بھائی کی اولاد کے ساتھ رشتہ نہ کرنے کی وصیت کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم کل سات بھائی ہیں۔ہمارے بڑے بھائی مسمی امیرزادہ سے ہمارے والدصاحب اپنی زندگی میں سخت ناراض ہوگئے تھے اور انھوں نے ہم بقیہ چھ بھائیوں کو یہ وصیت کی تھی کہ تم میں سے کوئی بھی امیرزادہ کے اولاد کے ساتھ رشتہ نہیں کرے گا،یعنی نہ توامیرزادہ کی بیٹیوں کانکاح اپنے بیٹوں کے ساتھ کروگے اور نہ ہی اپنی بیٹیوں کا نکاح امیرزادہ کے بیٹوں کے ساتھ کروگے۔اب ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہےتوکیا ہم پروالدصاحب کی وصیت کے مطابق عمل کرنا لازم ہے یا پھر ہم اپنے بھائی امیرزادہ کی بیٹیوں کارشتہ اپنے بیٹوں کے لیے مانگ سکتے ہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی آفتاب علی گاؤں بیرگلی،گدون 0341-1890747
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال آپ کے والد صاحب نے جو وصیت کی ہےکہ آپ چھ بھائی اپنے ساتویں بھائی امیرزادہ کی اولاد کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رشتہ نہیں کروگے،درحقیقت یہ وصیت ہی ناجائز ہے۔آپ کے والد صاحب نے اس وصیت میں آپ لوگوں کو قطع رحمی کا حکم دیا ہے جس کی وجہ سے یہ وصیت شرعاً معتبر اور قابل نفاذ نہیں ہے۔آپ لوگ اپنے بھائی کی بیٹیوں کارشتہ اپنے بیٹوں کے لیے مانگ سکتے ہو۔البتہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی امیرزادہ سے آپ کے والد صاحب سخت ناراض تھے اس وجہ سے آپ کے بھائی امیر زادہ کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ اور استغفار کے ساتھ ساتھ اپنے والد مرحوم کے لیے دعا اور ایصال ثواب وغیرہ کاخصوصی اہتمام کیا کرے۔
عن عبد الله رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره، ما لم يؤمر بمعصية، فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة۔
صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:7144۔
أوصى بأن يصلي عليه فلان أو يحمل بعد موته إلى بلد آخر أو يكفن في ثوب كذا أو يطين قبره أو يضرب على قبره قبة أو لمن يقرأ عند قبره شيئا معينا فهي باطلة سراجية وسنحققه.
حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:06،ص:666۔
أن الوصية إنما تجوز في البِر والمباح، وأما الوصية بالمعصية فلا تجوز؛ كالوصية ببناء كنيسة، أو رفع القبور، أو الوصية بآلات الطرب واللهو، أو النياحة عليه بعد موته، ونحو ذلك مما هو محرم في الشريعة۔۔۔۔۔۔۔ قال ابن قدامة ولا تصح الوصية بمعصية وفعل محرم، مسلمًا كان الموصي أو ذميًّا، فلو وصى ببناء كنيسة أو بيت نار، أو عمارتهما، أو الانفاق عليهما كان باطلًا.قال ابن الهمام الوصية بالمعصية باطلة لما في تنفيذها من تقرير المعصية۔
موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی،دارالفضیلۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1433ھ،ج:08،ص:372۔
بلا کسی جرم اور شرعی قصور کے کسی سے قطع تعلق کرلینا ممنوع ہےاور اسی طرح قطع تعلق کی وصیت بھی شرعی طور صحیح نہیں ہوتی۔ ایسی وصیت کوپورا کرنابھی بیوی اور دوسرے متعلقین پرلازم نہیں ہے۔
فتاویٰ قاسمیۃ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،انڈیا،پہلا ایڈیشن،1437ھ،ج:25،ص:64۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال آپ کے والد صاحب نے جو وصیت کی ہےکہ آپ چھ بھائی اپنے ساتویں بھائی امیرزادہ کی اولاد کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رشتہ نہیں کروگے،درحقیقت یہ وصیت ہی ناجائز ہے۔آپ کے والد صاحب نے اس وصیت میں آپ لوگوں کو قطع رحمی کا حکم دیا ہے جس کی وجہ سے یہ وصیت شرعاً معتبر اور قابل نفاذ نہیں ہے۔آپ لوگ اپنے بھائی کی بیٹیوں کارشتہ اپنے بیٹوں کے لیے مانگ سکتے ہو۔البتہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی امیرزادہ سے آپ کے والد صاحب سخت ناراض تھے اس وجہ سے آپ کے بھائی امیر زادہ کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ اور استغفار کے ساتھ ساتھ اپنے والد مرحوم کے لیے دعا اور ایصال ثواب وغیرہ کاخصوصی اہتمام کیا کرے۔
عن عبد الله رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره، ما لم يؤمر بمعصية، فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة۔
صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:7144۔
أوصى بأن يصلي عليه فلان أو يحمل بعد موته إلى بلد آخر أو يكفن في ثوب كذا أو يطين قبره أو يضرب على قبره قبة أو لمن يقرأ عند قبره شيئا معينا فهي باطلة سراجية وسنحققه.
حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:06،ص:666۔
أن الوصية إنما تجوز في البِر والمباح، وأما الوصية بالمعصية فلا تجوز؛ كالوصية ببناء كنيسة، أو رفع القبور، أو الوصية بآلات الطرب واللهو، أو النياحة عليه بعد موته، ونحو ذلك مما هو محرم في الشريعة۔۔۔۔۔۔۔ قال ابن قدامة ولا تصح الوصية بمعصية وفعل محرم، مسلمًا كان الموصي أو ذميًّا، فلو وصى ببناء كنيسة أو بيت نار، أو عمارتهما، أو الانفاق عليهما كان باطلًا.قال ابن الهمام الوصية بالمعصية باطلة لما في تنفيذها من تقرير المعصية۔
موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی،دارالفضیلۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1433ھ،ج:08،ص:372۔
بلا کسی جرم اور شرعی قصور کے کسی سے قطع تعلق کرلینا ممنوع ہےاور اسی طرح قطع تعلق کی وصیت بھی شرعی طور صحیح نہیں ہوتی۔ ایسی وصیت کوپورا کرنابھی بیوی اور دوسرے متعلقین پرلازم نہیں ہے۔
فتاویٰ قاسمیۃ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،انڈیا،پہلا ایڈیشن،1437ھ،ج:25،ص:64۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی