آن لائن کمپنی ایمپیرئیل کراؤن کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایمپیرئیل کراون(imperial crown) نامی ایک ایپلیکیشن ہے جس میں آن لائن کاروبار کیا جاتا ہے ۔اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے ڈالرز کی صورت میں کچھ investment کرنی پڑتی ہے ۔ پھر یہ لوگ روزانہ آپ کو 60 آرڈرز دیں گے اورآپ اپنے آپ کو بائع ظاہر کرکے yesکے نشان پر کلک کریں گے جس کے عوض یہ لوگ آپ کو اپنے انوسٹ کیے ہوئے رقم کا تین فیصد بطورکمیشن دیتے ہیں۔اگرآپ روزانہ پورے 60 آرڈرز لے کران پرyesکے نشان پرکلک کریں گے تو پورا تین فیصد کمیشن ملے گا اگر 60 سے کم آرڈرز لیں گے تو کمیشن بھی اس حساب سے کم ملے گا۔کمیشن کا اصول یہ ہےکہ آپ کو اپنے انوسٹ کیے ہوئے رقم کا تین فیصد بطورکمیشن ملتا ہے۔اس میں یہ بھی ہے کہ جب آپ کسی اور کو انوائٹ کرلیں اوروہ آپ کے واسطے اس میں investment کر لیں تو اس کے کمیشن کا16 فیصد آپ کوبطوربونس ملے گا۔ پھر جب وہ آگےکسی دوسرے کوانوائٹ کرے گا تواس کواس دوسرے بندے کے investment کا16فیصداورآپ کو 8فیصد بطوربونس ملے گا۔ پھرجب وہ دوسراآگے کسی تیسرے کوانوائٹ کرے گاتواس کے کمیشن کا4فیصد آپ کوبطوربونس ملے گا۔تین مرحلوں تک یہ سلسلہ بھی چلتا ہے۔آپ صاحبان شریعت مطہرہ کی روشنی میں یہ بتائیں کہ آیااس طرح کا یہ کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟المستفتیساجد علی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق ڈالرزکی صورت میں کچھ رقم کے investment کے بعد آرڈرز کےyesکے نشان پرکلک کرکے آن لائن پیسے کمانے کا جوطریقہ سوال میں بتایا گیا ہے، وہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر ناجائز ہے: 1۔سوال میں یہ بتایا گیا ہے کہ "اس میں یہ بھی ہے کہ جب آپ کسی اور کوانوائٹ کرلیں، اوروہ آپ کے واسطےسے اس میں investment کر لیں تو اس کے کمیشن کا16 فیصد آپ کوبطوربونس ملے گا۔ پھر جب وہ آگےکسی دوسرے کوانوائٹ کرے گا تو اس کواس دوسرے بندے کے investment کا16فیصداورآپ کو 8فیصد آپ کو بطوربونس ملے گا۔ پھرجب وہ دوسراآگے کسی تیسرے کوانوائٹ کرے گاتواس کے کمیشن کا4فیصد آپ کوبطوربونس ملے گا۔تین مرحلوں تک یہ سلسلہ بھی چلتا ہے۔۔۔۔۔الخ " اس کو ریفرل بونس کہا جاتا ہے (یعنی ممبردرممبردرممبربنانے کی وجہ سے پہلے ممبر جس کے توسط سے یہ چین بنی ہے ،کوبھی بونس ملنا) شریعت مطہرہ نے اس قسم کے نفع کو ناجائز قرار دیا ہے ۔لہٰذا ایسے کسی بھی ادارے سے وابستگی شرعاً جائز نہیں۔ 2۔ ایڈزوغیرہ پرکلک کرنا کوئی منفعت مقصودہ نہیں،اس وجہ سے بھی یہ اجارہ درست نہیں ہے۔ 3۔ اگر ان آرڈرزکےاشتہارات میں کسی جان دار کی تصویر ہو تواس کادیکھنا جائز نہیں ،لہٰذا اِس صورت میں اُس پرجواجرت لی جائے گی وہ بھی جائز نہیں ہوگی۔ 4۔ ان آرڈرزکے اشتہارات میں اگرخواتین کی تصاویر ہوں تو ان کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے ایک مستقل گناہ ہوگا۔ 5۔جیسا کہ سوال میں بتایاگیا ہے کہ آرڈرز پر yesکے نشان پرکلک کرتے وقت اپنے آپ کو بائع ظاہرکرنا ہوتا ہے ۔ شریعت کی رُو سے یہ ضروری ہے کہ منقولی اشیاء میں مبیع بیچنے والے یعنی بائع کی ملکیت میں ہواور وہ خود یا وکیل کے ذریعےاس پر قبضہ بھی رکھتا ہو۔ آن لائن تجارت میں اگر مبیع بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار،تصویر دکھلا کر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،سٹور وغیرہ سے خرید کر دیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔اور صورت مسئولہ میں یہی صورت حال ہے کہ مبیع بائع کی ملکیت میں نہیں ہے وہ صرف اپنے آپ کو فرضی بائع ظاہر کرتا ہے اس وجہ سے بھی یہ کاروبار جائز نہیں ہے۔ 6۔ اس میں کلک کرنے والا ایک ہی شخص کئی بار کلک کرتا ہے جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھنے والے بہت سے لوگ ہیں ، جس سے اس اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھتی ہے،حالانکہ یہ بات بھی خلاف واقعہ اور دھوکا دہی ہے۔ 7۔ عموماً آن لائن کاروبار میں کرپٹوکرنسی کا بھی معاملہ شامل ہوتا ہے حالانکہ ڈیجیٹل کرنسی تاحال مشکوک ہے اور ہمارے وطن عزیز میں اسے تاحال کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں۔جب تک مقامی حکومت اوراسٹیٹ کی جانب سے اسے کرنسی اور ثمن تسلیم نہ کیا جائے اور عوام میں جب تک اسے رواج عام نہ مل جائے اور عوام رغبت ومیلان کے ساتھ اسے قبول نہ کریں ،اس وقت تک اس کے ساتھ معاملات سے اجتناب کیا جائے۔ 8۔ آپ جو رقم انوسٹ کرتے ہیں تو اس رقم سے یہ لوگ کون سا کاروبار کرتے ہیں؟یہ بھی سوال میں واضح نہیں ۔اگریہ لوگ آپ کی investment سے کوئی ناجائز کاروبار کرتے ہوں تو یہ بھی تعاون علیٰ المعاصی ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ 9۔ ان کمپنیوں کا عموماً کوئی شرعی ایڈوائزر نہیں ہوتا جو ان کے تمام کاروبار کا شرعی نقطہ نگاہ سے نگرانی کرتا ہو۔ 10۔ جن چیزوں کے اشتہارات پر کلک کرنا پڑتا ہے ان کے بارے میں یہ صراحت نہیں ہوتی کہ آیا ان چیزوں کاکاروبار شریعت میں جائزبھی ہے یا نہیں؟کیونکہ جو چیزیں شرعاً حرام ہیں ان کی تشہیر کرکے پیسے کماناجائز نہیں ہے۔ 11۔ مصنوعی طریقے سے پروڈکٹ کواوپر لانا ایک توناجائزاشتہاربازی کی ایک صورت ہے اوردوسرے اس میں خریدار کو دھوکہ دینا ہے ۔دھوکادہی کی وجہ سے یہ عمل "بیع نجش"کی طرح ہےجس میں مقصود خریداری نہیں ہوتی صرف قیمت بڑھا چڑھا کربیان کی جاتی ہے۔اس وجہ سے بھی ان اشتہارات پر کلک کرنے سے جو پروڈکٹ رینکنگ بڑھتی ہے ،یہ عمل ناجائز ہے۔ 12۔ ان آن لائن کمپنیوں نے کمیشن کو ایک مستقل تجارتی شکل دے رکھی ہے جبکہ اسلامی نظام معیشت میں کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ۔ 13۔اس قسم کے کاروبار میں عموماً مصنوعات بیچنا اصل مقصد نہیں ہوتا بلکہ ممبر سازی کے ذریعے سے کمیشن درکمیشن کاروبار چلانا اصل مقصد ہوتا ہے، جس میں جوئے کی ایک نئی شکل بن جانے کااحتمال موجودہے۔ قال اللہ تعالیٰ:وتعاونوا علیٰ البر والتقویٰ ولا تعاونوا علیٰ الاثم والعدوان۔( القرآن) عن حکیم بن حزام قال :یارسول اللہ،یاتینی الرجل فیرید منی البیع لیس عندی،افابتاعہ لہ من السوق؟فقال:لاتبع مالیس عندک۔ سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،رقم الحدیث:3503 الثانی:ان یبیع منہ متاعا لایملکہ ثم یشتریہ من مالکہ ویدفعہ الیہ وھٰذا باطل لانہ باع مالیس فی ملکہ وقت البیع ،وھٰذا معنی قولہ:لاتبع مالیس عندک ای شیئا ً لیس فی ملکک حال العقد۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالفکر،بیروت،باب المنہی عنھا من البیوع،ج:5،ص:1937 وقد نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الملامسۃ والمنابذۃ ولان فیہ تعلیقا ً بالخطر۔۔۔۔وفیہ معنی القمار لان التملیک لایحتمل التعلیق لافضائہ الیٰ معنی القمار۔۔۔۔الخ البنایۃ شرح الھدایۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،ج:8،ص:158۔ وکرہ النجش بفتحتین ویسکن:ان یزید ولا یرید الشرآء اویمدحہ بمالیس فیہ لیروجہ ویجری فی النکاح وغیرہ۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارعالم الکتب ،ریاض،ج:7،ص:305 مطلب فی اجرۃ الدلال:قال فی التتارخانیۃ:وفی الدلال والسمسار یجب اجر المثل،وما تواضعواعلیہ ان فی کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیھم۔وفی الحاوی :سئل محمد بن سلمۃ عن اجرۃ السمسار فقال:ارجوانہ لاباس بہ وان کان فی الاصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیر من ھٰذا غیرجائز،فجوزوہ لحاجۃ الناس الیہ کدخول الحمام ۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:9،ص:87 الاجارۃ علیٰ المنافع المحرمۃ کالزنیٰ والنوح والغناء والملاھی محرمۃ،وعقدھا باطل لایستحق بہ اجرۃ،ولایجوز استیجار کاتب لیکتب لہ غناء ونوحا لانہ انتفاع بمحرم۔۔۔۔ولایجوز الاستیجار علیٰ حمل الخمر لمن یشربھا ولا علیٰ حمل الخنزیر۔۔۔۔الخ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،1/290 ھی لغۃ:اسم للاجرۃ وھومایستحق علیٰ عمل الخیر ولذا یدعی بہ،یقال اعظم اللہ اجرک،وشرعا تملیک نفع مقصودمن العین بعوض حتیٰ لواستاجرثیابا اواوانی لیتجمل بھا او دابۃ لیجنبھا بین یدیہ اودارا لالیسکنھا اوعبدا او دراھم او غیر ذالک لالیستعملہ بل لیظن الناس انہ لہ فالاجارۃ فاسدۃ فی الکل ،ولااجرلہ لانھا منفعۃ غیر مقصودۃ من العین ۔۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:9،ص:5 والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصا عن الكشف الكبير. حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:7,ص:10 واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی،ٹوپی (صوابی)
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق ڈالرزکی صورت میں کچھ رقم کے investment کے بعد آرڈرز کےyesکے نشان پرکلک کرکے آن لائن پیسے کمانے کا جوطریقہ سوال میں بتایا گیا ہے، وہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر ناجائز ہے: 1۔سوال میں یہ بتایا گیا ہے کہ "اس میں یہ بھی ہے کہ جب آپ کسی اور کوانوائٹ کرلیں، اوروہ آپ کے واسطےسے اس میں investment کر لیں تو اس کے کمیشن کا16 فیصد آپ کوبطوربونس ملے گا۔ پھر جب وہ آگےکسی دوسرے کوانوائٹ کرے گا تو اس کواس دوسرے بندے کے investment کا16فیصداورآپ کو 8فیصد آپ کو بطوربونس ملے گا۔ پھرجب وہ دوسراآگے کسی تیسرے کوانوائٹ کرے گاتواس کے کمیشن کا4فیصد آپ کوبطوربونس ملے گا۔تین مرحلوں تک یہ سلسلہ بھی چلتا ہے۔۔۔۔۔الخ " اس کو ریفرل بونس کہا جاتا ہے (یعنی ممبردرممبردرممبربنانے کی وجہ سے پہلے ممبر جس کے توسط سے یہ چین بنی ہے ،کوبھی بونس ملنا) شریعت مطہرہ نے اس قسم کے نفع کو ناجائز قرار دیا ہے ۔لہٰذا ایسے کسی بھی ادارے سے وابستگی شرعاً جائز نہیں۔ 2۔ ایڈزوغیرہ پرکلک کرنا کوئی منفعت مقصودہ نہیں،اس وجہ سے بھی یہ اجارہ درست نہیں ہے۔ 3۔ اگر ان آرڈرزکےاشتہارات میں کسی جان دار کی تصویر ہو تواس کادیکھنا جائز نہیں ،لہٰذا اِس صورت میں اُس پرجواجرت لی جائے گی وہ بھی جائز نہیں ہوگی۔ 4۔ ان آرڈرزکے اشتہارات میں اگرخواتین کی تصاویر ہوں تو ان کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے ایک مستقل گناہ ہوگا۔ 5۔جیسا کہ سوال میں بتایاگیا ہے کہ آرڈرز پر yesکے نشان پرکلک کرتے وقت اپنے آپ کو بائع ظاہرکرنا ہوتا ہے ۔ شریعت کی رُو سے یہ ضروری ہے کہ منقولی اشیاء میں مبیع بیچنے والے یعنی بائع کی ملکیت میں ہواور وہ خود یا وکیل کے ذریعےاس پر قبضہ بھی رکھتا ہو۔ آن لائن تجارت میں اگر مبیع بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار،تصویر دکھلا کر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،سٹور وغیرہ سے خرید کر دیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔اور صورت مسئولہ میں یہی صورت حال ہے کہ مبیع بائع کی ملکیت میں نہیں ہے وہ صرف اپنے آپ کو فرضی بائع ظاہر کرتا ہے اس وجہ سے بھی یہ کاروبار جائز نہیں ہے۔ 6۔ اس میں کلک کرنے والا ایک ہی شخص کئی بار کلک کرتا ہے جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھنے والے بہت سے لوگ ہیں ، جس سے اس اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھتی ہے،حالانکہ یہ بات بھی خلاف واقعہ اور دھوکا دہی ہے۔ 7۔ عموماً آن لائن کاروبار میں کرپٹوکرنسی کا بھی معاملہ شامل ہوتا ہے حالانکہ ڈیجیٹل کرنسی تاحال مشکوک ہے اور ہمارے وطن عزیز میں اسے تاحال کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں۔جب تک مقامی حکومت اوراسٹیٹ کی جانب سے اسے کرنسی اور ثمن تسلیم نہ کیا جائے اور عوام میں جب تک اسے رواج عام نہ مل جائے اور عوام رغبت ومیلان کے ساتھ اسے قبول نہ کریں ،اس وقت تک اس کے ساتھ معاملات سے اجتناب کیا جائے۔ 8۔ آپ جو رقم انوسٹ کرتے ہیں تو اس رقم سے یہ لوگ کون سا کاروبار کرتے ہیں؟یہ بھی سوال میں واضح نہیں ۔اگریہ لوگ آپ کی investment سے کوئی ناجائز کاروبار کرتے ہوں تو یہ بھی تعاون علیٰ المعاصی ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ 9۔ ان کمپنیوں کا عموماً کوئی شرعی ایڈوائزر نہیں ہوتا جو ان کے تمام کاروبار کا شرعی نقطہ نگاہ سے نگرانی کرتا ہو۔ 10۔ جن چیزوں کے اشتہارات پر کلک کرنا پڑتا ہے ان کے بارے میں یہ صراحت نہیں ہوتی کہ آیا ان چیزوں کاکاروبار شریعت میں جائزبھی ہے یا نہیں؟کیونکہ جو چیزیں شرعاً حرام ہیں ان کی تشہیر کرکے پیسے کماناجائز نہیں ہے۔ 11۔ مصنوعی طریقے سے پروڈکٹ کواوپر لانا ایک توناجائزاشتہاربازی کی ایک صورت ہے اوردوسرے اس میں خریدار کو دھوکہ دینا ہے ۔دھوکادہی کی وجہ سے یہ عمل "بیع نجش"کی طرح ہےجس میں مقصود خریداری نہیں ہوتی صرف قیمت بڑھا چڑھا کربیان کی جاتی ہے۔اس وجہ سے بھی ان اشتہارات پر کلک کرنے سے جو پروڈکٹ رینکنگ بڑھتی ہے ،یہ عمل ناجائز ہے۔ 12۔ ان آن لائن کمپنیوں نے کمیشن کو ایک مستقل تجارتی شکل دے رکھی ہے جبکہ اسلامی نظام معیشت میں کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ۔ 13۔اس قسم کے کاروبار میں عموماً مصنوعات بیچنا اصل مقصد نہیں ہوتا بلکہ ممبر سازی کے ذریعے سے کمیشن درکمیشن کاروبار چلانا اصل مقصد ہوتا ہے، جس میں جوئے کی ایک نئی شکل بن جانے کااحتمال موجودہے۔ قال اللہ تعالیٰ:وتعاونوا علیٰ البر والتقویٰ ولا تعاونوا علیٰ الاثم والعدوان۔( القرآن) عن حکیم بن حزام قال :یارسول اللہ،یاتینی الرجل فیرید منی البیع لیس عندی،افابتاعہ لہ من السوق؟فقال:لاتبع مالیس عندک۔ سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،رقم الحدیث:3503 الثانی:ان یبیع منہ متاعا لایملکہ ثم یشتریہ من مالکہ ویدفعہ الیہ وھٰذا باطل لانہ باع مالیس فی ملکہ وقت البیع ،وھٰذا معنی قولہ:لاتبع مالیس عندک ای شیئا ً لیس فی ملکک حال العقد۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح،دارالفکر،بیروت،باب المنہی عنھا من البیوع،ج:5،ص:1937 وقد نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الملامسۃ والمنابذۃ ولان فیہ تعلیقا ً بالخطر۔۔۔۔وفیہ معنی القمار لان التملیک لایحتمل التعلیق لافضائہ الیٰ معنی القمار۔۔۔۔الخ البنایۃ شرح الھدایۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،ج:8،ص:158۔ وکرہ النجش بفتحتین ویسکن:ان یزید ولا یرید الشرآء اویمدحہ بمالیس فیہ لیروجہ ویجری فی النکاح وغیرہ۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارعالم الکتب ،ریاض،ج:7،ص:305 مطلب فی اجرۃ الدلال:قال فی التتارخانیۃ:وفی الدلال والسمسار یجب اجر المثل،وما تواضعواعلیہ ان فی کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیھم۔وفی الحاوی :سئل محمد بن سلمۃ عن اجرۃ السمسار فقال:ارجوانہ لاباس بہ وان کان فی الاصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیر من ھٰذا غیرجائز،فجوزوہ لحاجۃ الناس الیہ کدخول الحمام ۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:9،ص:87 الاجارۃ علیٰ المنافع المحرمۃ کالزنیٰ والنوح والغناء والملاھی محرمۃ،وعقدھا باطل لایستحق بہ اجرۃ،ولایجوز استیجار کاتب لیکتب لہ غناء ونوحا لانہ انتفاع بمحرم۔۔۔۔ولایجوز الاستیجار علیٰ حمل الخمر لمن یشربھا ولا علیٰ حمل الخنزیر۔۔۔۔الخ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،1/290 ھی لغۃ:اسم للاجرۃ وھومایستحق علیٰ عمل الخیر ولذا یدعی بہ،یقال اعظم اللہ اجرک،وشرعا تملیک نفع مقصودمن العین بعوض حتیٰ لواستاجرثیابا اواوانی لیتجمل بھا او دابۃ لیجنبھا بین یدیہ اودارا لالیسکنھا اوعبدا او دراھم او غیر ذالک لالیستعملہ بل لیظن الناس انہ لہ فالاجارۃ فاسدۃ فی الکل ،ولااجرلہ لانھا منفعۃ غیر مقصودۃ من العین ۔۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:9،ص:5 والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصا عن الكشف الكبير. حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:7,ص:10 واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی،ٹوپی (صوابی)