تجدید نکاح کی شرعی حیثیت

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ منگنی میں ایک دفعہ نکاح گواہوں کی موجودگی میں پڑھایا جا چکا ہے، ابھی رخصتی کے وقت نکاح کی تجدید ضروری ہے یا نہیں؟اور اگرکوئی تجدید نکاح کر لے تو کیا یہ جائزہوگا یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں تفصیلی جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراًالمستفتیمولانا فریدالحق کوٹھا صوابی

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق جب ایک دفعہ منگنی میں نکاح ہو چکا ہے اور اُن اسباب میں سے کوئی ایسا سبب موجود نہیں جن کی وجہ سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے(جیسے شوہرکابیوی کو طلاق دینایامیاں بیوی میں سے کسی ایک سے العیاذ باللہ کلمہ کفرکاصادرہونا وغیرہ وغیرہ) تورخصتی کے وقت تجدید نکاح ضروری نہیں ،کیونکہ نکاح سابق برقرارہے۔ہاں اگرکوئی تجدید نکاح کرلیتا ہے تو شریعت کی رُو سے ایسا کرنا جائز ہے بلکہ بقول علامہ شامیؒ دینی احکامات سےناواقف لوگوں کے لیے تجدید نکاح احوط ہے۔ دین سے ناواقف لوگ اپنی گفتگو میں عام طور پر ایسے الفاظ اور کلمات کااستعمال کرتے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ایمان اورنکاح خطرے میں پڑ جاتے ہیں بلکہ بسا اوقات ختم ہی ہوجاتے ہیں ۔اس وجہ سے احتیاط کاتقاضا ہے کہ دینی احکامات سے ناواقف لوگ تجدید نکاح کر لیا کریں۔ ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ وَلَا يُقَاعِدُونَهُ، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَانَبِيَّ اللهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ، قَالَ:نَعَمْ قَالَ: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ، أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ، أُزَوِّجُكَهَا، قَالَ:نَعَمْ قَالَ:وَمُعَاوِيَةُ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْكَ، قَالَ:نَعَمْ قَالَ:وَتُؤَمِّرُنِي حَتَّى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ، كَمَا كُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ،قَالَ:نَعَمْ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: وَلَوْلَا أَنَّهُ طَلَبَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ، لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُسْأَلُ شَيْئًا إِلَّا قَالَ:نَعَمْ۔ صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:2501۔ "قلت" قد تأول بعض من صح عنده هذا الحديث بأن قال إن أبا سفيان إنما طلب من النبي صلَّى الله عليه وسلم أن يجدد معه عقدًا على ابنته المذكورة ظنًّا منه أن ذلك يصح لعدم معرفته بالأحكام الشرعية لحداثة عهده بالإسلام واعتذر عن عدم تأميره مع وعده له بذلك لأن الوعد لم يكن مؤقتًا وكان يرتقب إمكان ذلك فلم يتيسر له ذلك إلى أن توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم أو لعله ظهر له مانع شرعي منع من توليته الشرعية وإنما وعده بإمارة شرعية فتخلف لتخلف شرطها والله سبحانه وتعالى أعلم الکوکب الوھاج شرح صحیح مسلم،دارالمنہاج،الطبعۃ الاولیٰ،1430،ج:24،ص:131۔ مذکورہ بالا روایت سے حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم تجدید نکاح کے جواز پراستدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے تجدید کی درخواست کی توآپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوئی انکار نہیں فرمایا۔ فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زمزم پبلشرز،کراچی ،اشاعت سوم،2016،ج:3،ص:585۔ ولو تزوج امرأة بألف درهم ثم جدد النكاح بألفين اختلفوا فيه ذكر الشيخ الإمام المعروف بخواهر زاده رحمه الله تعالى في كتاب النكاح أن على قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى لا تلزمه الألف الثانية ومهرها ألف درهم وعلى قول أبي يوسف رحمه الله تعالى تلزمه الألف الثانية وبعضهم ذكر الخلاف على عكس هذا قال بعض مشايخنا رحمهم الله تعالى: المختار عندنا أن لا تلزمه الألف الثانية، كذا في الظهيرية. وفتوى القاضي الإمام على أنه لا يجب بالعقد الثاني شيء إلا إذا عنى بالزيادة في المهر فحينئذ يجب المهر الثاني، كذا في الخلاصةوقيل لو وهبت مهرها ثم جدد المهر لا يجب الثاني بالاتفاق وقيل على الاختلاف، كذا في معراج الدراية، وإن جدد النكاح للاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع، كذا في الوجيز للكردري۔ الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310،ج:1،ص:313۔ ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان؛ لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهم عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير. ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:1،ص:42۔ حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں: جب پہلا نکاح ہوگیاتواب دوسرے نکاح کی ضرورت نہیں ہے لیکن تجدید کرنا چاہے تواس کی اجازت ہے۔ فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زمزم پبلشرز،کراچی ،اشاعت سوم،2016،ج:3،ص:585۔ حضرت مولانامفتی شبیراحمد القاسمی صاحب فرماتے ہیں: عاقل بالغ لڑکے اور لڑکی نے گواہوں کی موجودگی میں شرعی اصول کے مطابق جونکاح کیاوہ نکاح منعقد ہوگیا،پھر دونوں طرف کے خاندان کے لوگ باضابطہ طور پر دوبارہ نکاح کرکے باعزت طریقہ سے دوبارہ رخصت کرنا چاہتے ہیں تواس میں کوئی حرج نہیں ہےایسا کرنا بھی جائز ہے اور دوبارہ مہرمقررکرنے کی بھی گنجائش ہے۔۔۔۔۔الخ ایک دوسرے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: عقد نکاح پہلے ہوچکا ہے اس لیے دوبارہ عقدنکاح کی ضرورت نہیں ہے ،اگرعقد نکاح کر لے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،ج:13،ص:134،136۔ شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی محمد فرید صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ تجدید درست اورموافق شریعت ہےاورتجدید ہرماہ یانصف ماہ میں جائز ہے۔ فتاویٰ فریدیہ،طبع دوم،1430ھ،ج:4،ص:425۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ابوالاحرار اُتلوی دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی