بیع کو فسخ کرتے ہوئے مشتری کا بائع سے اصل رقم کے ساتھ ساتھ کچھ اضافی رقم لینا

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک دوکاندار نے فلور مل کے مالک کے ساتھ2700روپے فی تھیلا کے حساب سے مبلغ 300000(تین لاکھ)کے آٹے کا سودا کیا،اور ساری رقم یکمشت ادا کردی۔ فلورمل کے مالک نے رقم لےلی اور دوکاندار سے کل تک آٹاحوالہ کرنے کا وعدہ کیا۔کل آیا مگردوکاندار کوآٹا نہیں ملا۔دوکاندار نے دوبارہ رابطہ کیا تو فلورمل کے مالک نے کہا کہ کل مل جائے گااوراسی طرح آج کل کرنے میں 15دن گزر گئے۔اس دوران آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ایک آٹے کا تھیلا 3150کامارکیٹ میں فروخت ہونے لگا۔دوکاندار اور فلور مل کے مالک کے مابین جب معاملہ خراب ہوگیا تو دونوں کے مابین ایک جرگہ بیٹھ گیا اور اُس جرگہ والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ اب آٹا مہنگا ہوگیا ہے اور فلومل کے مالک نے 15دن دوکاندار کے 300000روپے بھی استعمال کیے ہیں ،اس وجہ سے اب فلورمل کا مالک دوکاندار کو مبلغ 3960000روپے ادا کرے گا۔ دوکاندار نے اضافی 96000کوآدھا آدھا کیااور کہا کہ مجھے 48000ہی دے دو ،اورباقی آدھا نقصان میں برداشت کرلوں گا۔پھر دوکاندار نے جرگہ والوں کالحاظ کرتے ہوئے اس 48000میں سے مزید20000کم کردیے اور 328000روپے فلورمل کے مالک سے لے لیے۔ اب فلورمل کے مالک کا کہنا ہے کہ دوکاندار نے جو مجھ سے اضافی 28000روپے لیے ہیں یہ سود ہے۔ مذکورہ بالاصورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں یہ بتائیں کہ آیادوکاندار کا فلورمل کے مالک سے یہ اضافی 28000روپے لینا جائز ہے یا نہیں؟بینوافتوجروا المستفتی محمدضمیر

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق جب دوکاندار نےفلور مل کے مالک کے ساتھ2700روپے فی تھیلا کے حساب سے مبلغ 300000(تین لاکھ)کے آٹے کا سودا کیااور ساری رقم یکمشت ادا کردی اور فلور مل کے مالک نے کل آٹا حوالہ کرنا کا وعدہ بھی کیا،توفلورمل کے مالک کی یہ اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وقت مقررہ پرآٹادوکاندار کے حوالے کرتا۔15دن تک ٹال مٹول سے کام لینا نہ صرف وعدہ خلافی ہے بلکہ دوسرے مسلمان کو خواہ مخواہ کی تکلیف دینا ہےجس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔

اب دو صورتوں میں سے کسی ایک کواختیارکیا جائے۔پہلی صورت یہ ہے کہ فلورمل کامالک 2700روپے فی تھیلا کے حساب سے مبلغ 300000کاآٹادوکاندار کےحوالے کرے کیونکہ اسی پراُن دونوں کاباہمی رضامندی سے  عقد ہوا تھا۔دوسری صورت یہ ہے کہ اگر اب فلور مل کا مالک اور دوکاندارباہمی رضامندی سے یہ سوداختم کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکورہ صورت حال سے واضح ہوتا ہےکہ دونوں نے بیع کوختم کرتے ہوئے پیسے واپس کیے ہیں، تو پھر اس صورت میں فلور مل کا مالک دوکاندار کو صرف وہی 300000دینے کاپابند ہے جس پر عقد ہوا تھا۔جرگہ والوں کا قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے 396000پرفیصلہ کرنا اور پھر دوکاندار کا 96000میں سے 28000لے کرباقی معاف کرنا درست نہیں ہے۔دوکاندار پرلازم ہے کہ یہ28000روپے فلورمل کے مالک کو واپس کرے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا۔

سورۃ النسآء،آیت:29۔

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا۔                                                                  سورۃ بنی الاسراء،آیت:34۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔

صحیح بخاری،دارطوق النجاۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:33۔

لأن من شرائطها اتحاد المجلس ورضا المتعاقدين أو الورثة أو الوصي وبقاء المحل القابل للفسخ بخيار فلو زاد زيادة تمنع الفسخ لم تصح۔                                                                 الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:121۔

(قوله: ورضا المتعاقدين) لأن الكلام في رفع عقد لازم، وأما رفع ما ليس بلازم فلمن له الخيار بعلم صاحبه لا برضاه بحر.وحاصله: أن رفع العقد غير اللازم وهو ما فيه خيار لا يسمى إقالة بل هو فسخ؛ لأنه لا يشترط فيه رضاهما فافهم۔                 حاشیہ ابن عابدین، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:121

الْإِقَالَة جَائِزَة فِي البيع بِمثل الثّمن الأول فَإِن شرطا أَكثر مِنْهُ أَو أقل فَالشَّرْط بَاطِل وَيرد مثل الثّمن الأول وهلاك الثّمن لَا يمْنَع صِحَة الْإِقَالَة وهلاك الْمَبِيع يمْنَع عَنْهَا فَإِن هلك بعض الْمَبِيع جَازَت الْإِقَالَة فِي الْبَاقِي۔

الہدایۃ،مطبع محمد علی صبح،قاہرہ،ج:1،ص:137۔

وأما شرائط صحتها فمنها رضا المتعاقدين لأن الكلام في رفع عقد لازم، وأما رفع ما ليس بلازم فلمن له الخيار بعلم صاحبه لا برضاه، ومنها بقاء المحل لما سيأتي أن المبيع إذا هلك لم تصح الإقالة، ومنها قبض بدلي الصرف في إقالة الصرف أما على قول أبي يوسف فظاهر لأنها بيع، وأما على أصلهما فلأنها بيع في حق ثالث، وهو حق الشرع، ومنها أن يكون المبيع قابلا للفسخ بخيار من الخيارات فلو ازداد زيادة تمنع الفسخ لم تصح الإقالة خلافا لهما، ولا يشترط لصحتها بقاء المتعاقدين فتصح إقالة الوارث والوصي ولا تصح إقالة الموصى له كما في القنية، ومنها اتحاد المجلس، وعليه يتفرع ما في القنية جاء الدلال بالثمن إلى البائع بعدما باعه بالأمر المطلق فقال البائع لا أدفعه بهذا الثمن فأخبر به المشتري فقال أنا لا أزيده أيضا لا ينفسخ لأنه ليس من ألفاظ الفسخ لأن اتحاد المجلس في الإيجاب، والقبول شرط في الإقالة، ولم يوجد.ومنها أن لا يهب البائع الثمن للمشتري قبل قبضه في شراء المأذون فلو وهبه له لم تصح الإقالة بعدها كما في خزانة المفتين، ومنها أن لا يكون البيع بالكثير من القيمة في بيع الوصي فإن كان لم تصح إقالته كما فيها أيضا.

البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،ج:6،ص:110۔

بیع فسخ کرتے وقت اگربائع اور مشتری قیمت کم کرنے کی شرط لگاتے ہیں تودونوں کی رضامندی سے بیع فسخ ہوکربائع مشتری کو پوری رقم واپس کرے گا ،رقم منہا کرنے کی شرط کالعدم ہوکرباطل رہے گی۔

جامع الفتاویٰ،ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان،1429ھ،ج:6،ص:168۔

مگر جب بکر نے بیع فسخ کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور بیع کوختم کردیا (اسے شرعاً اقالہ کہا جاتا ہے)تواس کے بدلے میں بکر کے لیے زید سے بصورت جرمانہ اور پشیمانی کے اپنی اصل رقم کے علاوہ مزید کچھ لینا حلال نہیں ہے۔

جامع الفتاویٰ، ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان،1429ھ،ج:6،ص:170۔

واللہ اعلم بالصواب 

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی