ پیسہ واپس کیا جائےتو اس طرح جائز اور درست ہے ۔

فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،انڈیا،ج:17،ص:155۔

 

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی