آزاد کے لفظ سے طلاق بائن واقع ہونے کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر نے مجھ سے لڑائی کے دوران کہا کہ"تم میری طرف سے آزاد ہو،جس کے ساتھ اور جہاں جانا چاہو،جاسکتی ہو"۔یہ الفاظ اس نے مجھے چھ بار دہرائے۔اس کے بعد ہم نے تجدید نکاح کیا ہے۔شریعت مطہرہ کی رُو سے یہ طلاق کی کون سی قسم ہے؟اور ہمارا تجدید نکاح کرنا درست ہے یا نہیں؟شریعت کی روشنی میں تفصیلی جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی فرزانہ فرید گاؤں تورڈھیر،تخت بھائی ضلع مردان 0345-9335003

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق سوال کاجواب دینے سے پہلےلفظ "آزاد"سے طلاق واقع ہونے کے بارے میں چند ایک تمہیدی باتوں کاجاننا ضروری ہے۔

پہلی بات:کچھ الفاظ ایسے ہیں کہ جواپنے اصل وضع کے اعتبار سے طلاق کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کادونوں کااحتمال ہوتا ہے۔بعد میں یہ الفاظ عرف ورواج میں کثرت سے طلاق میں استعمال ہونے لگےاورغیرطلاق میں ان کااستعمال کم ہونے لگا۔عرف میں بکثرت طلاق میں ہی استعمال ہونے کی وجہ سےان الفاظ کو طلاق کے صریح الفاظ میں شمارکیا جانے لگا۔ان الفاظ کو فقہائے کرام کی اصطلاح میں" ملحق بالصریح" کا نام دیا جاتا ہے "آزاد"کالفظ بھی ان الفاظ میں شامل ہے۔

دوسری بات:ملحق بالصریح میں نیت کااعتبار نہیں ہوتا بلکہ بغیر نیت کے بھی ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

تیسری بات:ملحق  بالصریح الفاظ سے طلاق رجعی واقع ہونے یاطلاق بائن واقع ہونے کا دارومدار اس بات پرنہیں ہے کہ وہ الفاظ صریح ہیں یا کنایہ،بلکہ ان الفاظ سے طلاق رجعی یاطلاق بائن واقع ہونے کامداران الفاظ کے مقتضیٰ پر ہوتا ہے۔اگر لفظ ایسا ہے کہ اس کے معنی میں خفت اور نرمی ہےاور اس لفظ کامفہوم میاں بیوی کے مابین ایسی جدائی کاتقاضا کرتا ہےکہ جس میں شوہرمکمل طور پر بیوی سے جدا نہ ہو بلکہ شوہرکورجوع کاحق حاصل ہوتواس صورت میں ان الفاظ سے واقع ہونے والی طلاق کو طلاق رجعی کہاجاتاہے۔اوراگر لفظ ایسا ہے کہ جس کے معنی میں شدت اور سختی ہواوراس لفظ کامفہوم اس بات کا تقاضا کرتا ہومیاں بیوی کے درمیان مکمل جدائی واقع ہو جائےتواس صورت میں ان الفاظ سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔

چوتھی بات:ہمارے دارالافتاء کی تحقیق کے مطابق لفظ"آزاد"درحقیقت عربی زبان کے لفظ"حرۃ"کاترجمہ ہے "سرحتک"کاترجمہ نہیں۔"سرحتک"کے مفہوم میں نرمی ہے اس وجہ سے جن جن مفتیان کرام صاحبان کی تحقیق کے مطابق"آزاد"کالفظ"سرحتک"کا ترجمہ ہے ان کے ہاں لفظ آزاد سے طلاق رجعی واقع ہوتی ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ"حرۃ"کاترجمہ ہے جیساکہ یہ قول بھی ہمارے کئی ایک اکابر کا ہے جن کے حوالہ جات آگے آرہے ہیں،اس وجہ ہمارے ہاں اس سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے کیونکہ "حرۃ"کے مفہوم میں سختی ہے،اورجہاں مفہوم میں سختی ہو وہاں طلاق رجعی نہیں بلکہ طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔

پانچویں بات:جب ایک بار "آزاد"کے لفظ سے طلاق بائن واقع ہوگئی تو بیوی اپنے شوہر سے جدا ہوگئی ،اب اس کے بعدجتنی بار بھی"آزاد"کالفظ بولے گا تو مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ،کیونکہ ایک طلاق بائن کے بعد دوسری طلاق بائن واقع نہیں ہوتی۔

چھٹی بات:لفظ "آزاد"وقوع طلاق کے اعتبار سے توصریح ہے لیکن لحوق کے اعتبار سے بائن ہے۔چونکہ وقوع طلاق کے اعتبار صریح ہے اس وجہ سے طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو بہرصورت اس لفظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ،مگرلحوق کے اعتبار سے بائن ہے اس وجہ سے اس سے ایک ہی طلاق بائن واقع ہوگی۔

مذکورہ بالا چھ باتوں کو سمجھنے کے بعد آپ کے سوال کا جواب مندرجہ ذیل ہے:

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال آپ پرایک طلاق بائن واقع ہوئی تھی جس کے بعد تم دونوں نے نکاح جدید بھی کیا ہے،اس وجہ سے اب تم دونوں شریعت کی روشنی میں میاں بیوی ہی ہو البتہ آپ کے میاں کے پاس آئندہ صرف دو طلاقوں کااختیار ہو گا۔

 

(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية، ولا ينافي ذلك ما يأتي من أنه لو قال: طلاقك علي لم يقع لأن ذاك عند عدم غلبة العرف. وعلى هذا يحمل ما أفتى به العلامة أبو السعود أفندي مفتي الروم، ومن أن علي الطلاق أو يلزمني الطلاق ليس بصريح ولا كناية: أي لأنه لم يتعارف في زمنه. ولذا قال المصنف في منحه: أنه في ديارنا صار العرف فاشيا في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره فيجب الإفتاء به من غير نية، كما هو الحكم في الحرام يلزمني وعلي الحرام۔۔۔۔۔۔الخ

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،1412ھ،ج:03،ص:352۔

(قوله صريح) هو ما لا يستعمل إلا في حل عقدة النكاح سواء كان الواقع به رجعيا أو بائنا كما سيأتي بيانه في الباب الآتي (قوله وملحق به) أي من حيث عدم احتياجه إلى النية كلفظ التحريم أو من حيث وقوع الرجعي به وإن احتاج إلى نية: كاعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة أفاده الرحمتي (قوله وكناية) هي ما لم يوضع للطلاق واحتمله وغيره كما سيأتي في بابه.

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،1412ھ،ج:03،ص:230۔

واما الطلاق الرجعي فان كل لفظة فيها لين ولطف فهو رجعي وكل لفظ فيه عنف وغلظ فهو بائن

النتف فی الفتاویٰ،دارالفرقان،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1404ھ،ج:01،ص:321۔

وكونه التحق بالصريح للعرف لا ينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه، والله سبحانه وتعالى أعلم

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،1412ھ،ج:03،ص:299و300۔

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح، فمنه الطلاق الثلاث فيلحقهما، وكذا الطلاق على مال فيلحق الرجعي ويجب المال، والبائن ولا يلزم المال كما في الخلاصة فالمعتبر فيه اللفظ لا المعنى على المشهور (لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخبارا عن الأول۔۔۔۔الخ

الدر المختار،دارالفکر،بیروت،1412ھ،ج:03،ص:306۔

تیسراجملہ(میں نے آزاد کردیا)طلاق صریح بائن ہے،لہٰذا اس سے طلاق کی نیت ہویانہ ہو،بہرحال ایک طلاق بائن ہوگئی۔

احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعیدکراچی،طبع یازدھم،1425ھ،ج:05،ص:202۔

اگر  شوہر نے صریح لفظ طلاق تین دفعہ نہیں کہا بلکہ آزاد کرنے کالفظ تین دفعہ کہاہےتواس سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوتی ہے۔جیسا کہ درمختارمیں ہے کہ بائنہ کے بعد دوسری بائنہ واقع نہیں ہوتی اورایک طلاق بائنہ کے بعدشوہر اول بدون حلالہ کے اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے عدت میں بھی اور بعد عدت کے بھی۔۔۔الخ

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت کراچی،ستمبر2002ء،ج:09،ص:261۔

حالت غصہ میں اپنی زوجہ کواس لفظ کے کہنے سے کہ توآزاد ہے،ایک طلاق بائنہ واقع ہو جاتی ہےقضاء نیت کااعتبار نہیں ہےکذافی الشامی۔لہٰذا اس عورت کو بدون نکاح جدید کے رکھنا درست نہیں ہے۔پس اگر دوبارہ نکاح کرنے پر رضامندی ہےتوبدون حلالہ کے نکاح ہوسکتا ہےاز سرنو نکاح کرلیا جاوے۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت کراچی،ستمبر2002ء،ج:09،ص:298۔

اگر شوہر نے واقعی سوال میں درج شدہ الفاظ(آزاد)کہے ہوں تواس کی بیوی پرایک طلاق بائن واقع ہو گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اگر عدت گزر گئی ہوتوعورت کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہےاور سابقہ شوہر سے بھی نکاح ہوسکتا ہے ،کسی قسم کے حلالہ کی ضرورت نہیں۔۔۔الخ

فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز کراچی،اشاعت اول،دسمبر2010ء،ج:04،ص:142،143۔

صورت مسئولہ میں تجدید نکاح کافی ہےکیونکہ اولاً"توآزاد ہے"ہمارے بلاد کے محاورہ میں کنایات سے ہےاور اگر صریح ہونا تسلیم کیا جائے تویہ بائن میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔الخ

فتاویٰ فریدیہ،دارالعلوم صدیقیہ زروبی،طبع اول،نومبر2009ء،ج:05،ص:342۔

واضح رہے کہ یہ لفظ"مجھ سے آزاد ہے"بذات خود کنایہ ہےلیکن ہمارے عرف میں یہ لفظ طلاق بائن میں متعارف ہے لہٰذا بشرط صدق وثبوت اس سے طلاق بائن واقع ہوگی۔

فتاویٰ فریدیہ،دارالعلوم صدیقیہ زروبی،طبع اول،نومبر2009ء،ج:05،ص:360۔

آزاد کردیا ترجمہ ہے لفظ حرۃ کااور اس سے طلاق بائن واقع ہوتی ہےاورجب پہلی بار یہ کہاتواس سے اس کی زوجہ مطلقہ بائنہ ہوگئی اور اس کے بعدجتنی دفعہ اس لفظ کااستعمال کیااس سے کوئی اور طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاویٰ مفتی محمود،جمعیت پبلیکیشنز لاہور،اشاعت چہارم،اپریل 2009ء،ج:06،ص:361۔

اگرصریح ایسا ہے کہ اس کے معنی میں شدت اور سختی ہے اور اس کامفہوم بائن کا تقاضا کرتا ہےتو پھر اس سے بائن واقع ہوگی۔یہی فرق ہے جس کی وجہ سے چھوڑنے کے لفظ سے رجعی اور لفظ آزاداورحرام وغیرہ سے بائن کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔

الفاظ طلاق کے اصول،مکتبہ السنان کراچی،اشاعت دوم،2017ء،ص:68۔

صورت مسئولہ میں شوہر نے اپنی بیوی کویہ الفاظ کہ"تومیری طرف سے آزاد ہے جہاں تیرا دل چاہے چلی جا"غصہ کی حالت میں کہے ہیں(جیسا کہ سوال میں مذکور ہےکہ دوران لڑائی کہا ہے)تواس کی بیوی پرایک طلاق بائن واقع ہو گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ "تم میری طرف سے آزاد ہو"کاجملہ عرف میں طلاق کے لیے مستعمل ہےاورصریح ہے۔البتہ بعض صورتوں میں اس میں طلاق اور غیرطلاق دونوں کااحتمال ہوتا ہےاورایسا جملہ جوطلاق اور غیر طلاق دونوں کااحتمال رکھے"کنایہ"کہلاتا ہے،جس میں طلاق کی نیت یاطلاق کاقرینہ یعنی غصہ یامذاکرہ طلاق سے طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔۔۔الخ

فتویٰ جامعہ دارالعلوم کراچی،فتویٰ نمبر:90/1489،تاریخ اجراء:29/11/2012۔

"توآزاد ہے"کے الفاظ سے ہمارے عرف اوراستعمال کے مطابق طلاق بائن واقع ہوگی اور نکاح ٹوٹ جائے گا۔

فتویٰ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی،فتویٰ نمبر:143802200039،تاریخ اجراء:12/11/2016۔

واللہ اعلم بالصواب

                                                مفتی ابوالاحراراُتلوی

                        دارالافتاء

                                جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

                        محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی