اعوان برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے زکوٰۃ لینے کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا تعلق اعوان قوم سے ہے۔ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے سے ہماری شہرت اسی اعوان قوم کے نام سے ہی ہےاور ہمارے گاؤں اورآس پاس کے علاقوں میں ہم اعوان ہی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔اب ایک مسئلہ یہ سننے میں آیا ہے کہ اعوان قوم کے لوگ زکوٰۃ نہیں لے سکتے کیونکہ ان کا تعلق بنو ہاشم کے ساتھ ہے۔آپ صاحبان کی خدمت میں درخواست یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل شریعت مطہرہ کی روشنی میں بتا کرثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی قاری رشید الرحمٰن گاؤں اتلہ گدون،ضلع صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
شریعت مطہرہ کی رُو سے بنو ہاشم کے پانچ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ فطرانہ، نذر و منت،کفارات اور فدیوں وغیرہ کو نہیں لے سکتے۔ان پانچ خاندانوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد، حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کی اولاد،حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد،حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد اور حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی اولادشامل ہیں۔
اعوان قوم کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ یہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہیں۔ تحقیق کے دوران اعوان قوم کی تاریخ پر لکھی گئی جتنی کتب تک ہماری رسائی ممکن ہوئی تو ان کامطالعہ کرنے کے بعد قدرمشترک یہی نکلتا ہے کہ اعوان حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہیں،اس وجہ سے آپ کی اعوان برادری زکوٰۃ اور دیگر واجب صدقات لینے سے اجتناب کریں۔البتہ اگر آپ لوگوں کواپنے اعوان ہونے میں شک ہوتوپھرآپ کے اعوان برادری کے علمائے کرام کوچاہیئے کہ وہ اپنی برادری کے بارے میں تحقیق کرے کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے؟اوردرست صورت حال واضح ہونے پر شریعت کا حکم معلوم کیا جائے۔
إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ، وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1072۔
أَيْ لَا يَجُوزُ دَفْعُهَا إلَى بَنِي هَاشِمٍ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إنَّمَا أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ نَحْنُ أَهْلُ بَيْتٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَطْلَقَ الْهَاشِمِيُّ هُنَا وَ فَسَّرَهُمْ الْقُدُورِيُّ فَقَالَ هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَبَّاسٍ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَفَائِدَةُ تَخْصِيصِهِمْ بِالذِّكْرِ جَوَازُ الدَّفْعِ إلَى بَعْضِ بَنِي هَاشِمٍ وَهُمْ بَنُو أَبِي لَهَبٍ لِأَنَّ حُرْمَةَ الصَّدَقَةِ كَرَامَةٌ لَهُمْ اسْتَحَقُّوهَا بِنَصْرِهِمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ ثُمَّ سَرَى ذَلِكَ إلَى أَوْلَادِهِمْ وَأَبُو لَهَبٍ آذَى النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وَبَالَغَ فِي أَذِيَّتِهِ فَاسْتَحَقَّ الْإِهَانَةَ قَالَ أَبُو نَصْرٍ الْبَغْدَادِيُّ وَمَا عَدَا الْمَذْكُورِينَ لَا تَحْرُمُ عَلَيْهِمْ الزَّكَاةُ۔
تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:01،ص:303۔
ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية۔۔۔۔الخ
الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:1،ص:189۔
ولا تدفع إلى بني هاشم " لقوله عليه الصلاة والسلام " يا بني هاشم إن الله تعالى حرم عليكم غسالة الناس وأوساخهم و عوضكم منها بخمس الخمس " بخلاف التطوع لأن المال ههنا كالماء يتدنس بإسقاط الفرض أما التطوع فبمنزلة التبرد بالماء.قال: " وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب ومواليهم " أما هؤلاء فلأنهم ينسبون إلى هاشم بن عبد مناف ونسبة القبيلة إليه وأما مواليهم فلما روي أن مولى لرسول الله صلى الله عليه وسلم سأله أتحل لي الصدقة فقال:لا أنت مولانا۔
الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:01،ص:112۔
عباسی فقیر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ آل عباس آل ہاشم سے ہیں اورآل ہاشم مصرف زکوٰۃ نہیں،خواہ زکوٰۃ دینے والا عباسی ہو یا کوئی دوسرا۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:04،ص:82۔
سادات کو زکوٰۃ لینی کسی حال میں جائز نہیں ہے،اگر سادات ضرورت مند ہوں توان کی مدد عطیات سے کرنی چاہیئے۔
کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشر والتحقیق،مرادآباد،انڈیا،ج:07،ص:119۔
جوہاشمی شجرہ نہ رکھتا ہو اس پر بھی زکوٰۃ حرام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثبوت نسب کے لیے عام شہرت کافی ہے شجرہ ہونا ضروری نہیں ۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید کراچی،ج:04،ص:289۔
محققین علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ سادات کوزکوٰۃ کی ممانعت چونکہ ان کی عظمت اورتقدس کی وجہ سے ہے ،اس لیے یہ حکم حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتا۔اب بھی سادات کو زکوٰۃ دینا مناسب نہیں ،البتہ مالدار لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ زکوٰۃ کی جگہ ہدایا اور عطایا سے سادات کی مدد کریں۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،ج:04،ص:74۔
حضرت باباسجاول علوی قادری رحمۃاللہ علیہ کاتعلق قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ سے ہے۔صدیوں پرانی سینہ بہ سینہ روایات اور کتب انساب کے مطابق قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ حضرت محمد حنفیہؒ بن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہے،جو محمد ،محمد الاکبر ،امام حنیف اورمحمدابن الحنفیہ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
بابا سجاول علوی قادری ؒتاریخ کے آئینے میں،ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان،اشاعت اول،2019،ص:13۔
موصوف نے شیرخداحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمدبن حنفیہ کی اولاد جوبرصغیر پاک وہند میں اعوان کے نام سے شہرت پذیر ہے،اس کی تفصیل تقریبا ً فارسی ،عربی،اردو اور انگریزی کی 460 سے زائد مستند کتب کے حوالے سے رقم کی ہے اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ برصغیرپاک وہند میں آباد اعوان قبیلہ محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کی اولاد ہے۔
برصغیرپاک وہند کے قطب شاہی علوی اعوان،ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان،ص:34
اسی طرح قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ کاازاولاد حضرت محمدحنفیہ ؒ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوناصدیوں پرانی عربی وفارسی کتب سے درست،صحیح اور سچ ثابت ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔مولوی حیدر علی لدھیانوی نے 1896 میں "تاریخ علوی"کے نام سے اعوانوں کی تاریخ لکھی جس میں سب کے سب اعوان کوحضرت محمدحنفیہ ؒ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے درج کیا۔
تاریخ قطب شاہی اعوان،ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان،راولاکوٹ ،آزادکشمیر،ص:13۔
اعوان قوم کے مورث اعلیٰ حضرت میر قطب شاہ کا سلسلہ نسب نوواسطوں سے حضرت امام محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
تاریخ الاعوان،اشاعت منزل،بل روڈ،لاہور،ص:29۔
علوی اعوانوں کے جداعلیٰ حضرت عون قطب شاہ بن یعلی جو حضرت عباس علمدار ؒ کی اولاد میں سے تھے بحکم شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ بسلسلہ تبلیغ وارد ہند ہوئے۔
عمدۃ الاعوان،ادارہ افکارالاعوان پاکستان،2020ء،ص:64۔
علاوہ ازیں معروف اور مستند دینی ادارے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے دارالافتاء نے اپنے ایک فتویٰ نمبر:144406100411پر اورزکوٰۃ کونسل حکومت آزادجموں وکشمیر نےمورخہ 19مئی 1986ء کو نوٹیفیکیشن نمبر:ع/75-4440/86کے مطابق عباسی،اعوان اور سید تینوں کو بنوہاشم قراردیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی،صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
شریعت مطہرہ کی رُو سے بنو ہاشم کے پانچ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ فطرانہ، نذر و منت،کفارات اور فدیوں وغیرہ کو نہیں لے سکتے۔ان پانچ خاندانوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد، حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کی اولاد،حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد،حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد اور حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی اولادشامل ہیں۔
اعوان قوم کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ یہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہیں۔ تحقیق کے دوران اعوان قوم کی تاریخ پر لکھی گئی جتنی کتب تک ہماری رسائی ممکن ہوئی تو ان کامطالعہ کرنے کے بعد قدرمشترک یہی نکلتا ہے کہ اعوان حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہیں،اس وجہ سے آپ کی اعوان برادری زکوٰۃ اور دیگر واجب صدقات لینے سے اجتناب کریں۔البتہ اگر آپ لوگوں کواپنے اعوان ہونے میں شک ہوتوپھرآپ کے اعوان برادری کے علمائے کرام کوچاہیئے کہ وہ اپنی برادری کے بارے میں تحقیق کرے کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے؟اوردرست صورت حال واضح ہونے پر شریعت کا حکم معلوم کیا جائے۔
إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ، وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1072۔
أَيْ لَا يَجُوزُ دَفْعُهَا إلَى بَنِي هَاشِمٍ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إنَّمَا أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ نَحْنُ أَهْلُ بَيْتٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَطْلَقَ الْهَاشِمِيُّ هُنَا وَ فَسَّرَهُمْ الْقُدُورِيُّ فَقَالَ هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَبَّاسٍ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَفَائِدَةُ تَخْصِيصِهِمْ بِالذِّكْرِ جَوَازُ الدَّفْعِ إلَى بَعْضِ بَنِي هَاشِمٍ وَهُمْ بَنُو أَبِي لَهَبٍ لِأَنَّ حُرْمَةَ الصَّدَقَةِ كَرَامَةٌ لَهُمْ اسْتَحَقُّوهَا بِنَصْرِهِمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ ثُمَّ سَرَى ذَلِكَ إلَى أَوْلَادِهِمْ وَأَبُو لَهَبٍ آذَى النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وَبَالَغَ فِي أَذِيَّتِهِ فَاسْتَحَقَّ الْإِهَانَةَ قَالَ أَبُو نَصْرٍ الْبَغْدَادِيُّ وَمَا عَدَا الْمَذْكُورِينَ لَا تَحْرُمُ عَلَيْهِمْ الزَّكَاةُ۔
تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:01،ص:303۔
ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية۔۔۔۔الخ
الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:1،ص:189۔
ولا تدفع إلى بني هاشم " لقوله عليه الصلاة والسلام " يا بني هاشم إن الله تعالى حرم عليكم غسالة الناس وأوساخهم و عوضكم منها بخمس الخمس " بخلاف التطوع لأن المال ههنا كالماء يتدنس بإسقاط الفرض أما التطوع فبمنزلة التبرد بالماء.قال: " وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب ومواليهم " أما هؤلاء فلأنهم ينسبون إلى هاشم بن عبد مناف ونسبة القبيلة إليه وأما مواليهم فلما روي أن مولى لرسول الله صلى الله عليه وسلم سأله أتحل لي الصدقة فقال:لا أنت مولانا۔
الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:01،ص:112۔
عباسی فقیر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ آل عباس آل ہاشم سے ہیں اورآل ہاشم مصرف زکوٰۃ نہیں،خواہ زکوٰۃ دینے والا عباسی ہو یا کوئی دوسرا۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:04،ص:82۔
سادات کو زکوٰۃ لینی کسی حال میں جائز نہیں ہے،اگر سادات ضرورت مند ہوں توان کی مدد عطیات سے کرنی چاہیئے۔
کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشر والتحقیق،مرادآباد،انڈیا،ج:07،ص:119۔
جوہاشمی شجرہ نہ رکھتا ہو اس پر بھی زکوٰۃ حرام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثبوت نسب کے لیے عام شہرت کافی ہے شجرہ ہونا ضروری نہیں ۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید کراچی،ج:04،ص:289۔
محققین علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ سادات کوزکوٰۃ کی ممانعت چونکہ ان کی عظمت اورتقدس کی وجہ سے ہے ،اس لیے یہ حکم حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتا۔اب بھی سادات کو زکوٰۃ دینا مناسب نہیں ،البتہ مالدار لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ زکوٰۃ کی جگہ ہدایا اور عطایا سے سادات کی مدد کریں۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،ج:04،ص:74۔
حضرت باباسجاول علوی قادری رحمۃاللہ علیہ کاتعلق قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ سے ہے۔صدیوں پرانی سینہ بہ سینہ روایات اور کتب انساب کے مطابق قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ حضرت محمد حنفیہؒ بن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہے،جو محمد ،محمد الاکبر ،امام حنیف اورمحمدابن الحنفیہ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
بابا سجاول علوی قادری ؒتاریخ کے آئینے میں،ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان،اشاعت اول،2019،ص:13۔
موصوف نے شیرخداحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمدبن حنفیہ کی اولاد جوبرصغیر پاک وہند میں اعوان کے نام سے شہرت پذیر ہے،اس کی تفصیل تقریبا ً فارسی ،عربی،اردو اور انگریزی کی 460 سے زائد مستند کتب کے حوالے سے رقم کی ہے اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ برصغیرپاک وہند میں آباد اعوان قبیلہ محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کی اولاد ہے۔
برصغیرپاک وہند کے قطب شاہی علوی اعوان،ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان،ص:34
اسی طرح قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ کاازاولاد حضرت محمدحنفیہ ؒ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوناصدیوں پرانی عربی وفارسی کتب سے درست،صحیح اور سچ ثابت ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔مولوی حیدر علی لدھیانوی نے 1896 میں "تاریخ علوی"کے نام سے اعوانوں کی تاریخ لکھی جس میں سب کے سب اعوان کوحضرت محمدحنفیہ ؒ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے درج کیا۔
تاریخ قطب شاہی اعوان،ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان،راولاکوٹ ،آزادکشمیر،ص:13۔
اعوان قوم کے مورث اعلیٰ حضرت میر قطب شاہ کا سلسلہ نسب نوواسطوں سے حضرت امام محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
تاریخ الاعوان،اشاعت منزل،بل روڈ،لاہور،ص:29۔
علوی اعوانوں کے جداعلیٰ حضرت عون قطب شاہ بن یعلی جو حضرت عباس علمدار ؒ کی اولاد میں سے تھے بحکم شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ بسلسلہ تبلیغ وارد ہند ہوئے۔
عمدۃ الاعوان،ادارہ افکارالاعوان پاکستان،2020ء،ص:64۔
علاوہ ازیں معروف اور مستند دینی ادارے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے دارالافتاء نے اپنے ایک فتویٰ نمبر:144406100411پر اورزکوٰۃ کونسل حکومت آزادجموں وکشمیر نےمورخہ 19مئی 1986ء کو نوٹیفیکیشن نمبر:ع/75-4440/86کے مطابق عباسی،اعوان اور سید تینوں کو بنوہاشم قراردیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی،صوابی