بیوی کو ایک دو تین کہہ کر طلاق دینے کا حکم
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں یہ کہا کہ
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ،اورچونکہ یہ طلاق مغلظہ ہے اس وجہ سے بغیرحلالہ شرعیہ کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔ قال الحصکفی:والطلاق یقع بعدد قرن بہ لا بہ نفسہ عند ذکر العدد وعند عدمہ الوقوع بالصیغہ۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارعالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزیع،ریاض،1423ھ،ج:4،ص:513۔ ویقع بعدد قرن بالطلاق لابہ۔۔۔۔الخ مجمع الانھر،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،1419ھ،ج:1،ص:171۔ سوال:شخصے درحالت غضب ومذاکرہ طلاق زوجہ خویش رامخاطب کردوگفت "یک دو سہ توما دروخواہرمن ہستی"وکدام نیت ازطلاق وغیرہ نداشتہ بود،آیابگفتن الفاظ مذکورہ برزوجہ آں طلاق واقع می شود یا نہ؟اگرمی شود پس چند وکدام؟بینوافتوجروا۔اس سوال کے تفصیلی جواب کے آخر میں حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ فرماتے ہیں کہ "تفصیل مذکور سے ثابت ہوا کہ صورت سوال میں تین طلاقیں واقع ہو گئیں"۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:5،ص:171تا176۔ اگر واقعی ایک دو تین میں نے طلاق دی کہا تو بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔اب دوبارہ بلاحلالہ نکاح بھی درست نہیں ہو سکتا۔ فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،انڈیا،پہلاایڈیشن،1437ھ،ج:15،ص:318۔ بنیت طلاق ایک دو تین کہنے سے زید کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں۔۔۔۔الخ کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشر والتحقیق،مرادآباد،انڈیا،اشاعت اول،1436ھ،ج:9،ص:444۔ ایک دو تین سے بھی اگرطلاق ہی مراد ہے توطلاق مغلظہ ہو گئی ،بغیرحلالہ کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ فتاویٰ محمودیہ،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ،کراچی،ج:12،ص:464۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ،اورچونکہ یہ طلاق مغلظہ ہے اس وجہ سے بغیرحلالہ شرعیہ کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔ قال الحصکفی:والطلاق یقع بعدد قرن بہ لا بہ نفسہ عند ذکر العدد وعند عدمہ الوقوع بالصیغہ۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارعالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزیع،ریاض،1423ھ،ج:4،ص:513۔ ویقع بعدد قرن بالطلاق لابہ۔۔۔۔الخ مجمع الانھر،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،1419ھ،ج:1،ص:171۔ سوال:شخصے درحالت غضب ومذاکرہ طلاق زوجہ خویش رامخاطب کردوگفت "یک دو سہ توما دروخواہرمن ہستی"وکدام نیت ازطلاق وغیرہ نداشتہ بود،آیابگفتن الفاظ مذکورہ برزوجہ آں طلاق واقع می شود یا نہ؟اگرمی شود پس چند وکدام؟بینوافتوجروا۔اس سوال کے تفصیلی جواب کے آخر میں حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ فرماتے ہیں کہ "تفصیل مذکور سے ثابت ہوا کہ صورت سوال میں تین طلاقیں واقع ہو گئیں"۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:5،ص:171تا176۔ اگر واقعی ایک دو تین میں نے طلاق دی کہا تو بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔اب دوبارہ بلاحلالہ نکاح بھی درست نہیں ہو سکتا۔ فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،انڈیا،پہلاایڈیشن،1437ھ،ج:15،ص:318۔ بنیت طلاق ایک دو تین کہنے سے زید کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں۔۔۔۔الخ کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشر والتحقیق،مرادآباد،انڈیا،اشاعت اول،1436ھ،ج:9،ص:444۔ ایک دو تین سے بھی اگرطلاق ہی مراد ہے توطلاق مغلظہ ہو گئی ،بغیرحلالہ کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ فتاویٰ محمودیہ،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ،کراچی،ج:12،ص:464۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی