بیع میں شرط لگانا اور ادھار پرمضاربت کرنا

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں مسمی شہزاد نے 01-09-2022کومسمی عادل رؤف کے ہاتھوں 3.25 تولہ سونا 447000روپے کی قیمت لگا کر فروخت کیا۔اُس دن اِس سونے کی مارکیٹ کی قیمت 397000تھی۔ہم دونوں نے باہمی رضامندی سے 50000زیادہ قیمت طے کی ۔عادل رؤف نے مجھ سے کہا کہ میں اس سونے کو کل ہی مارکیٹ میں فروخت کروں گا۔ عادل رؤف نے مجھے 50000نقد دے دیئے اور بقایا کے بارے میں میں نے عادل رؤف کو کہا کہ ان بقیہ 397000کومیری طرف سے مضارب بن کر اپنے کاروبار میں لگاؤ اور جو بھی نفع ونقصان ہوگا وہ ہم دونوں کے مابین آدھا آدھا ہوگا۔عادل رؤف بھی اس بات پرراضی ہوگیا۔چونکہ میں نے سونا مارکیٹ کی قیمت سے 50000زیادہ قیمت لگا کربیچا تھاجس کی وجہ سے بظاہرعادل رؤف کو 50000کانقصان ہورہاتھا کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں اس سونے کو کل ہی فروخت کروں گا ،تومیں نے عادل رؤف سے کہا کہ 45 دن کے بعد مجھے مضاربت کا نفع دینا شروع کرواور45دن تک میں آپ سے مضاربت میں اپنے حصے کا نفع نہیں لوں گا تاکہ جوآپ کو ابھی 50000کانقصان ہورہا ہے کسی حد تک اس نقصان کی تلافی ہوجائے۔اب آج مورخہ 19-09-2022کومجھے پتہ چلا کہ ابھی تک عادل رؤف نے وہ سونا فروخت نہیں کیا ہے۔اب چونکہ سونے کی مارکیٹ کی قیمت بھی زیادہ ہوگئی ہے اور میں نے تو اس شرط پر سونا عادل رؤف کو بیچا تھاکہ وہ اسے کل ہی مارکیٹ میں فروخت کرےگا اور اسی بنیاد پر میں نے 45دن تک مضاربت کا نفع نہیں لینے کاکہا تھاتاکہ عادل کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔اب چونکہ اس نے سونے کوبیچا ہی نہیں اس وجہ سے اسے کوئی نقصان بھی نہیں ہوا ہے۔اس وجہ سے اب میرامطالبہ یہ ہے کہ مجھے 45دن بعد سے نہیں بلکہ پہلے ہی دن سے مضاربت کانفع ملنا چاہیئے۔عادل رؤف کا کہنا ہے کہ میں نے جو کہا تھاکہ

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! آپ کے اس سوال کے دو جزء ہیں ایک کا تعلق بیع سے ہے اور دوسرے کا تعلق مضاربت سے ہے۔دونوں کے جواب مندرجہ ذیل ہیں: بیع سے متعلقہ پہلے جزء کا جواب اگرآپ یعنی شہزاد نے عادل رؤف کو سونا اس شرط پر ہی فروخت کیا تھا کہ وہ اُسے کل ہی آگے فروخت کرے گا اور یہ بیع اسی شرط پر ہی موقوف تھی ۔اگرعادل رؤف اس شرط کو قبول نہ کرتا توشہزاد سونا بیچنے پر راضی ہی نہ ہوتا تواس صورت میں یہ معاملہ بیع فاسد بن جاتا ہے۔بیع فاسد واجب الفسخ ہوا کرتا ہے اس وجہ سے اس صورت میں آپ دونوں توبہ واستغفار کرتے ہوئے اس معاملہ کوہی ختم کرو۔اوربقول آپ کےچونکہ سونا ابھی تک عادل رؤف کے پاس ہی ہے تو وہ سونا واپس کرنالازمی ہے،کیونکہ بیع فاسد کی صورت میں مبیع کولوٹانا ضروری ہوتا ہے۔اوراگرصرف مشورہ اوروعدہ کے طورپر یہ شرط لگائی تھی اوربیع کواس پرموقوف نہیں رکھا تھا تو اس صورت میں یہ بیع درست ہوگی اور عادل رؤف اس سونے کو کل ہی کل فروخت کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔ہاں اخلاقاً اسے اپنے وعدے کو جلد از جلد پورا کرنا چاہیئے۔ مضاربت سے متعلقہ دوسرے جزء کا جواب عقد مضاربت میں مال کا نقد دینا ضروری ہے۔اس طرح سے مضاربت کرنا کہ مال مضاربت پہلے ہی سے مضارب پر قرض ہو، درست نہیں ہوتا۔ہاں اگر مضارب کے علاوہ کسی تیسرے آدمی پر قرض ہو اور رب المال کی اجازت سے مضارب اس شخص سے قرض وصول کرکے کاروبار کرے تو یہ صورت درست ہوتی ہے۔صورت مسئولہ میں سونے کی قیمت پہلے ہی سے عادل رؤف پر قرض ہے اور وہ مضارب بھی ہے اس وجہ سے یہ عقد مضاربت درست نہیں ہے۔ مسئلے کا حل مذکورہ بالا تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ دونوں سونے کی بیع کو فسخ کریں اور عادل رؤف سونا شہزاد کو واپس کرے ۔پھر شہزاد کا اپنے سونے پرقبضہ آنے بعد اس سونے کو فروخت کیا جائے ۔بیچنے کے بعد سونے کی جو قیمت شہزاد کی ملکیت میں آجائے تو وہ عادل رؤف کے ساتھ ازسرنوعقدمضاربت کرتے ہوئے وہ رقم عادل رؤف کو حوالہ کریں اور نفع کا تناسب متعین کرتے ہوئے اس سارے معاملہ کو تحریری شکل بھی دے دیں۔کسی بھی بات کو مجہول یامبہم نہ چھوڑیں تاکہ آئندہ کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہو۔ (ومنها) شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا أو على أن يقرضه المشتري قرضا أو على أن يهب له هبة أو يزوج ابنته منه أو يبيع منه كذا ونحو ذلك أو اشترى ثوبا على أن يخيطه البائع قميصا أو حنطة على أن يطحنها أو ثمرة على أن يجذها أو ربطة قائمة على الأرض على أن يجذها أو شيئا له حمل ومؤنة على أن يحمله البائع إلى منزله ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الربا. بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،۱۴۰۶ھ،ج:5،ص:169۔ يجب (على كل واحد منهمافسخه قبل القبض) ويكون امتناعا عنه ابن الملك (أو بعده ما دام) المبيع بحاله جوهرة (في يد المشتري إعداما للفساد) ؛ لأنه معصية فيجب رفعها بحر (و) لذا (لا يشترط فيه قضاء قاض) ؛ لأن الواجب شرعا لا يحتاج للقضاء درر (وإذا أصر) أحدهما (على إمساكه وعلم به القاضي فله فسخه) جبرا عليهما حقا للشرع بزازية۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:91۔ ثم ذكر في البحر أنه لو أخرجه مخرج الوعد لم يفسد. وصورته كما في الولوالجية قال اشتر حتى أبني الحوائط۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:84۔ سوال:زید نے بکرکو ایک بھینس فروخت کی اس شرط پر کہ اس کا دودھ میں ہی خریدتا رہوں گا ،اب اس کا دودھ زید کو لینا جائز ہے یا نہیں ؟بینوافتوجروا الجواب باسم ملھم الصواب اگر بھینس کی بیع اسی شرط پر موقوف تھی کہ اگرمشتری اس شرط کو قبول نہ کرتا توبائع بیع پر راضی نہ ہوتا تویہ بیع فاسد ہو گئی جس سے توبہ واستغفار اور اس بیع کا فسخ کرنا واجب ہے۔البتہ اگر صرف مشورہ اور وعدہ کے طور پر یہ شرط لگائی ،بیع کو اس پر موقوف نہیں رکھا تو یہ بیع صحیح ہوگئی ،دودھ کا لین دین جائز ہے۔بکراس کاپابند نہیں کہ زید کو ہی دودھ فروخت کرے،ہاں اخلاقاً اسے یہ وعدہ پورا کرنا چاہیئے۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:6،ص:520۔ بیع کے لیے شرطیں لگانا مفسد عقد ہے۔۔۔الخ فتاویٰ محمودیہ،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی،ج:16،ص:88۔ وأما المضاربة بدين فإن على المضارب لم يجز، وإن على ثالث جاز وكره۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:647۔ عقد مضاربت میں مال کا نقد دینا ضروری ہےنہ کہ قرض کا مال۔۔۔الخ فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:6،ص:346۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی