بہو کی والدہ سے نکاح کی شرعی حیثیت
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسماۃ گل مرجان کے والدصاحب کاانتقال ہوا ہے۔اب گل مرجان کا سُسر گل مرجان کی والدہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔کیا شریعت مطہرہ کی روشنی میں کوئی شخص اپنی بہو کی والدہ سے نکاح کرسکتا ہے یا نہیں؟بینوافتوجروا المستفتی فاروق حسین ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق گل مرجان کا سُسر گل مرجان کی والدہ سے نکاح کرسکتا ہے کیونکہ یہاں سمدھن سے نکاح کرنے میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں ہے۔بہو کی والدہ محرمات ابدیہ میں شامل نہیں ہے اس وجہ سے اگر کوئی اور شرعی مانع موجود نہ ہو تو بہو کی والدہ سے نکاح کرنا جائز ہے۔
كَذَلِكَ لَا بَأْسَ بِأَنْ يَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ وَيُزَوِّجَ ابْنَهُ أُمَّهَا أَوْ ابْنَتَهَا فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَنَفِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَزَوَّجَ ابْنَتَهَا مِنْ ابْنِهِ، وَهَذَا لِأَنَّ بِنِكَاحِ الْأُمِّ تَحْرُمُ الْأُمُّ هِيَ عَلَى ابْنِهِ، فَأَمَّا أُمُّهَا وَابْنَتُهَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ لَا عَلَى ابْنِهِ فَلِهَذَا جَازَ لِابْنِهِ أَنْ يَتَزَوَّجَ أُمَّهَا أَوْ ابْنَتَهَا، وَاَللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَإِلَيْهِ الْمَرْجِعُ وَالْمَآبُ۔
المبسوط للسرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:04،ص:211۔
قَوْله تَعَالَى:وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ . رُوِيَ عَنْ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيِّ وَالسُّدِّيِّ: "أُحِلَّ لَكُمْ مَا دُونَ الْخَمْسِ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ عَلَى وَجْهِ النِّكَاحِ". وَقَالَ عَطَاءٌ: "أُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَوَاتِ الْمَحَارِمِ مِنْ أَقَارِبِكُمْ". وَقَالَ قَتَادَةُ:مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ: "ما ملكت أَيْمَانُكُمْ". وَقِيلَ: "مَا وَرَاءِ ذَوَاتِ الْمَحَارِمِ وَمَا وَرَاءِ الزِّيَادَةِ عَلَى الْأَرْبَعِ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ نِكَاحًا أَوْ مِلْكَ يَمِينٍ" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ عَامٌّ فِيمَا عَدَا الْمُحَرَّمَاتِ فِي الْآيَةِ وَفِي سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
احکام القرآن،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1415ھ،ج:02،ص:175۔
لا بأس بأن يتزوج الرجل امرأة ويتزوج ابنه ابنتها أو أمها، كذا في محيط السرخسي.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:01،ص:277۔
اپنے لڑکے کی بیوی کی ماں (سمدھن)کے ساتھ نکاح کرنا شرعاً جائز ہے۔
فتاویٰ قاسمیۃ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،ج:13،ص:188۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق گل مرجان کا سُسر گل مرجان کی والدہ سے نکاح کرسکتا ہے کیونکہ یہاں سمدھن سے نکاح کرنے میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں ہے۔بہو کی والدہ محرمات ابدیہ میں شامل نہیں ہے اس وجہ سے اگر کوئی اور شرعی مانع موجود نہ ہو تو بہو کی والدہ سے نکاح کرنا جائز ہے۔
كَذَلِكَ لَا بَأْسَ بِأَنْ يَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ وَيُزَوِّجَ ابْنَهُ أُمَّهَا أَوْ ابْنَتَهَا فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَنَفِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَزَوَّجَ ابْنَتَهَا مِنْ ابْنِهِ، وَهَذَا لِأَنَّ بِنِكَاحِ الْأُمِّ تَحْرُمُ الْأُمُّ هِيَ عَلَى ابْنِهِ، فَأَمَّا أُمُّهَا وَابْنَتُهَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ لَا عَلَى ابْنِهِ فَلِهَذَا جَازَ لِابْنِهِ أَنْ يَتَزَوَّجَ أُمَّهَا أَوْ ابْنَتَهَا، وَاَللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَإِلَيْهِ الْمَرْجِعُ وَالْمَآبُ۔
المبسوط للسرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:04،ص:211۔
قَوْله تَعَالَى:وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ . رُوِيَ عَنْ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيِّ وَالسُّدِّيِّ: "أُحِلَّ لَكُمْ مَا دُونَ الْخَمْسِ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ عَلَى وَجْهِ النِّكَاحِ". وَقَالَ عَطَاءٌ: "أُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَوَاتِ الْمَحَارِمِ مِنْ أَقَارِبِكُمْ". وَقَالَ قَتَادَةُ:مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ: "ما ملكت أَيْمَانُكُمْ". وَقِيلَ: "مَا وَرَاءِ ذَوَاتِ الْمَحَارِمِ وَمَا وَرَاءِ الزِّيَادَةِ عَلَى الْأَرْبَعِ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ نِكَاحًا أَوْ مِلْكَ يَمِينٍ" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ عَامٌّ فِيمَا عَدَا الْمُحَرَّمَاتِ فِي الْآيَةِ وَفِي سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
احکام القرآن،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1415ھ،ج:02،ص:175۔
لا بأس بأن يتزوج الرجل امرأة ويتزوج ابنه ابنتها أو أمها، كذا في محيط السرخسي.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:01،ص:277۔
اپنے لڑکے کی بیوی کی ماں (سمدھن)کے ساتھ نکاح کرنا شرعاً جائز ہے۔
فتاویٰ قاسمیۃ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،ج:13،ص:188۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی