آٹھ رکعات تراویح اور ائمہ احناف کا موقف
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کاکہنا یہ ہے کہ بعض ائمہ احناف بھی آٹھ رکعت تراویح کے قائل ہیں اور وہ دلیل میں مندرجہ ذیل عبارات کو پیش کرتا ہے:1۔علامہ ابن الھمام الحنفی لکھتے ہیں:فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی وعشرین رکعۃ بالوتر فی جماعۃ۔ان سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح)گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے۔فتح القدیر شرح الھدایۃ،ج:1،ص:4852۔امام الطحطاوی الحنفی لکھتے ہیں:لان النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام لم یصلھا عشرین ،بل ثمانی۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت پڑھی ہے۔حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،ج:1،ص:2953۔علامہ ابن نجیم المصری الحنفی نے ابن الھمام الحنفی سے بطور اقرار نقل کیا ہے:فاذن یکون المسنون علیٰ اصول مشایخنا ثمانیۃ منھا والمستحب اثنا عشر۔کہ ہمارے مشائخ کے اصول پر اس طرح ہے کہ آٹھ رکعت مسنون اور بارہ رکعت مستحب ہو جاتے ہیں۔البحرالرائق شرح کنزالدقائق،ج:2،ص:724۔ملا علی القاری الحنفی لکھتے ہیں:فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی عشرۃ بالوتر فی جماعۃ فعلہ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔کہ ان سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح)گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے ۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،ج:3،ص:3455۔محمداحسن نانوتوی الحنفی لکھتے ہیں :لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یصلھا عشرین بل ثمانیا۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت پڑھی ہیں۔حاشیہ کنزالدقائق،ص:36،حاشیہ:46۔عبدالشکور لکھنوی الحنفی لکھتے ہیں :اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہیں اورایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت بھی ہیں۔علم الفقہ،ص:1957۔عبدالحئ لکھنوی الحنفی لکھتے ہیں:کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح دوطرح ادا کی ہیں ،بیس رکعتیں باجماعت لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔آٹھ رکعتیں اور تین وتر باجماعت اس کی سند جید ہے۔فتاویٰ عبدالحئ ،ج:1،ص:3318۔خلیل احمد سہارنپوری الحنفی لکھتے ہیں :البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام نے آٹھ کوسنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے ،سویہ قول قابل طعن کے نہیں۔ایک اور جگہ سہارنپوری صاحب لکھتے ہیں :اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگرخلاف (اختلاف)ہے تو بارہ میں ہے۔البراہین القاطعۃآپ حضرات مندرجہ بالا عبارتوں کی تحقیق کرکے یہ بتائیں کہ آیا واقعی ان عبارات کی بنیاد پر یہ کہنا درست ہے کہ جن بزرگوں کی یہ عبارتیں ہیں،وہ آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے؟تحقیقی جواب مرحمت فرمائیں۔جزاکم اللہ خیراًالمستفتیمولانا نوراللہافغان کیمپ،گندف (صوابی)
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! جمہوراحناف بیس رکعت تراویح کو ہی سنت مؤکدہ مانتے ہیں ۔صورت مسئولہ میں مذکورہ عبارتوں کو سیاق وسباق سے کاٹ کرپیش کیا گیا ہے۔ان میں سے ہرایک عبارت کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے: پہلی عبارت:علامہ ابن الھمام الحنفی لکھتے ہیں: فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی وعشرین رکعۃ بالوتر فی جماعۃ۔ ان سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح)گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے۔ فتح القدیر شرح الھدایۃ،ج:1،ص:485 جواب:علامہ ابن الھمام الحنفی ؒ بیس رکعت تراویح ہی کے قائل ہیں۔مذکورہ عبارت ادھوری نقل کی گئی ہے۔پوری عبارت ملاحظہ ہو: فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی وعشرین رکعۃ بالوتر فی جماعۃفعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر۔افاد انہ لولا خشیۃ ذالک لواظبت بکم۔ولا شک فی تحقق الامن من ذالک بوفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فیکون سنۃ وکونھا عشرین سنۃ الخلفاء الراشدین وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ندب الیٰ سنتھم۔۔۔۔الخ فتح القدیر،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:1،ص:486۔ اسی طرح ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں : ثم استقر الامر علیٰ العشرین فانہ المتوارث۔۔۔۔الخ فتح القدیر،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:1،ص: 485۔ البتہ آٹھ رکعت تراویح کو سنت اور بقیہ بارہ رکعت کو مستحب کا درجہ دینے اور تہجد وتراویح کی الگ الگ حدیثوں کو ایک دوسرے کے معارض سمجھنے میں علامہ ابن الھمام الحنفی ؒ متفرد ہیں۔اور ان کا یہ تفردقول شاذ اور خلاف جمہور ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔خودعلامہ ابن الھمام الحنفی ؒ کے عظیم شاگرد علامہ قاسم بن قطلوبغا ان کے تفردات کے بارے میں فرماتے ہیں: لاتقبل تفردات شیخنا۔ العرف الشذی شرح سنن الترمذی،داراحیاء التراث العربی،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1425ھ،ج:1،ص:69۔ علامہ ابن الھمام الحنفی ؒ ایک مستند حنفی اور معتبر عالم دین ہے۔فتح القدیر ان کی ایک بے مثال شرح ھدایہ ہے جوکہ فقہ حنفی کا ایک عظیم ذخیرہ ہے۔لیکن ان سب کے باوجود جہاں جہاں ان کا تفرد ہے وہ مفتیٰ بہ نہیں بلکہ قول شاذ ہونے کی وجہ سے متروک ہوگا،کیونکہ قول مرجوح پر فتویٰ دینا خرق اجماع کے مترادف ہے۔علامہ الحصکفی ؒ فرماتے ہیں: وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جھل وخرق للاجماع۔ ردالمحتار علیٰ الدرالمختار،دارالثقافۃ والتراث ،دمشق،الطبعۃ الاولیٰ،1421ھ،ج:1،ص:243۔ علامہ عبدالحئ الکھنوی الحنفی ؒ فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح کو سنت اور بقیہ کو مستحب کہنا علامہ ابن الھمام ؒ کا تفرد ہے جو کہ مذھب حنفیہ کے ساتھ ساتھ حدیث کے بھی مخالف ہے۔اس وجہ سے کسی کے لیے بھی ابن الھمام ؒ کے قول کو لینا جائز نہیں ہے،فرماتے ہیں: فما لرجل ان یاخذ بقول ابن الھمام وحدہ فی ھٰذا المبحث مع کونہ مخالفاللمذھب والحدیث،اما کونہ مخالفا للمذھب فلما ذکرنا عن جمع منھم واما کونہ مخالفا للحدیث فلما اوردنا سابقا من الاخبار الدالۃ علیٰ لزوم اتباع سنن الخلفاء ولاسیماالشیخین منھم۔۔۔۔الخ تحفۃ الاخیار ،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،1419ھ،ص:67،68۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آٹھ رکعت تراویح کے قائلین غیرمقلدین کے مشہور عالم مولاناارشاد الحق اثری صاحب نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ علامہ ابن الھمام ؒ کے تفردات قابل قبول نہیں ہیں۔اپنی کتاب توضیح الکلام میں "علامہ ابن الھمام کے تفردات کا حکم"کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں: زیربحث مسئلہ کے علاوہ بھی کئی مسائل میں انھوں نے اپنے ہم فکر علماء سے اختلاف کیا ہے،لیکن ان کے اختلاف کوخود علمائے احناف نے بنظراستحسان نہیں دیکھا۔۔۔۔لہٰذا حنفی مذھب کے خلاف ان کا جو بھی قول ہوگا وہ مقبول نہیں ہوگا۔ توضیح الکلام فی وجوب القراءۃ خلف الامام ،ادارۃ العلوم الاثریۃ،فیصل آباد،طبع ثانی،1426ھ،ج:2،ص:880۔ دوسری عبارت :امام الطحطاوی الحنفی لکھتے ہیں: لان النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام لم یصلھا عشرین ،بل ثمانی۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت پڑھی ہے۔ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،ج:1،ص:295 جواب:مذکورہ عبارت کافی تلاش کرنے کے بعد بھی ہمیں حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار میں نہ مل سکی،البتہ علامہ ابن الھمام ؒ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ذکرفی فتح القدیر ماحاصلہ ان الدلیل یقتضی ان تکون السنۃ من العشرین ما فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم منھا ثم ترکہ خشیۃ ان یکتب علینا والباقی مستحبا ۔وقد ثبت ان ذالک کا ن احدی عشررکعۃ بالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشۃ فاذا یکون المسنون علیٰ اصول مشایخنا ثمانی منھا والمستحب اثنتی عشرۃ انتھیٰ۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،مطبعہ عامرہ،مصر،1383ھ،ج:1،ص:295۔ لیکن یہ تو امام الطحطاوی ؒ نے علامہ ابن الھمام ؒ کا قول نقل کیا ہے جس کی پوری وضاحت گزرچکی ہے۔خود امام احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی الحنفی ؒ بیس رکعت تراویح کو ہی سنت مؤکدہ مانتے ہیں۔فرماتے ہیں: وھی سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقولہ علیہ السلام ان اللہ تعالیٰ فرض علیکم صیامہ وسننت لکم قیامہ کافی ۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،مطبعہ عامرہ،مصر،1383ھ،ج:1،ص:295۔ اپنی ایک اور مشہور کتاب حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح میں تراویح پرگفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وانما ثبت العشرون بمواظبۃ الخلفاء الراشدین ما عدا الصدیق رضی اللہ عنہ ففی البخاری فتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والامر علیٰ ذالک فی خلافۃ ابی بکر وصدر من خلافۃ عمر حین جمعھم عمر علیٰ ابی بن کعب فقام بھم فی رمضان فکان ذالک اول اجتماع الناس علیٰ قارئ واحد فی رمضان کما فی فتح الباری وبالجملۃ فھی سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنھا لنا وندبنا الیھا،وکیف لا وقد قال صلی اللہ علیہ وسلم علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی عضوا علیھا بالنواجذ۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ص:411۔ اسی طرح آگے جاکر بیس رکعت تراویح کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وھی عشرون رکعۃ الحکمۃ فی تقدیرھا بھٰذا العدد مساواۃ المکمل وھی السنن للمکمل وھی الفرائض الاعتقادیۃ والعملیۃ۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ص:414۔ بلکہ جو شخص بیس رکعت تراویح کےمسنون ہونے کا قائل نہ ہو اسے امام الطحطاوی گمراہ ،بدعتی اورمردود الشہادۃسمجھتے ہیں، فرماتے ہیں: التراویح سنۃ باجماع الصحابۃ ومن بعدھم من الامۃ منکرھا مبتدع ضال مردود الشھادۃ کما فی المضمرات۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ص:411۔ امام الطحطاوی ؒ کی اتنی صریح عبارتوں کے باوجود بھی یہ کہنا کہ امام الطحطاوی آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے،سراسر غلط بیانی ہے۔ تیسری عبارت: علامہ ابن نجیم المصری الحنفی نے ابن الھمام الحنفی سے بطور اقرار نقل کیا ہے: فاذن یکون المسنون علیٰ اصول مشایخنا ثمانیۃ منھا والمستحب اثنا عشر۔ کہ ہمارے مشائخ کے اصول پر اس طرح ہے کہ آٹھ رکعت مسنون اور بارہ رکعت مستحب ہو جاتے ہیں۔ البحرالرائق شرح کنزالدقائق،ج:2،ص:72 جواب:جیسا کہ زید نے خود ہی یہ تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ عبارت علامہ ابن نجیم المصری الحنفی ؒ نے علامہ ابن الھمام کی فتح القدیر سے نقل کی ہے تو یہ صرف انھوں نے علامہ ابن الھمام کا قول نقل کیا ہے،خود ان کا اپنا رجحان یہ نہیں ہے۔علامہ ابن الھمام ؒ کے قول کی وضاحت ہو چکی ہے۔البتہ زید کا یہ کہنا کہ "علامہ ابن نجیم المصری الحنفی نے ابن الھمام سے بطور اقرار نقل کیا ہے"یہ زید کا صرف ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔ علامہ ابن نجیم المصری الحنفی ؒ فقہ حنفی کے ایک مستند شخصیت ہیں ۔آپ کا اپنامذھب بیس رکعت تراویح ہی کا ہے اور آپ بیس رکعت تراویح کو سنت مؤکدہ مانتے ہیں۔علامہ ابن نجیم المصری نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عمل کو سنت مؤکدہ کہا ہے اور اس پراجماع نقل کیا ہے،اور ظاہر ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت تراویح پر ہی امت کو جمع کیا ہے تواب یہ کہنا کہ ابن نجیم المصری الحنفی ؒ درحقیقت علامہ ابن الھمام کی طرح آٹھ رکعت کو سنت اور بارہ کومستحب مانتے ہیں ،محض ایک افتراء کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔فرماتے ہیں: وذکرفی الاختیار ان ابایوسف سال اباحنیفۃ عنھا وما فعلہ عمر فقال:التراویح سنۃ مؤکدۃ الم یتخرجہ عمر من تلقاء نفسہ ولم یکن فیہ مبتدعا ولم یامر بہ الا عن اصل لدیہ وعھد من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:ولا ینافیہ قول القدوری انھا مستحبۃ کما فھمہ فی الھدایۃ عنہ لانہ انما قال یستحب ان یجتمع الناس وھو یدل علیٰ ان الاجتماع مستحب ولیس فیہ دلالۃ علیٰ ان التراویح مستحبۃ کذا فی العنایۃوشرح منیۃ المصلی وحکی غیر واحد الاجماع علیٰ سنیتھا۔۔۔۔الخ البحرالرائق شرح کنزالدقائق،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:2،ص:117۔ آگے جاکر بیس کے عدد کی صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں : قولہ عشرون رکعۃ بیان لکمیتھاوھو قول الجمھور لما فی المؤطا عن یزید بن رومان قال:کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرین رکعۃ وعلیہ عمل الناس شرقاًوغرباً۔۔۔۔الخ البحرالرائق شرح کنزالدقائق،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:2،ص:117۔ چوتھی عبارت: ملا علی القاری الحنفی لکھتے ہیں: فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی عشرۃ بالوتر فی جماعۃ فعلہ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ کہ ان سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح)گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے ۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،ج:3،ص:345 جواب:حضرت ملا علی القاری ؒ بھی دیگرائمہ احناف کی طرح بیس رکعت تراویح ہی کے قائل ہیں۔ان کی مذکورہ بالا عبارت ادھوری نقل کی گئی ہے،پوری عبارت ملاحظہ ہو: فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی عشرۃ بالوتر فی جماعۃ فعلہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ثم ترکہ لعذر افاد انہ لولاخشیۃ ذالک لواظبت بکم۔ولاشک فی تحقق الامن من ذالک بوفاتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فیکون سنۃ وکونھا عشرین سنۃ الخلفاء الراشدین وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ندب الیٰ سنتھم۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:345۔ اسی طرح ایک اور مقام پر بیس رکعت کی تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ثم استقر الامر علیٰ العشرین فانہ المتوارث۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:345 ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : اجمع الصحابۃ علیٰ ان الراوی(التراویح،اُتلوی)عشرون رکعۃ۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:346۔ ایک اور مقام پرفرماتے ہیں: والذی صح انھم کانوا یقومون علیٰ عھد عمر بعشرین رکعۃ۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:342 حضرت ملاعلی القاری ؒ کی ایک اور کتاب ہے جس کا نام ہے "فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ"وہاں تراویح پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: والحاصل ان الاصح فیھا انھا سنۃ مؤکدۃ کما رواۃ الحسن عن ابی حنیفۃ۔۔۔۔الخ فتح باب العنایۃ بشرح النقایہ،شرکۃ دار الارقم للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:1،ص:341۔ آٹھ رکعت اور بیس رکعت والی روایات پرگفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وجمع بینھما بان الاقل وقع اولا ثم استقر الامر علیٰ العشرین فانہ المتوارث بناء علیٰ ماتقدم واللہ اعلم فصاراجماعا۔۔۔۔الخ فتح باب العنایۃ بشرح النقایہ،شرکۃ دار الارقم للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:1،ص:342۔ پانچویں عبارت: محمداحسن نانوتوی الحنفی لکھتے ہیں : لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یصلھا عشرین بل ثمانیا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت پڑھی ہیں۔ حاشیہ کنزالدقائق،ص:36،حاشیہ:4 جواب:مولانااحسن نانوتوی حنفی ؒ بھی دیگرائمہ احناف کی طرح بیس رکعت تراویح ہی کے قائل ہیں۔مذکورہ عبارت سے یہ ثابت کرنا کہ حضرت بھی آٹھ رکعت تراویح کے قائل ہیں ،بالکل بھی درست نہیں ہے۔اصل میں اس مذکورہ عبارت میں مولانااحسن نانوتوی ؒ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تراویح کو سنت عمر کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور اس وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ بعض فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگرکسی نے تراویح کوسنت عمر کہا تو کافر ہوجائے گا ۔امام الطحطاوی ؒ نے فتاویٰ بزازیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ: لوقال التراویح سنۃ عمر کفر لانہ استخفاف۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،مطبعہ عامرہ،مصر،ج:1،ص:295۔ تواپنی اس عبارت میں مولانااحسن نانوتوی صاحب فرماتے ہیں کہ تراویح کوسنت عمر کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یہاں ان کامقصد تراویح کوآٹھ رکعت ثابت کرنا نہیں ہے۔پوری عبارت ملاحظہ ہو: ولاباس بان یقال التراویح سنۃ عمر رضی اللہ عنہ لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یصلھا عشرین بل ثمانیا ولم یواظب علیٰ ذالک وبین العذر فی ترک المواظبۃ علیھا بالجماعۃ ھوخشیۃ ان تکتب علینا وصلی عمر بعدہ عشرین ووافقہ الصحابۃ علیٰ ذالک۔۔۔۔الخ حاشیہ کنزالدقائق،قدیمی کتب خانہ،آرام باغ،کراچی،ص:36،حاشیہ:4۔ اسی حاشیے میں آگے جاکر بیس رکعت تراویح پراجماع کونقل کرتے ہوئے اور بیس رکعت کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: والسر فی کونھا عشرین ان السنن شرعت مکملات للواجبات وھی مع الوتر عشرون رکعۃ فکانت التراویح کذالک وعند مالک ست وثلاثون رکعۃ استدلالا بفعل اھل المدینۃ ولنا ما روی البیھقی باسناد صحیح انھم کانوایقومون علیٰ عھد عمر بعشرین رکعۃ وکذا علیٰ عھد عثمان وعلی فصار اجماعاً۔۔۔۔الخ حاشیہ کنزالدقائق،قدیمی کتب خانہ،آرام باغ،کراچی،ص:36،حاشیہ:4۔ چھٹی عبارت: عبدالشکور لکھنوی الحنفی لکھتے ہیں : اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہیں اورایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت بھی ہیں۔ علم الفقہ،ص:195 جواب:حضرت مولاناعبدالشکورلکھنوی الحنفی ؒ کی عبارت ادھوری نقل کی گئی ہے۔مولانا عبدالشکور لکھنوی ؒ بیس رکعت تراویح کو سنت مؤکدہ اور آٹھ رکعت کو خلاف سنت سمجھتے تھے۔ان کی پوری عبارت ملاحظہ ہو: اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہیں اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت بھی۔مگرحضرت فاروق اعظم نے اپنی خلافت کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھنے کا حکم فرمایااورجماعت قائم کردی۔ابی بن کعب کا اس جماعت کا امام کیا۔اس کے بعد تمام صحابہ کا یہی دستور ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں اس کا انتظام رکھا۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اپنے اوپر لازم سمجھو،اُسے اپنے دانتوں سے پکڑو۔پس برحقیقت اگرکوئی آٹھ رکعت تراویح پڑھے تو وہ مخالف سنت کہا جائے گا نہ موافق سنت۔۔۔۔الخ علم الفقہ،دارالاشاعت،کراچی،اشاعت اول،اگست 1965ء،حصہ دوم،ص:179۔ ساتویں عبارت: عبدالحئ لکھنوی الحنفی لکھتے ہیں: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح دوطرح ادا کی ہیں ،بیس رکعتیں باجماعت لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔آٹھ رکعتیں اور تین وتر باجماعت اس کی سند جید ہے۔ فتاویٰ عبدالحئ ،ج:1،ص:331 جواب:حضرت مولانا عبدالحئ لکھنوی ؒ کی عبارت نقل کرنے میں بھی قطع وبرید سے کام لیا گیا ہے۔ان کی پوری عبارت "مجموعہ الفتاویٰ"سے ملاحظہ ہو: ازان حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادا کردن قیام رمضان کہ معروف بہ تراویح است بدوطریق مرویست۔یکے مقدار بست رکعت بدون جماعت قال ابن عباس کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان فی غیرجماعۃ عشرین رکعۃ والوتر اخرجہ ابن ابی شیبہ وعبدبن حمید والبغوی فی معجمہ والطبرانی والبیھقی لیکن سند این روایات ضعیف است،چنانچہ تفصیل آں مع مالہ وما علیہ دررسالہ تحفۃ الاخیار فی احیاء سنۃ سید الابرار ساختہ ام۔۔۔۔الخ مجموعۃ الفتاویٰ،مطبع شوکت اسلام،1309ھ،ج:1،ص:311۔ عبارت کے آخر میں مولانا عبدالحئ لکھنوی ؒ نے اپنی کتاب "تحفۃ الاخیار"کاحوالہ دیا ہےکہ رکعات تراویح کی پوری تفصیل تمام اعتراضات اور ان کے جوابات سمیت میں نے اپنے اس کتاب میں بیان کی ہے۔حضرت کی یہ کتاب مطبوعہ اور دستیاب ہے۔بیس رکعات تراویح کے ثبوت پر اس سے زیادہ مدلل کتاب شاید ہی کوئی ہو۔اپنی اس کتاب میں حضرات خلفائے راشدین کی تابعداری ، سنت مؤکدہ کی تعریف اور رکعات تراویح کی تعدا دپر جس مدلل انداز میں گفتگو کی ہے ،اس کی نظیرملنی محال ہے۔بیس رکعت تراویح پر وارد ہونے والے تمام اشکالات کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔فجزاہ اللہ خیراً۔آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والے کو گنہگار بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: والامرالثالث ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ مؤکدۃ۔لانہ مما واظب علیہ الخلفاء وان الم یواظب علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔وقد سبق ان سنۃ الخلفاء ایضا لازم الاتباع وتارکھا آثم وان کان اثمہ دون اثم تارک السنۃ النبویۃ۔۔۔۔الخ تحفۃ الاخیار،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ ،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،1419ھ،ص:67،68،مشمولہ مجموعۃ رسائل اللکنوی،ج:4۔ علاوہ ازیں حضرت مولاناعبدالحئ الکھنوی ؒ نے اپنے فتاویٰ میں بیس رکعت تراویح پر مفصل فتویٰ دیا ہے۔سائل کے سوال اور علامہ الکھنوی ؒ کے مفصل جواب کے چند ایک اقتباسات ملاحظہ ہو: استفتاء نمبر9:ماقولکم رحمکم اللہ اندریں مسئلہ کہ نماز تراویح بموجب مذھب امام اعظم بقول مفتیٰ بہ بعدوبست رکعت سنت مؤکدہ است یاکم وبیش۔بینوافتوجروا۔ ہوالمصوب:نماز تراویح بمذھب حنفیہ بست رکعت سنت مؤکدہ است۔وقول استحباب آں اعتباری ندارد۔وبرہمیں عدد مواظبت اکثر صحابہ رضی اللہ عنھم ثابت شدہ است۔بلکہ دربعض روایات خواندن آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم بست رکعت وارد شدہ است۔۔۔۔الخ بیس رکعت والی روایت پر محدثین نے جو ضعف کاحکم لگایا ہے اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: وبعض محدثین اگرچہ تضعیف آں روایت کردہ اند مگر ضعف آں بحدی نیست کہ از دائرہ قبول خارج گردد۔۔۔۔الخ آٹھ رکعت والی روایت کا محمل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد تہجد کی نماز ہے نہ کہ نماز تراویح۔فرماتے ہیں: آں روایت محمول برنماز تہجد است۔۔۔۔الخ اس طویل تفصیلی فتویٰ کے آخرمیں فرماتے ہیں کہ جب خلفائے راشدین نے بیس رکعت پرمواظبت کی ہے توبیس رکعت کے سنت مؤکدہ ہونے میں زرابھی شک کی گنجائش نہیں۔فرماتے ہیں: پس بعدثبوت مواظبت خلفاء بربست رکعت جائے شک وتشکیک دربودن ایں قدر سنت مؤکدہ باقی نماندہ ۔ھٰذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ حسن الثواب۔ مجموعۃ الفتاویٰ،مطبع شوکت اسلام،1309ھ،ج:1،ص:7تا10۔ علاوہ ازیں مولانا عبدالحئ لکھنوی ؒ نے اپنے ہدایۃ کے حاشیہ میں بھی اس موضوع پر کلام کیا ہے۔ملاحظہ ہو حاشیہ ہدایہ،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،ج:1،ص:157۔لہٰذا یہ کہنا کہ حضرت مولانا عبدالحئ الکھنویؒ آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے،سراسر غلط بیانی ہے۔ آٹھویں عبارت: خلیل احمد سہارنپوری الحنفی لکھتے ہیں : البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام نے آٹھ کوسنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے ،سویہ قول قابل طعن کے نہیں۔ ایک اور جگہ سہارنپوری صاحب لکھتے ہیں : اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگرخلاف (اختلاف)ہے تو بارہ میں ہے۔ البراہین القاطعۃ جواب:البراہین القاطعہ محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ کی تالیف انیق ہے جوکہ انھوں نے مشہور بریلوی عالم مولانا عبدالسمیع رامپوری کی کتاب "انوار ساطعہ دربیان مولود وفاتحہ"کے جواب میں تحریر فرمائی ہے۔ اس کتاب میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ کا منہج یہ ہے کہ وہ مولوی عبدالسمیع رامپوری کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی مدلل انداز میں تردید کرتے ہیں۔جب تک مولوی عبدالسمیع کی کتاب "انوارساطعہ"کا ساتھ ساتھ مطالعہ نہ کیا جائے تب تک حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری کی عبارتوں کو سمجھنا مشکل ہے۔سوال میں حضرت سہارنپوری ؒ کی جو دو عبارتیں نقل کی گئی ہیں ، ان دونوں مقامات میں درحقیقت حضرت سہارنپوری نے مولوی عبدالسمیع کی عبارتوں پر تبصرہ کیا ہے۔دونوں مقامات ملاحظہ ہو: مولوی عبدالسمیع لکھتے ہیں"اب کس کس اختلاف کوبیان کیجیئے ایک کہتا ہے کہ وتر ایک رکعت پڑھوتین رکعت ضرور نہیں اور تراویح بیس پڑھنی بدعت ہےآٹھ سنت ہے۔۔۔۔الخ"(انوارساطعہ) اس پرتبصرہ کرتے ہوئے مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ فرماتے ہیں : قولہ :کہتا ہے کہ وتر کی ایک رکعت۔۔۔ الخ اقول:وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے اور عبداللہ بن عمر اورابن عباس وغیرھما صحابہ اس کے مقر اورمالک وشافعی واحمد کاوہ مذھب ،پھراس پرطعن کرنا مؤلف کاان سب پرطعن ہے۔کہواب ایمان کا کیا ٹھکانہ جب آنکھ بند کرکے ائمہ مجتہدین پراورصحابہ اوراحادیث پرتشنیع کی۔پس یہ تحریر بجزجہل کے اورکیا درجہ رکھتی ہے۔معاذاللہ منھا۔ قولہ:بیس پڑھنی ۔۔۔الخ اقول:تراویح آٹھ سے زیادہ کوبدعت کہنا قول کسی عالم کا نہیں بلکہ قول سفہاء کا ہے ایسے اقوال ساقطہ کا ذکر یہاں بے محل ہے۔البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کوسنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے سویہ قول قابل طعن کے نہیں۔۔۔الخ براھین قاطعہ بجواب انوارساطعہ،دارالاشاعت ،کراچی،اشاعت اول،1987ء،ص:8۔ مذکورہ عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت خلیل احمد سہارنپوری ؒ نے درحقیقت مولانا عبدالسمیع کے قول کی تردید کی ہے۔ضمن میں ابن ہمام کے قول کو اس وجہ سے ذکر کیا ہے کہ مولوی عبدالسمیع نے کہا تھا کہ"تراویح بیس پڑھنی بدعت ہے آٹھ سنت ہے"توعلامہ سہارنپوری نے جواب میں فرمایا کہ آٹھ سے زائد کو بدعت کسی عالم نے نہیں کہا ۔اگرکسی نے کہا ہو تو وہ کوئی جاہل ہی ہوگا۔البتہ ابن ہمام نے آٹھ سے زائد کو مستحب کہا ہے تووہ قابل ملامت نہیں۔ اب اس عبارت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ حضرت مولاناخلیل احمد سہارنپوری ؒ خود آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے،تعجب خیز ہے۔ کیونکہ اس عبارت میں حضرت سہارنپوری تراویح کاآٹھ ہونا ثابت نہیں کررہے بلکہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ تراویح کو کوئی بھی بدعت نہیں مانتا۔ دوسری عبارت ملاحظہ ہو: مولوی عبدالسمیع صاحب عید میلادالنبی کے جواز میں بدعت حسنہ پراستدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح تین رات پڑھ کر چھوڑ دی تھی۔نہ اس میں یہ بیان ہوا تھا کہ اول شب میں ان کا پڑھنا چاہیئے یا آخر شب میں ،اور تمام رمضان کی راتوں میں پڑھنا چاہیئے یا کسی رات میں پڑھ لینا کافی ہے ان کو،اور نہ مقدار قرات کا بیان ہوا تھا کہ ختم قرآن ہو یا نہ ہو،اور نہ یہ بیان کہ اپنے گھر میں پڑھیں یا مسجد میں،اور نہ کچھ اس کے لیے تمام اہتمام وانتظام جماعت کاارشاد ہوا تھا۔اوراسی طرح حضرت ابوبکر کے دورہ میں بھی رہا۔پھرحضرت عمر نے اس میں اہتمام زیادہ کیا اور حکم دیا تمیم داری کو کہ عورتوں کو تراویح پڑھا دیں۔اور ابی بن کعب کو حکم دیا کہ مردوں کو نماز تراویح پڑھا دیں اور مردوں کو مسجد میں جماعت تراویح کا حکم دیا۔اورپہلے صحابہ اپنے اپنے گھر میں بلاجماعت پڑھتے تھے۔اورحضرت عمر نے مسجد میں قندیل روشن کیئے۔اور حجۃ اللہ البالغہ میں ہے کہ یہ بھی حکم دیا کہ بعد عشاء کے شروع رات میں میں پڑھا کرو۔یعنی بطور تہجد پچھلی رات کو مت پڑھو۔غرض یہ کہ حضرت عمر نے اس نماز کو کہ حضرت نے کچھ پڑھ کرچھوڑ دی تھی جاری فرمایا۔اوربعض خصوصیات وتعینات اس میں زائد فرما ئیں۔تب بباعث عارض ہونے ہیئت کذائی جدید کے آپ نے بزبان خود اس کوبدعت فرمایالیکن تعریف کے ساتھ یعنی یہ فرمایا نعمت البدعۃ یعنی یہ اچھی بدعت ہے۔۔۔۔الخ(انوارساطعہ) اس عبارت پرتبصرہ کرتے ہوئے حضرت مولاناخلیل احمد سہارنپوری ؒ فرماتے ہیں کہ تراویح من قام رمضان ایماناواحتسابا والی حدیث سے ثابت ہے اور قاعدہ ہے کہ المطلق یجری علیٰ اطلاقہ توجب تراویح حدیث سے ثابت ہے تویہ تمام چیزیں بھی ثابت ہوگئیں،اور حضرت عمر نے جو فرمایا تھا کہ نعمت البدعۃ تویہاں بدعت بمعنی لغوی کے ہے۔چنانچہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒفرماتے ہیں: اور تراویح کی تحقیق سنوکہ فخرعالم صلی اللہ علیہ وسلم خود فعل فرما چکے ہیں اور سنت لکم قیامہ الحدیث من قام ایمانا واحتسابا غفرلہ الحدیث اوراس کا فعل ابتداعی کردکھایا۔ثواب فعل اورمطلق قول سے جس قدر امورصلوٰ ۃ تراویح کے ہیں سب ثابت ہوگئے۔ المطلق یجری علیٰ اطلاقہ۔تومؤلف کے وجوہ نعمت البدعۃ کے اگرچہ کسی کے اتباع سے لکھےسب لغو ہوگئے۔کیونکہ یہ سب امور بصریح النص ثابت ہیں ۔مقیدات مطلق کے سب ظاہر کہلاتے ہیں۔بلکہ بدعت ہونے کی وجہ بمعنی لغوی وہ ہے ظہوروشیوع اوراخذ و دوام مثل سنن مؤکدات کے ہیں ،اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت توبالاتفاق ہے اگرخلاف ہے تو بارہ میں ہے۔اور قاعدہ شرع سے محقق ہوگیا کہ ترک سنت مؤکدہ میں عتاب ہوتا ہے۔پس معنی قول ابو امامۃ کے یہ تھے کہ تم نے اس سنت مؤکدہ کو اختیارکیا ہے ۔توحدوث سے حدوث اختیارفعل ہےنہ حدوث ایجادجیسامؤلف سمجھا،کیونکہ ایجاد تو صراحتاً اس کا فخرعالم کرچکے تھے۔ اور یہ امر سنت مؤکدہ ہے اس کو دائم رکھنا ورنہ خدشہ عتاب ہے۔۔۔۔الخ البراہین القاطعہ بجواب انوار ساطعہ،دارالاشاعت،کراچی،اشاعت اول ،1987ء،ص:195۔ مولوی عبدالسمیع نے حضرت عمر کے فعل سے عید میلادالنبی کے جواز پر استدلال کرنے کی کوشش کی تھی،حضرت سہارنپوری ؒ نے مدلل علمی انداز میں تردید فرمائی۔دوران تردید یہ جملہ"سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت توبالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے"سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سہارنپوری ؒ آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے؟پوری عبارت کو سیاق وسباق کے ساتھ دیکھنے سے ہی اس عبارت کا اصل مدعا سامنے آتھا ہے کہ درحقیقت حضرت سہارنپوی ؒ نے مولوی عبدالسمیع کے نعمت البدعۃ والے لفظ سے عید میلاد النبی پراستدلال کی تردید ہے۔باقی حضرت نے جو فرمایا ہے کہ تراویح کا آٹھ رکعت سنت مؤکدہ ہونابالاتفاق ہے اوراگر اختلاف ہے تو بارہ میں ہے۔ان آٹھ رکعت والی اور بارہ رکعت والی روایات پر مفصل گفتگو حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی ؒ نے کی ہے جوکہ ان کے مفصل فتویٰ میں مذکور ہے اور پہلے ذکرکیا گیا ہے۔ پس خلاصہ بحث یہ نکلا کہ سوال میں مذکور تمام عبارتوں کو سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کیا گیاہے،اور ان میں سے کسی بھی عبارت سے آٹھ رکعت نماز تراویح پراستدلال تام نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی فتویٰ نمبر:1443/04
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! جمہوراحناف بیس رکعت تراویح کو ہی سنت مؤکدہ مانتے ہیں ۔صورت مسئولہ میں مذکورہ عبارتوں کو سیاق وسباق سے کاٹ کرپیش کیا گیا ہے۔ان میں سے ہرایک عبارت کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے: پہلی عبارت:علامہ ابن الھمام الحنفی لکھتے ہیں: فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی وعشرین رکعۃ بالوتر فی جماعۃ۔ ان سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح)گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے۔ فتح القدیر شرح الھدایۃ،ج:1،ص:485 جواب:علامہ ابن الھمام الحنفی ؒ بیس رکعت تراویح ہی کے قائل ہیں۔مذکورہ عبارت ادھوری نقل کی گئی ہے۔پوری عبارت ملاحظہ ہو: فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی وعشرین رکعۃ بالوتر فی جماعۃفعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر۔افاد انہ لولا خشیۃ ذالک لواظبت بکم۔ولا شک فی تحقق الامن من ذالک بوفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فیکون سنۃ وکونھا عشرین سنۃ الخلفاء الراشدین وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ندب الیٰ سنتھم۔۔۔۔الخ فتح القدیر،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:1،ص:486۔ اسی طرح ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں : ثم استقر الامر علیٰ العشرین فانہ المتوارث۔۔۔۔الخ فتح القدیر،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:1،ص: 485۔ البتہ آٹھ رکعت تراویح کو سنت اور بقیہ بارہ رکعت کو مستحب کا درجہ دینے اور تہجد وتراویح کی الگ الگ حدیثوں کو ایک دوسرے کے معارض سمجھنے میں علامہ ابن الھمام الحنفی ؒ متفرد ہیں۔اور ان کا یہ تفردقول شاذ اور خلاف جمہور ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔خودعلامہ ابن الھمام الحنفی ؒ کے عظیم شاگرد علامہ قاسم بن قطلوبغا ان کے تفردات کے بارے میں فرماتے ہیں: لاتقبل تفردات شیخنا۔ العرف الشذی شرح سنن الترمذی،داراحیاء التراث العربی،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1425ھ،ج:1،ص:69۔ علامہ ابن الھمام الحنفی ؒ ایک مستند حنفی اور معتبر عالم دین ہے۔فتح القدیر ان کی ایک بے مثال شرح ھدایہ ہے جوکہ فقہ حنفی کا ایک عظیم ذخیرہ ہے۔لیکن ان سب کے باوجود جہاں جہاں ان کا تفرد ہے وہ مفتیٰ بہ نہیں بلکہ قول شاذ ہونے کی وجہ سے متروک ہوگا،کیونکہ قول مرجوح پر فتویٰ دینا خرق اجماع کے مترادف ہے۔علامہ الحصکفی ؒ فرماتے ہیں: وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جھل وخرق للاجماع۔ ردالمحتار علیٰ الدرالمختار،دارالثقافۃ والتراث ،دمشق،الطبعۃ الاولیٰ،1421ھ،ج:1،ص:243۔ علامہ عبدالحئ الکھنوی الحنفی ؒ فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح کو سنت اور بقیہ کو مستحب کہنا علامہ ابن الھمام ؒ کا تفرد ہے جو کہ مذھب حنفیہ کے ساتھ ساتھ حدیث کے بھی مخالف ہے۔اس وجہ سے کسی کے لیے بھی ابن الھمام ؒ کے قول کو لینا جائز نہیں ہے،فرماتے ہیں: فما لرجل ان یاخذ بقول ابن الھمام وحدہ فی ھٰذا المبحث مع کونہ مخالفاللمذھب والحدیث،اما کونہ مخالفا للمذھب فلما ذکرنا عن جمع منھم واما کونہ مخالفا للحدیث فلما اوردنا سابقا من الاخبار الدالۃ علیٰ لزوم اتباع سنن الخلفاء ولاسیماالشیخین منھم۔۔۔۔الخ تحفۃ الاخیار ،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،1419ھ،ص:67،68۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آٹھ رکعت تراویح کے قائلین غیرمقلدین کے مشہور عالم مولاناارشاد الحق اثری صاحب نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ علامہ ابن الھمام ؒ کے تفردات قابل قبول نہیں ہیں۔اپنی کتاب توضیح الکلام میں "علامہ ابن الھمام کے تفردات کا حکم"کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں: زیربحث مسئلہ کے علاوہ بھی کئی مسائل میں انھوں نے اپنے ہم فکر علماء سے اختلاف کیا ہے،لیکن ان کے اختلاف کوخود علمائے احناف نے بنظراستحسان نہیں دیکھا۔۔۔۔لہٰذا حنفی مذھب کے خلاف ان کا جو بھی قول ہوگا وہ مقبول نہیں ہوگا۔ توضیح الکلام فی وجوب القراءۃ خلف الامام ،ادارۃ العلوم الاثریۃ،فیصل آباد،طبع ثانی،1426ھ،ج:2،ص:880۔ دوسری عبارت :امام الطحطاوی الحنفی لکھتے ہیں: لان النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام لم یصلھا عشرین ،بل ثمانی۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت پڑھی ہے۔ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،ج:1،ص:295 جواب:مذکورہ عبارت کافی تلاش کرنے کے بعد بھی ہمیں حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار میں نہ مل سکی،البتہ علامہ ابن الھمام ؒ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ذکرفی فتح القدیر ماحاصلہ ان الدلیل یقتضی ان تکون السنۃ من العشرین ما فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم منھا ثم ترکہ خشیۃ ان یکتب علینا والباقی مستحبا ۔وقد ثبت ان ذالک کا ن احدی عشررکعۃ بالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشۃ فاذا یکون المسنون علیٰ اصول مشایخنا ثمانی منھا والمستحب اثنتی عشرۃ انتھیٰ۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،مطبعہ عامرہ،مصر،1383ھ،ج:1،ص:295۔ لیکن یہ تو امام الطحطاوی ؒ نے علامہ ابن الھمام ؒ کا قول نقل کیا ہے جس کی پوری وضاحت گزرچکی ہے۔خود امام احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی الحنفی ؒ بیس رکعت تراویح کو ہی سنت مؤکدہ مانتے ہیں۔فرماتے ہیں: وھی سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقولہ علیہ السلام ان اللہ تعالیٰ فرض علیکم صیامہ وسننت لکم قیامہ کافی ۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،مطبعہ عامرہ،مصر،1383ھ،ج:1،ص:295۔ اپنی ایک اور مشہور کتاب حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح میں تراویح پرگفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وانما ثبت العشرون بمواظبۃ الخلفاء الراشدین ما عدا الصدیق رضی اللہ عنہ ففی البخاری فتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والامر علیٰ ذالک فی خلافۃ ابی بکر وصدر من خلافۃ عمر حین جمعھم عمر علیٰ ابی بن کعب فقام بھم فی رمضان فکان ذالک اول اجتماع الناس علیٰ قارئ واحد فی رمضان کما فی فتح الباری وبالجملۃ فھی سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنھا لنا وندبنا الیھا،وکیف لا وقد قال صلی اللہ علیہ وسلم علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی عضوا علیھا بالنواجذ۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ص:411۔ اسی طرح آگے جاکر بیس رکعت تراویح کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وھی عشرون رکعۃ الحکمۃ فی تقدیرھا بھٰذا العدد مساواۃ المکمل وھی السنن للمکمل وھی الفرائض الاعتقادیۃ والعملیۃ۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ص:414۔ بلکہ جو شخص بیس رکعت تراویح کےمسنون ہونے کا قائل نہ ہو اسے امام الطحطاوی گمراہ ،بدعتی اورمردود الشہادۃسمجھتے ہیں، فرماتے ہیں: التراویح سنۃ باجماع الصحابۃ ومن بعدھم من الامۃ منکرھا مبتدع ضال مردود الشھادۃ کما فی المضمرات۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ص:411۔ امام الطحطاوی ؒ کی اتنی صریح عبارتوں کے باوجود بھی یہ کہنا کہ امام الطحطاوی آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے،سراسر غلط بیانی ہے۔ تیسری عبارت: علامہ ابن نجیم المصری الحنفی نے ابن الھمام الحنفی سے بطور اقرار نقل کیا ہے: فاذن یکون المسنون علیٰ اصول مشایخنا ثمانیۃ منھا والمستحب اثنا عشر۔ کہ ہمارے مشائخ کے اصول پر اس طرح ہے کہ آٹھ رکعت مسنون اور بارہ رکعت مستحب ہو جاتے ہیں۔ البحرالرائق شرح کنزالدقائق،ج:2،ص:72 جواب:جیسا کہ زید نے خود ہی یہ تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ عبارت علامہ ابن نجیم المصری الحنفی ؒ نے علامہ ابن الھمام کی فتح القدیر سے نقل کی ہے تو یہ صرف انھوں نے علامہ ابن الھمام کا قول نقل کیا ہے،خود ان کا اپنا رجحان یہ نہیں ہے۔علامہ ابن الھمام ؒ کے قول کی وضاحت ہو چکی ہے۔البتہ زید کا یہ کہنا کہ "علامہ ابن نجیم المصری الحنفی نے ابن الھمام سے بطور اقرار نقل کیا ہے"یہ زید کا صرف ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔ علامہ ابن نجیم المصری الحنفی ؒ فقہ حنفی کے ایک مستند شخصیت ہیں ۔آپ کا اپنامذھب بیس رکعت تراویح ہی کا ہے اور آپ بیس رکعت تراویح کو سنت مؤکدہ مانتے ہیں۔علامہ ابن نجیم المصری نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عمل کو سنت مؤکدہ کہا ہے اور اس پراجماع نقل کیا ہے،اور ظاہر ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت تراویح پر ہی امت کو جمع کیا ہے تواب یہ کہنا کہ ابن نجیم المصری الحنفی ؒ درحقیقت علامہ ابن الھمام کی طرح آٹھ رکعت کو سنت اور بارہ کومستحب مانتے ہیں ،محض ایک افتراء کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔فرماتے ہیں: وذکرفی الاختیار ان ابایوسف سال اباحنیفۃ عنھا وما فعلہ عمر فقال:التراویح سنۃ مؤکدۃ الم یتخرجہ عمر من تلقاء نفسہ ولم یکن فیہ مبتدعا ولم یامر بہ الا عن اصل لدیہ وعھد من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:ولا ینافیہ قول القدوری انھا مستحبۃ کما فھمہ فی الھدایۃ عنہ لانہ انما قال یستحب ان یجتمع الناس وھو یدل علیٰ ان الاجتماع مستحب ولیس فیہ دلالۃ علیٰ ان التراویح مستحبۃ کذا فی العنایۃوشرح منیۃ المصلی وحکی غیر واحد الاجماع علیٰ سنیتھا۔۔۔۔الخ البحرالرائق شرح کنزالدقائق،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:2،ص:117۔ آگے جاکر بیس کے عدد کی صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں : قولہ عشرون رکعۃ بیان لکمیتھاوھو قول الجمھور لما فی المؤطا عن یزید بن رومان قال:کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرین رکعۃ وعلیہ عمل الناس شرقاًوغرباً۔۔۔۔الخ البحرالرائق شرح کنزالدقائق،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:2،ص:117۔ چوتھی عبارت: ملا علی القاری الحنفی لکھتے ہیں: فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی عشرۃ بالوتر فی جماعۃ فعلہ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ کہ ان سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح)گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے ۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،ج:3،ص:345 جواب:حضرت ملا علی القاری ؒ بھی دیگرائمہ احناف کی طرح بیس رکعت تراویح ہی کے قائل ہیں۔ان کی مذکورہ بالا عبارت ادھوری نقل کی گئی ہے،پوری عبارت ملاحظہ ہو: فتحصل من ھٰذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی عشرۃ بالوتر فی جماعۃ فعلہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ثم ترکہ لعذر افاد انہ لولاخشیۃ ذالک لواظبت بکم۔ولاشک فی تحقق الامن من ذالک بوفاتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فیکون سنۃ وکونھا عشرین سنۃ الخلفاء الراشدین وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ندب الیٰ سنتھم۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:345۔ اسی طرح ایک اور مقام پر بیس رکعت کی تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ثم استقر الامر علیٰ العشرین فانہ المتوارث۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:345 ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : اجمع الصحابۃ علیٰ ان الراوی(التراویح،اُتلوی)عشرون رکعۃ۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:346۔ ایک اور مقام پرفرماتے ہیں: والذی صح انھم کانوا یقومون علیٰ عھد عمر بعشرین رکعۃ۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:342 حضرت ملاعلی القاری ؒ کی ایک اور کتاب ہے جس کا نام ہے "فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ"وہاں تراویح پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: والحاصل ان الاصح فیھا انھا سنۃ مؤکدۃ کما رواۃ الحسن عن ابی حنیفۃ۔۔۔۔الخ فتح باب العنایۃ بشرح النقایہ،شرکۃ دار الارقم للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:1،ص:341۔ آٹھ رکعت اور بیس رکعت والی روایات پرگفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وجمع بینھما بان الاقل وقع اولا ثم استقر الامر علیٰ العشرین فانہ المتوارث بناء علیٰ ماتقدم واللہ اعلم فصاراجماعا۔۔۔۔الخ فتح باب العنایۃ بشرح النقایہ،شرکۃ دار الارقم للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1418ھ،ج:1،ص:342۔ پانچویں عبارت: محمداحسن نانوتوی الحنفی لکھتے ہیں : لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یصلھا عشرین بل ثمانیا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت پڑھی ہیں۔ حاشیہ کنزالدقائق،ص:36،حاشیہ:4 جواب:مولانااحسن نانوتوی حنفی ؒ بھی دیگرائمہ احناف کی طرح بیس رکعت تراویح ہی کے قائل ہیں۔مذکورہ عبارت سے یہ ثابت کرنا کہ حضرت بھی آٹھ رکعت تراویح کے قائل ہیں ،بالکل بھی درست نہیں ہے۔اصل میں اس مذکورہ عبارت میں مولانااحسن نانوتوی ؒ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تراویح کو سنت عمر کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور اس وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ بعض فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگرکسی نے تراویح کوسنت عمر کہا تو کافر ہوجائے گا ۔امام الطحطاوی ؒ نے فتاویٰ بزازیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ: لوقال التراویح سنۃ عمر کفر لانہ استخفاف۔۔۔۔الخ حاشیۃ الطحطاوی علیٰ الدرالمختار،مطبعہ عامرہ،مصر،ج:1،ص:295۔ تواپنی اس عبارت میں مولانااحسن نانوتوی صاحب فرماتے ہیں کہ تراویح کوسنت عمر کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یہاں ان کامقصد تراویح کوآٹھ رکعت ثابت کرنا نہیں ہے۔پوری عبارت ملاحظہ ہو: ولاباس بان یقال التراویح سنۃ عمر رضی اللہ عنہ لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یصلھا عشرین بل ثمانیا ولم یواظب علیٰ ذالک وبین العذر فی ترک المواظبۃ علیھا بالجماعۃ ھوخشیۃ ان تکتب علینا وصلی عمر بعدہ عشرین ووافقہ الصحابۃ علیٰ ذالک۔۔۔۔الخ حاشیہ کنزالدقائق،قدیمی کتب خانہ،آرام باغ،کراچی،ص:36،حاشیہ:4۔ اسی حاشیے میں آگے جاکر بیس رکعت تراویح پراجماع کونقل کرتے ہوئے اور بیس رکعت کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: والسر فی کونھا عشرین ان السنن شرعت مکملات للواجبات وھی مع الوتر عشرون رکعۃ فکانت التراویح کذالک وعند مالک ست وثلاثون رکعۃ استدلالا بفعل اھل المدینۃ ولنا ما روی البیھقی باسناد صحیح انھم کانوایقومون علیٰ عھد عمر بعشرین رکعۃ وکذا علیٰ عھد عثمان وعلی فصار اجماعاً۔۔۔۔الخ حاشیہ کنزالدقائق،قدیمی کتب خانہ،آرام باغ،کراچی،ص:36،حاشیہ:4۔ چھٹی عبارت: عبدالشکور لکھنوی الحنفی لکھتے ہیں : اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہیں اورایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت بھی ہیں۔ علم الفقہ،ص:195 جواب:حضرت مولاناعبدالشکورلکھنوی الحنفی ؒ کی عبارت ادھوری نقل کی گئی ہے۔مولانا عبدالشکور لکھنوی ؒ بیس رکعت تراویح کو سنت مؤکدہ اور آٹھ رکعت کو خلاف سنت سمجھتے تھے۔ان کی پوری عبارت ملاحظہ ہو: اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہیں اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت بھی۔مگرحضرت فاروق اعظم نے اپنی خلافت کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھنے کا حکم فرمایااورجماعت قائم کردی۔ابی بن کعب کا اس جماعت کا امام کیا۔اس کے بعد تمام صحابہ کا یہی دستور ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں اس کا انتظام رکھا۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اپنے اوپر لازم سمجھو،اُسے اپنے دانتوں سے پکڑو۔پس برحقیقت اگرکوئی آٹھ رکعت تراویح پڑھے تو وہ مخالف سنت کہا جائے گا نہ موافق سنت۔۔۔۔الخ علم الفقہ،دارالاشاعت،کراچی،اشاعت اول،اگست 1965ء،حصہ دوم،ص:179۔ ساتویں عبارت: عبدالحئ لکھنوی الحنفی لکھتے ہیں: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح دوطرح ادا کی ہیں ،بیس رکعتیں باجماعت لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔آٹھ رکعتیں اور تین وتر باجماعت اس کی سند جید ہے۔ فتاویٰ عبدالحئ ،ج:1،ص:331 جواب:حضرت مولانا عبدالحئ لکھنوی ؒ کی عبارت نقل کرنے میں بھی قطع وبرید سے کام لیا گیا ہے۔ان کی پوری عبارت "مجموعہ الفتاویٰ"سے ملاحظہ ہو: ازان حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادا کردن قیام رمضان کہ معروف بہ تراویح است بدوطریق مرویست۔یکے مقدار بست رکعت بدون جماعت قال ابن عباس کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان فی غیرجماعۃ عشرین رکعۃ والوتر اخرجہ ابن ابی شیبہ وعبدبن حمید والبغوی فی معجمہ والطبرانی والبیھقی لیکن سند این روایات ضعیف است،چنانچہ تفصیل آں مع مالہ وما علیہ دررسالہ تحفۃ الاخیار فی احیاء سنۃ سید الابرار ساختہ ام۔۔۔۔الخ مجموعۃ الفتاویٰ،مطبع شوکت اسلام،1309ھ،ج:1،ص:311۔ عبارت کے آخر میں مولانا عبدالحئ لکھنوی ؒ نے اپنی کتاب "تحفۃ الاخیار"کاحوالہ دیا ہےکہ رکعات تراویح کی پوری تفصیل تمام اعتراضات اور ان کے جوابات سمیت میں نے اپنے اس کتاب میں بیان کی ہے۔حضرت کی یہ کتاب مطبوعہ اور دستیاب ہے۔بیس رکعات تراویح کے ثبوت پر اس سے زیادہ مدلل کتاب شاید ہی کوئی ہو۔اپنی اس کتاب میں حضرات خلفائے راشدین کی تابعداری ، سنت مؤکدہ کی تعریف اور رکعات تراویح کی تعدا دپر جس مدلل انداز میں گفتگو کی ہے ،اس کی نظیرملنی محال ہے۔بیس رکعت تراویح پر وارد ہونے والے تمام اشکالات کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔فجزاہ اللہ خیراً۔آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والے کو گنہگار بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: والامرالثالث ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ مؤکدۃ۔لانہ مما واظب علیہ الخلفاء وان الم یواظب علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔وقد سبق ان سنۃ الخلفاء ایضا لازم الاتباع وتارکھا آثم وان کان اثمہ دون اثم تارک السنۃ النبویۃ۔۔۔۔الخ تحفۃ الاخیار،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ ،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،1419ھ،ص:67،68،مشمولہ مجموعۃ رسائل اللکنوی،ج:4۔ علاوہ ازیں حضرت مولاناعبدالحئ الکھنوی ؒ نے اپنے فتاویٰ میں بیس رکعت تراویح پر مفصل فتویٰ دیا ہے۔سائل کے سوال اور علامہ الکھنوی ؒ کے مفصل جواب کے چند ایک اقتباسات ملاحظہ ہو: استفتاء نمبر9:ماقولکم رحمکم اللہ اندریں مسئلہ کہ نماز تراویح بموجب مذھب امام اعظم بقول مفتیٰ بہ بعدوبست رکعت سنت مؤکدہ است یاکم وبیش۔بینوافتوجروا۔ ہوالمصوب:نماز تراویح بمذھب حنفیہ بست رکعت سنت مؤکدہ است۔وقول استحباب آں اعتباری ندارد۔وبرہمیں عدد مواظبت اکثر صحابہ رضی اللہ عنھم ثابت شدہ است۔بلکہ دربعض روایات خواندن آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم بست رکعت وارد شدہ است۔۔۔۔الخ بیس رکعت والی روایت پر محدثین نے جو ضعف کاحکم لگایا ہے اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: وبعض محدثین اگرچہ تضعیف آں روایت کردہ اند مگر ضعف آں بحدی نیست کہ از دائرہ قبول خارج گردد۔۔۔۔الخ آٹھ رکعت والی روایت کا محمل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد تہجد کی نماز ہے نہ کہ نماز تراویح۔فرماتے ہیں: آں روایت محمول برنماز تہجد است۔۔۔۔الخ اس طویل تفصیلی فتویٰ کے آخرمیں فرماتے ہیں کہ جب خلفائے راشدین نے بیس رکعت پرمواظبت کی ہے توبیس رکعت کے سنت مؤکدہ ہونے میں زرابھی شک کی گنجائش نہیں۔فرماتے ہیں: پس بعدثبوت مواظبت خلفاء بربست رکعت جائے شک وتشکیک دربودن ایں قدر سنت مؤکدہ باقی نماندہ ۔ھٰذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ حسن الثواب۔ مجموعۃ الفتاویٰ،مطبع شوکت اسلام،1309ھ،ج:1،ص:7تا10۔ علاوہ ازیں مولانا عبدالحئ لکھنوی ؒ نے اپنے ہدایۃ کے حاشیہ میں بھی اس موضوع پر کلام کیا ہے۔ملاحظہ ہو حاشیہ ہدایہ،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،ج:1،ص:157۔لہٰذا یہ کہنا کہ حضرت مولانا عبدالحئ الکھنویؒ آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے،سراسر غلط بیانی ہے۔ آٹھویں عبارت: خلیل احمد سہارنپوری الحنفی لکھتے ہیں : البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام نے آٹھ کوسنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے ،سویہ قول قابل طعن کے نہیں۔ ایک اور جگہ سہارنپوری صاحب لکھتے ہیں : اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگرخلاف (اختلاف)ہے تو بارہ میں ہے۔ البراہین القاطعۃ جواب:البراہین القاطعہ محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ کی تالیف انیق ہے جوکہ انھوں نے مشہور بریلوی عالم مولانا عبدالسمیع رامپوری کی کتاب "انوار ساطعہ دربیان مولود وفاتحہ"کے جواب میں تحریر فرمائی ہے۔ اس کتاب میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ کا منہج یہ ہے کہ وہ مولوی عبدالسمیع رامپوری کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی مدلل انداز میں تردید کرتے ہیں۔جب تک مولوی عبدالسمیع کی کتاب "انوارساطعہ"کا ساتھ ساتھ مطالعہ نہ کیا جائے تب تک حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری کی عبارتوں کو سمجھنا مشکل ہے۔سوال میں حضرت سہارنپوری ؒ کی جو دو عبارتیں نقل کی گئی ہیں ، ان دونوں مقامات میں درحقیقت حضرت سہارنپوری نے مولوی عبدالسمیع کی عبارتوں پر تبصرہ کیا ہے۔دونوں مقامات ملاحظہ ہو: مولوی عبدالسمیع لکھتے ہیں"اب کس کس اختلاف کوبیان کیجیئے ایک کہتا ہے کہ وتر ایک رکعت پڑھوتین رکعت ضرور نہیں اور تراویح بیس پڑھنی بدعت ہےآٹھ سنت ہے۔۔۔۔الخ"(انوارساطعہ) اس پرتبصرہ کرتے ہوئے مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ فرماتے ہیں : قولہ :کہتا ہے کہ وتر کی ایک رکعت۔۔۔ الخ اقول:وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے اور عبداللہ بن عمر اورابن عباس وغیرھما صحابہ اس کے مقر اورمالک وشافعی واحمد کاوہ مذھب ،پھراس پرطعن کرنا مؤلف کاان سب پرطعن ہے۔کہواب ایمان کا کیا ٹھکانہ جب آنکھ بند کرکے ائمہ مجتہدین پراورصحابہ اوراحادیث پرتشنیع کی۔پس یہ تحریر بجزجہل کے اورکیا درجہ رکھتی ہے۔معاذاللہ منھا۔ قولہ:بیس پڑھنی ۔۔۔الخ اقول:تراویح آٹھ سے زیادہ کوبدعت کہنا قول کسی عالم کا نہیں بلکہ قول سفہاء کا ہے ایسے اقوال ساقطہ کا ذکر یہاں بے محل ہے۔البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کوسنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے سویہ قول قابل طعن کے نہیں۔۔۔الخ براھین قاطعہ بجواب انوارساطعہ،دارالاشاعت ،کراچی،اشاعت اول،1987ء،ص:8۔ مذکورہ عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت خلیل احمد سہارنپوری ؒ نے درحقیقت مولانا عبدالسمیع کے قول کی تردید کی ہے۔ضمن میں ابن ہمام کے قول کو اس وجہ سے ذکر کیا ہے کہ مولوی عبدالسمیع نے کہا تھا کہ"تراویح بیس پڑھنی بدعت ہے آٹھ سنت ہے"توعلامہ سہارنپوری نے جواب میں فرمایا کہ آٹھ سے زائد کو بدعت کسی عالم نے نہیں کہا ۔اگرکسی نے کہا ہو تو وہ کوئی جاہل ہی ہوگا۔البتہ ابن ہمام نے آٹھ سے زائد کو مستحب کہا ہے تووہ قابل ملامت نہیں۔ اب اس عبارت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ حضرت مولاناخلیل احمد سہارنپوری ؒ خود آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے،تعجب خیز ہے۔ کیونکہ اس عبارت میں حضرت سہارنپوری تراویح کاآٹھ ہونا ثابت نہیں کررہے بلکہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ تراویح کو کوئی بھی بدعت نہیں مانتا۔ دوسری عبارت ملاحظہ ہو: مولوی عبدالسمیع صاحب عید میلادالنبی کے جواز میں بدعت حسنہ پراستدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح تین رات پڑھ کر چھوڑ دی تھی۔نہ اس میں یہ بیان ہوا تھا کہ اول شب میں ان کا پڑھنا چاہیئے یا آخر شب میں ،اور تمام رمضان کی راتوں میں پڑھنا چاہیئے یا کسی رات میں پڑھ لینا کافی ہے ان کو،اور نہ مقدار قرات کا بیان ہوا تھا کہ ختم قرآن ہو یا نہ ہو،اور نہ یہ بیان کہ اپنے گھر میں پڑھیں یا مسجد میں،اور نہ کچھ اس کے لیے تمام اہتمام وانتظام جماعت کاارشاد ہوا تھا۔اوراسی طرح حضرت ابوبکر کے دورہ میں بھی رہا۔پھرحضرت عمر نے اس میں اہتمام زیادہ کیا اور حکم دیا تمیم داری کو کہ عورتوں کو تراویح پڑھا دیں۔اور ابی بن کعب کو حکم دیا کہ مردوں کو نماز تراویح پڑھا دیں اور مردوں کو مسجد میں جماعت تراویح کا حکم دیا۔اورپہلے صحابہ اپنے اپنے گھر میں بلاجماعت پڑھتے تھے۔اورحضرت عمر نے مسجد میں قندیل روشن کیئے۔اور حجۃ اللہ البالغہ میں ہے کہ یہ بھی حکم دیا کہ بعد عشاء کے شروع رات میں میں پڑھا کرو۔یعنی بطور تہجد پچھلی رات کو مت پڑھو۔غرض یہ کہ حضرت عمر نے اس نماز کو کہ حضرت نے کچھ پڑھ کرچھوڑ دی تھی جاری فرمایا۔اوربعض خصوصیات وتعینات اس میں زائد فرما ئیں۔تب بباعث عارض ہونے ہیئت کذائی جدید کے آپ نے بزبان خود اس کوبدعت فرمایالیکن تعریف کے ساتھ یعنی یہ فرمایا نعمت البدعۃ یعنی یہ اچھی بدعت ہے۔۔۔۔الخ(انوارساطعہ) اس عبارت پرتبصرہ کرتے ہوئے حضرت مولاناخلیل احمد سہارنپوری ؒ فرماتے ہیں کہ تراویح من قام رمضان ایماناواحتسابا والی حدیث سے ثابت ہے اور قاعدہ ہے کہ المطلق یجری علیٰ اطلاقہ توجب تراویح حدیث سے ثابت ہے تویہ تمام چیزیں بھی ثابت ہوگئیں،اور حضرت عمر نے جو فرمایا تھا کہ نعمت البدعۃ تویہاں بدعت بمعنی لغوی کے ہے۔چنانچہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒفرماتے ہیں: اور تراویح کی تحقیق سنوکہ فخرعالم صلی اللہ علیہ وسلم خود فعل فرما چکے ہیں اور سنت لکم قیامہ الحدیث من قام ایمانا واحتسابا غفرلہ الحدیث اوراس کا فعل ابتداعی کردکھایا۔ثواب فعل اورمطلق قول سے جس قدر امورصلوٰ ۃ تراویح کے ہیں سب ثابت ہوگئے۔ المطلق یجری علیٰ اطلاقہ۔تومؤلف کے وجوہ نعمت البدعۃ کے اگرچہ کسی کے اتباع سے لکھےسب لغو ہوگئے۔کیونکہ یہ سب امور بصریح النص ثابت ہیں ۔مقیدات مطلق کے سب ظاہر کہلاتے ہیں۔بلکہ بدعت ہونے کی وجہ بمعنی لغوی وہ ہے ظہوروشیوع اوراخذ و دوام مثل سنن مؤکدات کے ہیں ،اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت توبالاتفاق ہے اگرخلاف ہے تو بارہ میں ہے۔اور قاعدہ شرع سے محقق ہوگیا کہ ترک سنت مؤکدہ میں عتاب ہوتا ہے۔پس معنی قول ابو امامۃ کے یہ تھے کہ تم نے اس سنت مؤکدہ کو اختیارکیا ہے ۔توحدوث سے حدوث اختیارفعل ہےنہ حدوث ایجادجیسامؤلف سمجھا،کیونکہ ایجاد تو صراحتاً اس کا فخرعالم کرچکے تھے۔ اور یہ امر سنت مؤکدہ ہے اس کو دائم رکھنا ورنہ خدشہ عتاب ہے۔۔۔۔الخ البراہین القاطعہ بجواب انوار ساطعہ،دارالاشاعت،کراچی،اشاعت اول ،1987ء،ص:195۔ مولوی عبدالسمیع نے حضرت عمر کے فعل سے عید میلادالنبی کے جواز پر استدلال کرنے کی کوشش کی تھی،حضرت سہارنپوری ؒ نے مدلل علمی انداز میں تردید فرمائی۔دوران تردید یہ جملہ"سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت توبالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے"سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سہارنپوری ؒ آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے؟پوری عبارت کو سیاق وسباق کے ساتھ دیکھنے سے ہی اس عبارت کا اصل مدعا سامنے آتھا ہے کہ درحقیقت حضرت سہارنپوی ؒ نے مولوی عبدالسمیع کے نعمت البدعۃ والے لفظ سے عید میلاد النبی پراستدلال کی تردید ہے۔باقی حضرت نے جو فرمایا ہے کہ تراویح کا آٹھ رکعت سنت مؤکدہ ہونابالاتفاق ہے اوراگر اختلاف ہے تو بارہ میں ہے۔ان آٹھ رکعت والی اور بارہ رکعت والی روایات پر مفصل گفتگو حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی ؒ نے کی ہے جوکہ ان کے مفصل فتویٰ میں مذکور ہے اور پہلے ذکرکیا گیا ہے۔ پس خلاصہ بحث یہ نکلا کہ سوال میں مذکور تمام عبارتوں کو سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کیا گیاہے،اور ان میں سے کسی بھی عبارت سے آٹھ رکعت نماز تراویح پراستدلال تام نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی فتویٰ نمبر:1443/04