ایک گاؤں میں کئ مقامات پر نماز جمعہ کا حکم

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ محلہ سورکمبر گاؤں اُتلہ گدون کا ایک محلہ ہے۔اُتلہ اَپرگدون کا ایک بڑا اور مشہور گاؤں ہے جہاں نماز جمعہ کے شرائط پائے جانے کی وجہ سے جمعہ کی نماز عرصہ دراز سے ہوتی چلی آرہی ہے۔اس وقت تقریباً گاؤں کے چھ مساجدمیں جمعہ کی نماز اداکی جاتی ہے۔محلہ سورکمبر بھی اسی اُتلہ نامی گاؤں کا ہی ایک محلہ ہےجہاں کی مسجدمیں ہم نے جمعہ کی نماز کاآغازکیا ہے۔کیاشریعت مطہرہ کی روشنی میں گاؤں اُتلہ کے محلہ سورکمبرکی مسجدمیں مذکورہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے نمازجمعہ کی ادائیگی جائز ہے یا نہیں؟بینوافتوجرواالمستفتیمولانانیازعلی حقانیخطیب وامام جامع مسجدسورکمبراُتلہ گدون

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق محلہ سورکمبر کی مسجدمیں نماز جمعہ کی ادائیگی شریعت مطہرہ رُو سےجائزہے۔فقہائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ جب کسی مقام میں شرائط جمعہ کے پائے جانے کی وجہ سےکسی ایک مسجدمیں جمعہ کی نماز کی ادائیگی ہو رہی ہوتووہاں حسب ضرورت متعدد مقامات اورمساجد میں جمعہ پڑھنا جائز ہے۔اُتلہ گدون ایک قریہ کبیرہ ہے جہاں چھ مساجد میں جمعہ کی نماز اداکی جا رہی ہے تو پھر وہاں محلہ سورکمبرکی مسجدمیں بھی جمعہ کی ادائیگی جائز ہے۔ وتؤدى الجمعة في مصر واحد في مواضع كثيرة وهو قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى وهو الأصح وذكر الإمام السرخسي أنه الصحيح من مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالى وبه نأخذ، هكذا في البحر الرائق. الفتاویٰ الھندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:6،ص:145۔ يصح أداء الجمعة في مصر واحد بمواضع كثيرة، وهو قول أبي حنيفة ومحمد، وهو الأصح؛ لأن في الاجتماع في موضع واحد في مدينة كبيرة حرجا بينا، وهو مدفوع كذا ذكر الشارح وذكر الإمام السرخسي أن الصحيح من مذهب أبي حنيفة جواز إقامتها في مصر واحد في مسجدين وأكثر وبه نأخذ لإطلاق: لا جمعة إلا في مصر شرط المصر فقط، وفي فتح القدير الأصح الجواز مطلقا خصوصا إذا كان مصرا كبيرا كمصر فإن في إلزام اتحاد الموضع حرجا بينا لاستدعائه تطويل المسافة على الأكثر وذكر في باب الإمامة أن الفتوى على جواز التعدد مطلقا۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،ج:2،ص:154۔ وتصح إقامة الجمعة في مواضع كثيرة بالمصر وفنائه وهو قول أبي حنيفة ومحمد في الأصح۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:1،ص:506۔ قد كان جواز الجمعة في المصر الكبير في مواضع كثيرة لدفع الحرج لأن في اتحاد الموضع حرجا بينا لاستدعائه تطويل المسافة على الأكثر كما بين آنفا وهذه العلة تجري في العيد على أنه صرح في بعض المعتبرات جوازه اتفاقا وبهذا عمل الناس اليوم. مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:2،ص:173۔ فقہاء نےضرورت کے پیش نظر ایک شہر میں حسب ضرورت متعددمقامات اورمساجد میں جمعہ کے قیام کی اجازت دی ہے ،لہٰذا شہر کی جس مسجد میں بھی جمعہ قائم کیا جائے گا ،شرعاً وہ صحیح ہو جائے گا۔ کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشر والتحقیق،مرادآباد،انڈیا،1435ھ،ج:5،ص:200۔ اگر یہ مقام مصرشرعی یافناءالمصر یاقریہ کبیرہ ہو تواس کی ہر ایک مسجد میں نماز جمعہ اداکرنامشروع ہے ورنہ بصورت دیگر کسی مسجد میں نماز جمعہ مشروع نہیں ہے۔۔۔الخ فتاویٰ فریدیہ،طبع سوم،1430ھ،ج:3،ص:145۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی