بیٹا،بیٹی اور بیوی میں تقسیم میراث
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مرحوم غلام نور کی دو بیویاں تھیں ،ان میں سے ایک زوجہ مرحوم کی زندگی میں ہی فوت ہوئی ہے اور دوسری بقید حیات ہے۔جو بیوی زندہ ہے اس کی کوئی اولاد نہیں اورجو زوجہ مرحوم کی زندگی میں ہی فوت ہوئی ہے اس کاایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں لیکن ان میں سے ایک بیٹی بھی مرحوم غلام نور کی زندگی میں فوت ہوئی ہے۔ اس وقت غلام نور کے ورثاء میں ایک بیوی،ایک بیٹا اور ایک بیٹی موجود ہیں۔مرحوم غلام نور کی ایک کنال زمین تھی جس پر اس کے بیٹے نے اپنی ذاتی رقم سے اپنے لیے گھر بنایا ہے۔مذکورہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ اس گھر میں مرحوم کی بیوی اور بیٹی کا کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟اور اگر بنتا ہے تو کتنا کتنا حصہ بنتا ہے؟شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی مولانامحمد زوہیب ٹوپی صوابی 0336-7429143
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال مرحوم غلام نور کی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے اورمرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہو(مثلاً زندگی میں کسی سے کوئی اُدھار لیا ہویا بیویوں کا مہر ابھی تک ادا نہ کیا ہوغیرہ )توقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو توایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کےبعد ایک کنال پر مشتمل گھر کے زمین کی قیمت لگائی جائے گی اور پھر اس قیمت کےکل چوبیس حصے کیے جائیں گے جن میں سے تین حصے بیوی کو،چودہ حصے بیٹے کے اور سات حصے بیٹی کو ملیں گے۔مرحوم کی ایک بیوی اور ایک بیٹی کا انتقال چونکہ مرحوم کی زندگی میں ہوا ہے اس وجہ سے مرحوم کی میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں بنتا۔صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ گھر کی تعمیر بیٹے نے اپنے لیے اپنی ذاتی رقم سے کی ہے اس وجہ سے تعمیر میں مرحوم کی بیوی اور بیٹی کا اس کے ساتھ کوئی حصہ نہیں بنتا،لیکن چونکہ جس زمین پر گھر تعمیر کیا ہے وہ زمین مرحوم غلام نور کی تھی اس وجہ سے زمین میں مرحوم کی بیوی اور بیٹی کا حصہ موجود ہے۔دو عادل اور تجربہ کار لوگوں کو(جن کو گھروں اور زمین کی قیمتوں کا تجربہ اور علم ومہارت ہو) بلایا جائے اور وہ اس گھر کے زمین کی قیمت لگائیں گے اور پھر اس قیمت کو مندرجہ ذیل تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔
بیوی
بیٹا
بیٹی
ثمن
عصبہ
عصبہ
03 حصے
14 حصے
07 حصے
12.50 فیصد
58.33 فیصد
29.17 فیصد
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ(سورۃ النسآء)
وللارث شروط ثلاثۃ۔۔۔۔ثانیھا:تحقق حیاۃ الوارث بعد موت المورث۔۔۔۔الخ
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،دارالسلاسل،الکویت،الطبعۃ الثانیۃ،1404ھ،ج:3،ص:22۔
والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح.، وموضوعه: التركات، وغايته: إيصال الحقوق لأربابها، وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:758۔
اما لاولادالام فاحوال ثلاث :السدس للواحد والثلث بین الاثنین فصاعداً ذکورھم واناثھم فی القسمۃ والاستحقاق سوآء ویسقطون بالولدو ولدالابن وان سفل۔۔۔۔اماللزوجات فحالتان:الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد وولد الابن وان سفل والثمن مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔وامالبنات الصلب فاحوال ثلاث :النصف للواحدۃ والثلثان للاثنتین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الانثیین۔۔۔۔واماللام فاحوال ثلاث:السدس مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔الخ
السراجیۃ فی المیراث،مکتبۃ المدینۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،2017ء،ص:19،20،21،26۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال مرحوم غلام نور کی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے اورمرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہو(مثلاً زندگی میں کسی سے کوئی اُدھار لیا ہویا بیویوں کا مہر ابھی تک ادا نہ کیا ہوغیرہ )توقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو توایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کےبعد ایک کنال پر مشتمل گھر کے زمین کی قیمت لگائی جائے گی اور پھر اس قیمت کےکل چوبیس حصے کیے جائیں گے جن میں سے تین حصے بیوی کو،چودہ حصے بیٹے کے اور سات حصے بیٹی کو ملیں گے۔مرحوم کی ایک بیوی اور ایک بیٹی کا انتقال چونکہ مرحوم کی زندگی میں ہوا ہے اس وجہ سے مرحوم کی میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں بنتا۔صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ گھر کی تعمیر بیٹے نے اپنے لیے اپنی ذاتی رقم سے کی ہے اس وجہ سے تعمیر میں مرحوم کی بیوی اور بیٹی کا اس کے ساتھ کوئی حصہ نہیں بنتا،لیکن چونکہ جس زمین پر گھر تعمیر کیا ہے وہ زمین مرحوم غلام نور کی تھی اس وجہ سے زمین میں مرحوم کی بیوی اور بیٹی کا حصہ موجود ہے۔دو عادل اور تجربہ کار لوگوں کو(جن کو گھروں اور زمین کی قیمتوں کا تجربہ اور علم ومہارت ہو) بلایا جائے اور وہ اس گھر کے زمین کی قیمت لگائیں گے اور پھر اس قیمت کو مندرجہ ذیل تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔
بیوی |
بیٹا |
بیٹی |
ثمن |
عصبہ |
عصبہ |
03 حصے |
14 حصے |
07 حصے |
12.50 فیصد |
58.33 فیصد |
29.17 فیصد |
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ(سورۃ النسآء)
وللارث شروط ثلاثۃ۔۔۔۔ثانیھا:تحقق حیاۃ الوارث بعد موت المورث۔۔۔۔الخ
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،دارالسلاسل،الکویت،الطبعۃ الثانیۃ،1404ھ،ج:3،ص:22۔
والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح.، وموضوعه: التركات، وغايته: إيصال الحقوق لأربابها، وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:758۔
اما لاولادالام فاحوال ثلاث :السدس للواحد والثلث بین الاثنین فصاعداً ذکورھم واناثھم فی القسمۃ والاستحقاق سوآء ویسقطون بالولدو ولدالابن وان سفل۔۔۔۔اماللزوجات فحالتان:الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد وولد الابن وان سفل والثمن مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔وامالبنات الصلب فاحوال ثلاث :النصف للواحدۃ والثلثان للاثنتین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الانثیین۔۔۔۔واماللام فاحوال ثلاث:السدس مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔الخ
السراجیۃ فی المیراث،مکتبۃ المدینۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،2017ء،ص:19،20،21،26۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی